انکشاف

عالمی افسانوی میلہ ۲۰۱۴
رضیہ کاظمی
نیو جرسی، امریکہ
رات آدھی سے زیادہ بھیگ چکی تھی. ایڈوکیٹ صاحب بیچینی سے بستر پر کروٹیں بدل رہے تھے . نیند آنکھوں سے کوسوں دورتھی . اسپنج کے گدّے کی نرمی، ریشمی پردوں کی سرسراہٹ ، بڈروم کی ہلکی نیلی روشنی اور باہر سے آتی ہوئ جھرنے کی مدھر موسیقی ،
اس وقت ان کے لۓ یہ سب بے معنی تھے. انھوں نےاپنے پہلو میں مست خواب بیگم کو دیکھا اور نفرت سے منھ پھیر لیا.
” امیر والدین کی ناز پروردہ بیٹی … جذبات سے عاری… بے حس.”
وہ زیر لب بڑ بڑاۓ . اور پھر ان کا  ذہن ماضی کےدھندلکے میں کہیں کھو گیا .
قدرت کسی بچّےکو یتیم نہ کرے . شعور بیدار ہوتے ہی شکورے نے خود کو لاوارث پایا . اس نے اپنے چاروں طرف زمیندار سکندر بخت اور انکے بیوی بچّوں کو دیکھا . زمیندار صاحب ظلم ، سفّاکی ، اور بے رحمی میں یکتاۓ روزگار تھے . شکورے ان کے ایک کاشتکار کا اکلوتا بیٹا تھا. جب ایک وبائ  بیماری میں اسنے ماں باپ دونوں کھو دۓ تو سکندر صاحب نے اسےاپنےگھر رکھ لیا تاکہ باہرکا سودہ سلف بآسانی آسکے .
شکورےکی چھوٹی سی کھٹولیہ نصیبن بوا کی جھلنگی کھاٹ کے پاس ہی بچھا کرتی تھی . نصیبن بھی شکورے ہی کی طرح ایک بے سہارا عورت تھی جسےزمیندار کی بیوی عائشہ بیگم اپنے ساتھ جہیز میں لائ تھیں . ان کا خاص کام تھا بیگم صاحبہ کے لۓ بیت الخلا میں لوٹے میں پانی رکھنا، منھ دھونے کے لۓ چوکی پر پانی رکھنا،  نہانے سے پہلے سر دھلانا،رات کو بستر  بچھانا اور روتے ہوۓ بچّوں کو بہلانا . اس کے چونڈے کے بال پک چکے تھے مگر مانگ پر افشاں نہیں سج پائ تھی  اور منھ پوپلا ہوکر بھی اب تک نتھ کی پھبن سےمحروم تھا.
شکورے کبھی کبھی جب خواب میں چونک کر رو پڑتا تو اسے نصیبن کی ڈانٹیں سن کر دوبارہ سونا پڑ تا. ماں بیٹے کے مقدّس رشتے سے وہ بالکل نابلد تھا .  اکثر وہ یہی سوچتا کہ ہونہ ہو نصیبن ہی اس کی ماں ہے . ایک دن واقعی وہ ماں کہہ کر اچانک اس سے لپٹ گیا .
“چل ہٹ . کیا میں تیرے باپ کی رکھیل ہوں ” کہتے ہوۓ نصیبن نے اسے پرے ڈھکیل دیا . رکھیل والی بات تو پانچ سال کے بچّے کے سمجھ میں خاک آتی البتّہ پیار کے بدلےدھکّا اور کہنی میں چوٹ کھانے کے سبب وہ دیر تک سسک سسک کر روتا رہااور پھر خود ہی سو گیا . سویرے اٹھا کہنی کی چوٹ سے پانی رس رہا تھا . اس پراس نےذرا سی دھول چھڑکی اور پھر کھیل کود میں مگن ہوگیا .
