انڈیا اردو سوسائٹی قطر کے ز یرِ اہتمام ماہانہ مشاعرہ

راشد عالم کلام سناتے ہوے 1

ناب شوکت عجلی درد (حیدرآباد دکن )اور جناب شمس الغنی (کراچی) کی شرکت

‘انڈیا اردو سوسائٹی’ قطر کی ایک قدیم اور نمائندہ ادبی تنظیم ہے جو یہاں مقیم اردو ادب دوستوں کی شیرازہ بندی کا ایک معتبر عنوان ہے۔ (2004) میں اپنے قیام کے وقت سے ہی یہ تنظیم قطر میں اردو زبان اور شعروادب کے فروغ میں کوشاں رہی ہے۔ ماہانہ شعری نشستوں اور ادبی مذاکروں کے علاوہ اس تنظیم نے شاعری کے عالمی دن (Word Poetry Day) کی مناسبت سے (21/جون 2013ئ ) کو ‘جشن وسیم بریلوی ‘ کے عنوان سے دوحہ کے شیراٹن ہوٹل میں ایک کل ہند مشاعرہ بھی منعقد کیا تھا ، جس میں ہندوستان کے مشہور و معروف اور ممتاز شعراے کرام نے شرکت فرمائی تھی اور پروفیسر وسیم بریلوی کو ان کی شعری و ادبی خدمات کے اعتراف میں ‘حاصل حیات ایوارڈ براے شاعری Life-time Acheivement Award for Poetry پیش کیا گیا تھا۔
‘انڈیا اردو سوسائٹی’ نے نئے سال سے اپنی ماہانہ شعری نشستوں کی تجدید کی ہے ، جناب شوکت علی درد اور جناب شمس الغنی کی قطر آمد کے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سوسائٹی نے (23/جنوری 2015ئ بروز جمعہ بوقت 8بجے شب) صدر سوسائٹی جناب جلیل نظامی کے دولت کدے پر سالِ رواں کی پہلی شعری نشست کا انعقاد کیا۔
نشست کے ناظم ، اور’انڈیا اردو سوسائٹی’ کے نائب صدر جناب عتیق انظر نے مہمانوں کا خیر مقدم کیا، ان کی درخواست پر ‘گزرگاہ خیال ‘ کے بانی صدر اور قطر کی قدیم ترین اردو ادبی تنظیم بزمِ اردو قطر کے چیئرمین ڈاکٹر فیصل حنیف نے مسندِ صدارت کو رونق بخشی، مہمانِ خصوصی اور مہمان ِاعزازی کی نشستوں پر علی الترتیب جناب شوکت علی درد اور جناب شمس الغنی صاحبان جلوہ افروز ہوئے ، قاری فیاض بخاری صاحب نے سورة الاخلاص کی تلاوت سے نشست کا مبارک آغاز کیا۔
اس نشست کی ایک خصوصیت یہ بھی رہی کہ سوسائٹی نے اس نشست سے مختلف ادب کے تقابلی مطالعے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ اس سلسلے کا پہلا مقالہ ڈاکٹر ابو سعد ندوی نے پیش کیا۔ اپنے گراں قدر مقالے میں ڈاکٹر صاحب نے تقابلی مطالعات کی ضرورت و اہمیت واضح کی ، نیز عربی زبان میں تقابلی ادب کی تاریخ کا مختصر جائزہ پیش کیا۔ ڈاکٹر صاحب نے تفصیل سے بتایا کہ ادبیات عالم کے تقابلی مطالعہ سے مختلف ادبی اور تہذیبی گروپ ایک دوسرے کے فکری اور ادبی سرمایے سے کس طرح استفادہ کر سکتے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب کے پرمغز مقالے کے بعد دوحہ کے معروف و ممتاز شاعر اور ‘انڈیا اردو سوسائٹی’ کے صدر جناب جلیل نظامی نے اپنی پر سوز آواز میں نعت پیش کی ، جس کے منتخب اشعار سے آپ بھی محظوظ ہوں:
وجہِ تخلیقِ کون و مکاں مصطفی
جنبشِ خامۂ کن فکاں مصطفی
چاند تاروں سے روشن ہے بزمِ جہاں
دوجہاں میں مگر ضوفشاں مصطفی
جلیل نظامی کی اس مؤثر نعت کے بعد مشاعرے کا سلسلہ باقاعدہ شروع ہوا۔ ناظمِ مشاعرہ نے اردو زبان وادب پر تمہیدی گفتگو کرتے ہوے کسی شاعر کے مسدس کا مندرجہ ذیل بند اردو کے حوالے سے پیش کیا:
سادہ مزاج ایسی کہ شرمائے بیوگی
زینت پسند ایسی کہ جیسے دلھن نئی
وہ طرز انکساری کہ حیراں ہو مفلسی
وہ تمکنت کہ کانپ اٹھے روحِ سامری
یہ شمعِ دیر بھی ہے چراغ حرم بھی ہے
شمشیر بھی ہے جام بھی ہے اور قلم بھی ہے
اور مشاعرے کے پہلے شاعر شریف پرواز کو دعوتِ کلام دی۔ جناب پروازنے دعا کے چار مصرعوں سے اپنی شاعری کا آغاز کیا:
میں بے در ہوں مجھے تو در عطا کر
بلندی پر کوئی منظر عطا کر
بھروسے پر ترے میں اڑ رہا ہوں
مرے مولا مجھے شہپر عطا کر
غزل کے دو شعر:
وہ پھول مجھ سے جو منسوب ہونے والا تھا
وہ سارے جسم میں کانٹے چبھونے والا تھا
یہ کوششیں بھی عبادت سے کم نہیں پرواز
ہنسا دیا اسے میں نے جو رونے والا تھا
شریف پروازکے بعد ناظم مشاعرہ نے حاضرین کو ایک ایسے شاعر سے روبرو کرایا جنھوں نے اسی مشاعرے سے اپنے تخلیقی سفر کا آغاز کیا ، راشد عالم راشد نے اپنی پہلی غزل سے ہی سامعین کے دلوں میں جو جگہ بنائی وہ یقینا ان کے روشن ادبی مستقبل کی غماز ہے، چند شعر ملاحظہ ہوں:
کون دنیا میں مرا غمخوار ہے
جانتا ہوں میں وفا دشوار ہے
غیر کی جانب ہے چشم التفات
کیا مرا دشمن ہی تیرا یار ہے
روئیس ممتاز دوحہ کی ادبی فضا میں ایک جانا پہچانا نام ہے۔ انھوں نے آسان لفظوں میں دو غزلیں سنائیں اور سامعین کی توجہ پانے میں کامیاب رہے، چند شعر پیش خدمت ہیں:
دنیا کے میکدے میں غموں کی شراب سے
دو گھونٹ ہی میں ہونے لگے ہو خراب سے
ذکرِ عذاب چھیڑ دیا پھر سے شیخ نے
آکر کوئی بچائے مجھے اس عذاب سے
جگنو سمجھنے والے مجھے جانتے نہیں
روز آتے ہیں سلام مجھے آفتاب سے
مظفر نایاب جس ریاضت کے ساتھ اپنا فکری سفر طے کر رہے ہیں اس سے محسوس ہوتا ہے کہ جلد ہی ان کانام یہاں کی ادبی سرگرمیوں کے تناظر میں اہمیت کا حامل ہوگا، انہوں نے اپنے پرشکوہ انداز میں ایک نعت اور ایک غزل (تضمین بر غزل غالب) پیش کی، منتخب اشعار پیش ہیں:
تم نے مضمون یہ کیوں مہلک و قاتل باندھا
شہد کو شہد نہیں زہرِ ہلاہل باندھا
ہم نے بھی عزمِ سفر جانب منزل باندھا
جب بہ تقریبِ سفر یار نے محمل باندھا
گرمیِ حسن کے جب اس نے ستارے ٹانکے
تپشِ شوق نے ہر ذرہ پہ اک دل باندھا
اس کے بعد ایک پرسوز اور مترنم آواز نے سامعین کے دلوں پر دستک دی، وزیر احمد وزیر کی خوبصورت غزل نے واقعی ایک سماں باندھ دیا، چند اشعار سے آپ بھی محظوظ ہوں:
کرتا پرواز میں کیا پر تو کٹے تھے میرے
کاٹنے والے سبھی لوگ تھے اپنے میرے
وقت کے ساتھ مقدر نے بھی منہ موڑ لیا
اب تو کرنیں بھی بھلا بیٹھیں دریچے میرے
کیا کہیں رات نے لوٹا تو نہیں سورج کو
ایک مدت سے ہیں مہمان اندھیرے میرے
ناظم مشاعرہ نے وزیر احمد وزیر کی غزل کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوے “سورج” جو ایک علامت ہے اس پر ایک شعر پیش کیا:
“سورج ہوں زندگی کی رمق چھوڑ جاؤں گا
میں ڈوب بھی گیا تو شفق چھوڑ جاؤں گا”
اور یہ چھوٹی سی آزاد نظم بھی کوٹ کی:
“دو ہمراہی ، سورج اور میں، شام کو منزل پر پہونچے تھے، دونوں بہت تھکے ہوے تھے، مٹی کے بستر پر سوئے، صبح ہوئی تو سورج جاگا، مجھ کو سوتا چھوڑ گیا”
اور اس شاعرانہ ماحول میں قطر کے معروف شاعر اور بزمِ اردو قطر کے جنرل سکریٹری افتخار راغب کو مدعو کیا، آپ نے تین غزلیں پیش کیں، منتخب اشعار حاضر ہیں:
وادیِ عشق میں اب گم ہو جاؤں