وہ دوسرے آس پاس کے نوکروں کےبچّوں کے ساتھ کھیلتے کھیلتے بڑاہو رہا تھا . اپنے ہی ہم عمر احمر کےساتھ جب وہ کھیلتا تو بیگم صاحبہ ڈانٹ دیا کرتی تھیں . کافی عرصہ تک تو وہ اپنی حیثیت سمجھ ہی نہیں سکا. مالک کسی نوکر کو کب تک مفت کی روٹی توڑنے کا متحمّل ہوتا . اب اس پر کام کرنے کا دباؤ پڑنے لگا تو وہ اکثر احمر سے مقابلہ کربیٹھتا . ایک دن جب اس کی مالکن نے اپنی دوسالہ بیٹی  لاڈو کے پوتڑے اس سےدھونے کہے تووہ اکڑ گیا اور صاف منع کردیا کہ آپ احمر سے کیوں نہیں کرواتیں  .
” ہائیں ! کمبخت! تو نوکر ہوکر میرے بچّوں کی برابری کرنے چلا ہے. “زمیندارن صاحبہ دہاڑیں .وہ ڈر کر اٹھاان کا حکم توبجا لایا لیکن یہ چہار حرفی لفظ نوکر اس کے دماغ میں کئ دنوں تک گھومتا رہا . اس کےسمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ میڈم کے بچّے بھی بالکل میری ہی طرح ہیں میں کیوں نو کر ہوں اور وہ کیوں نہیں ہیں . میرے ہاتھ پانؤں آنکھ ناک سب انھیں کی طرح ہیں تو میں کیوں نوکرہوں .
ایک دن احمر کے ساتھ پڑوس کے چند بچّےکھیلنے آۓ تھے تو وہ ان سے پوچھ بیٹھا. “کیا تم لوگ نو کرہو ؟”
” خدا نہ کرے.” ان لوگوں نے جواب دیا
” تو پھرکمبخت ہو”  وہ ان سےپوچھ بیٹھا . کچھ بچّے اسے مارنے دوڑے لیکن انھیں میں ایک نے سب کو روکا.
” کمبخت ان کو کہا جاتا ہے جن کے ماں باپ مر گۓہوں” اسی نےشکورے کو بھی سمجھایا.
” کوئ مرتا کیوں اورکیسےہے؟” پانچ سالہ شکورے نے معصومیت سے پوچھا.
“اچھّے لوگوں کو جیسے سب پسند کرتے ہیں الّلہ بھی پسند کرتا ہے اور اپنے پاس بلا لیتا ہے . بس اسی کو مرنا کہتے ہیں .”
“کیا مجھے الّلہ میاں کےگھرجانے کا راستہ بتا دوگے شمشیربھیّا”
” نہیں شکورے وہاں کا رستہ کوئ نہیں جانتا.”
” تو میرے امّاں ابّا کدھر سے گۓ”
” جسے بلانا ہوتا ہےوہ خود ہی رستہ بھی بتادیتے ہیں .”
یہ کہہ کے شمشیر تو چلا گیا اور شکورے کے دل میں آلّلہ میاں کےگھر سے  بلاوے کے لۓشدید انتظارچھوڑ گیا. اب وہ اپنے دوستوں سے ماں کے مرنے کی باتیں فخریہ بیان کیا کرتا . اپنی سمجھ میں ساری بری عادتیں چھوڑ کراچّھا انسان بننے لگا تاکہ اسے بھی الّلہ میاں بلا سکیں لیکن دھیرے دھیرے یہ حقیقت اس پرواضح ہوتی گئ کہ وہاں جانے والے کبھی واپس نہیں آیا کرتے .
ایک دن چاۓ کی کیتلی توڑ دینے پر اسے اتنی مار پڑی کہ اس کے قدم سکندر صاحب کے یہاں سے اکھڑ گۓ . وہ یہاں سےبھا گ نکلا . جلد ہی گرفتار کرکے لے آیا گیا . اس پر پابندیاں بڑھ گئیں .اسکادل اچاٹ ہو ہی چکا تھا . بس ابھی زمین نے سورج کے سات چکّر لگا ۓ تھے کہ وہ سکندر صاحب کی اچکن سےسو کا نوٹ لے کر ہوا ہو گیا. دربدربھٹکتا رہا  . پھراسکےہاتھ آٹو رکشہ کی اسٹیرنگ پرچلنےچلنےلگے۰ زندگی کا پہیہ گھومنےلگااور ساتھ ساتھ تعلیم کا چکّر بھی ۰
ما ضی کاشکورے حال کےشکور احمد ایڈوکیٹ بن گۓ . گورنمنٹ ایڈوکیٹ . بچپن سےزبان کی قفل بندی اب کھلی توعدالت میں زبان کے وہ جوہر دکھاتے کہ فریق مخالف کو بغلیں جھانکنے پر  مجبور ہونا پڑتا . جب قسمت نےیاری کی تو انھیں بھی وہ سب ملا جسے عام طورہمارے معاشرےمیں خوش نصیبی کی علامت مانا جاتا ہے. انھیں اپنی گرہستی میں بھی کئ شکوروں کو لانا پڑالیکن انھوں نےہمیشہ شکورے اور شکوراحمد کی درمیانی خلیج کو پاٹنے کی کوشش کی .
ہر سال گرمیوں میں جب  ہائ کورٹ بند ہوتا تو وہ کسی نہ کسی پہاڑی مقام  پراپنے بیوی بچّوں کے ساتھ ضرور جاتے. اس سال انھوں نے کشمیر جنّت نظیر جانے کا پروگرام بنایا . کئ ماہ پیشترہی ایک چھوٹا سابنگلہ کرایہ پر لیاجاچکا تھا. کشمیر ایک طرف قدرت کی فراواں اور گوناگوں ضیافتوں کا خزینہ ہےتو دوسری جانب مفلسی اور غربت کی آماجگاہ بھی . دو کتّوں کے درمیانی ہڈّی بن جانے کے سبب اکثر شاہ پسند قالینوں، شالوں ، نمدوں اور خوبصورت پشمینہ و فر کا سامان بنانے والے ماہر فنکاروں کے پیٹ خالی اور تن ننگے رہتے ہیں لہ’ذا ایڈوکیٹ صاحب کو نوکر ملنے میں کوئ دشواری نہیں ہوئ . نوراں ایک ٹٹّو والے کی لڑکی تھی . حالانکہ آج کل سیزن تھا لیکن کثرت اولاد کی وجہ سےآمدنی اٹھني خرچہ روپیّا والا معاملہ تھا اس لۓ وہ سیزن میں آنےوالوں کے یہاں گھریلو کام بھی کرلیا کرتی تھی . بنگلہ میں پانی کا کوئ انتظام نہیں تھا تھوڑی دور پر گرتا ہوا جھرنا ہی آس پاس کے بنگلوں کے لیۓ ذریعہ آب تھا . یہ کافی نشیب میں واقع تھا . گھر کے دوسرےکاموں کی انجام دہی کے بعد نوراں کا اہم کام پورے گھر کے پانی کی ضرورت کو پورا کرناتھا . وہ جھرنے تک پہاڑی بکریوں کی طرح کودتی پھاندتی جاتی اور اسی طرح پانی لے کر واپس آتی .
برامدہ سے کراہ کی تیز آواز سنائ دی . ایڈو کیٹ صاحب ابھی تک ایسے ہی کروٹیں بدل رہےاب تو ان سے بستر پر بالکل لیٹا نہیں گیا . ان کے قدم بے اختیار ادھر ہی اٹھ گۓ . نوراں اچانک انھیں اپنے قریب دیکھ کر سٹپٹا گئ.
” کیا ہوا نوراں ؟ کیا زیادہ درد ہورہا ہے؟ “انھوں نے گھبراکر پوچھا
“ہاں صاب . لیکن خدا کےلیۓ آپ یہاں سے چلے جایۓ. آپ کو یہاں نہیں آنا چاہۓ تھا”. اس نے لجاجت سےکہا .  ایڈوکیٹ صاحب کے دماغ کی وکیلانہ سوچ یہاں مات کھاکر پیچھے ہٹ گئ اور وہ اپنے کمرہ میں واپس لوٹ گۓ لیکن غم و غصّہ کے شدیداحساس نے انھیں رات بھرسونے نہ دیا.
سلییمہ احمد، مسز شکور احمد صاحب ایڈوکیٹ نے بیتی شام پانی کا ڈرم آدھا خالی دیکھ کر وہ واویلا مچائ تھی کہ بیچاری نوراں کو اس کی سبیل میں بھاگناہی پڑا تھا . جھرنےتک پہنچنے کے لیۓ چٹّانوں کوکاٹ کر پگڈنڈیاں بنائ گئ تھیں. شام کا دھندلکا پھیلنے کے سبب راستہ صاف دکھائ نہ دیا . واپس لوٹتےہوۓ نوراں کا پاؤں پھسل گیااور وہ کھڈ میں گرتے گرتے بچی . جب چل پانے کےقابل ہوئ اوراپنی لنگڑاہٹ چھپاتی وہ گھر پہنچی تو طمانچوں کو اپنے استقبال میں منتظر پایا .
“نوراں ، نوراں ! کہاں مر گئ کمبخت ؟ مجھےبڈ ٹی چاہیۓ.” بیگم کی اس دہاڑ سے ایڈوکیٹ کی آنکھ جو ابھی پچھلے پہر لگی تھی فورا کھل گئ.
” سو گئ ہوگی بیچاری . کل اس نے چوٹ بھی تو اتنی کھائ تھی .” اب میاں سے برداشت نہیں ہوسکا .
” آپ کون ہوتے ہیں اس چارٹکے کی نوکرانی کے ہمدردی کرنےوالے” جواب  طلب ہوا.
” میں اس کا مالک ہوں. میں نےاسےاسکے کام کی اجرت پر نوکر رکّھا ہے. اسے خریدا نہیں ہے . تمہیں اس سے اپنےکل کے برتاؤ کے لیۓ ابھی جاکر معافی مانگنی ہوگی .” رات بھر پکنے والا لاوہ ابل پڑا .
” میں ؟ ایک نوکر سے معافی ؟ .” بیگم نے جیسے کسی آٹھویں عجوبہ کے بارے میں سن لیا ہو .
” اور…. اگر میں… کبھی تمہاری شان میں کوئ گستاخی کر بیٹھوں تو معافی نہیں مانگو گی ؟”
” کیوں نہیں ؟ ضرورمانگوں گی. آپ میرے شوہر ہیں. باحیثیت شہری بھی ہیں کوئ میرےگھریلو نوکرنہیں .”
“تو میں آج آپ کو بتادینا چاہتاہوں کہ آج کی نوراں کےحال اور میرے ماضی کی حیثیت میں کوئ زیادہ فرق نہیں . ”
اچانک اس انکشاف سےبیگم بے ہوش ہوتے ہوتے بچیں . شوہرنے انھیں سنبھالا دیا . اسی دوران چوکیدارنے اطّلاع دی کہ نوراں تڑکے ہی اپنے گاؤں یہ کہہ کے واپس  چلی گئ کہ وہ اب میدان والوں کی نوکری نہیں کرے گی . عزّت ہرکسی کو پیاری ہوتی ہے .
چوکیدار کی اس خبر کے لفظ ‘ عزت ‘ پردونوں ایک دوسرے کو دیرتک مشکوک نظروں سے
گھورتے رہے.

اپنا تبصرہ لکھیں