مجھ میں بس جاؤ کہ میں تم ہو جاؤں
تیرے چہرے سے پڑھا جائے مجھے
تیری آنکھوں کا تکلم ہو جاؤں
مندرجہ ذیل غزل پڑھنے سے پیشتر ہی راغب صاحب نے اس کی شوخ ردیف کے حوالہ سے خبردار کر دیاتھا۔ غزل کو حاضرین نے خوب ”انجوائے” کیا:
میں مر مٹا ہوں آہ ترے سرخ ہونٹ پر
اِک بوسۂ نگاہ ترے سرخ ہونٹ پر
چہرے پہ لگ رہا ہے کہ دو آفتاب ہیں
ٹکتی نہیں نگاہ ترے سرخ ہونٹ پر
ہو جائے معتبر ترے راغب کی اِک غزل
آجائے واہ واہ ترے سرخ ہونٹ پر
راغب صاحب نے غالب کی غزل پر تضمین کرتے ہوئے ایک شگفتہ غزل بھی سنائی، اس میں دوسرا مصرع غالب کا ہے اور پہلا مصرع شاعر کا:
چلو واعظ سے چل کر پوچھتے ہیں
“ہوس کو ہے نشاطِ کار کیا کیا”
ہو غم کیوں بیویوں کی ڈانٹ سن کر
“شکایت ہائے رنگیں کا گلہ کیا”
بڑھاپے میں کسی بڑھیا پہ راغب
“نہ ہو مرنا تو جینے کا مزہ کیا”
اب باری تھی بزم اردو قطر کے صدر اور قطر میں اردو کے حوالے سے کام کرنے والے ایک ممتاز ادیب و شاعر جناب محمد رفیق شاد اکولوی کی، آپ نے دو قطعات، ایک غزل کے چھ مصرعے اور ایک مکمل غزل سنائی:
اک ظلم کی سوغات بتا ہے کتنی
یہ تیری سیہ رات بتا ہے کتنی
مظلوم کی اک آہ جلا کر رکھ دے
ظالم تری اوقات بتا ہے کتنی
ہر ایک دوسرے کا اگر آئینہ بنے
اچھے برے کا خود ہی سراپا دکھائی دے
تو نے ہی جگنوؤں کو عطا کی ہے روشنی
چمکیں جو ایک ساتھ سویرا دکھائی دے
اردو زبان تیری لطافت ہے لاجواب
ہر رنگ کا کمال ترے فکروفن میں ہے
نسبت ہے تجھ کو غالب و حالی و داغ سے
اور میر کی غزل بھی ترے بانکپن میں ہے
جناب محمد رفیق شاد اکولوی کے بعد ناظم مشاعرہ جناب عتیق انظر کی باری تھی، ان کا تعارف کراتے ہوئے جناب محمد رفیق شاد اکولوی نے فرمایا کہ عتیق انظر صاحب ‘انڈیا اردو سوسائٹی’ کے نائب صدر ہونے کے علاوہ قطر کے سب سے کامیاب ناظم مشاعرہ بھی ہیں، اس کے علاوہ دوحہ میں جدید لب و لہجے کے وہ پہلے شاعر ہیں، زندگی اور سماج کے حقائق ان کی شاعری کا خاص موضوع ہیں، انظرصاحب کا منتخب کلام پیش خدمت ہے:
بہار آنکھیں مری یوپی مرا دل
کہیں سیلاب تو سوکھا کہیں ہے
یہ سورج تو بڑا ہی جادوگر ہے
کہیں سوتا ہے اور جگتا کہیں ہے
جسے کہتے ہو تم انسان انظر
کہیں پنڈت ہے وہ ملا کہیں ہے
اب اس کا ساتھ نبھانے کا مجھ میں یارا نئیں
مگر ہے یوں بھی کہ اس کے بنا گزارہ نئیں
کیا ہے عشق تو ساحل کے خواب مت دیکھو
یہ بحر ایسا ہے جس کا کوئی کنارہ نئیں
میں قرض اتاروں گا اک دن تری محبت کا
لباس مٹی کا میں نے ابھی اتارانئیں
میں جس زمیں کے لئے جان دیتا ہوں انظر
اسی زمین پہ میرا کوئی اجارہ نئیں
اپنا کلام سنانے کے بعد عتیق انظر نے صاحبِ خانہ جناب جلیل نظامی کو دعوتِ سخن دی، قطر میں انہوں نے اردو کی ترویج و ترقی کے لئے بڑی مسلسل اور خاموش جد و جہد کی ہے، بجا طور پر انہیں ‘شاعر ِخلیج’ کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے، خلیجی ممالک میں اردو زبان و ادب کا کوئی منظر نامہ نظامی صاحب کے ذکر کے بغیر نامکمل رہے گا۔ آپ نے تین مرصع غزلوں سے سامعین کی تواضع فرمائی، آپ بھی ان کے کلام سے حظ اٹھائیں:
قلم کش گر امیرِ رزم گاہِ خیر و شر ہوتے
کلاہِ شاہ میں گوہر نہیں زیر و زبر ہوتے
ہمارے حاسدوں میں غالب و ذوق و ظفر ہوتے
اگر ہم اتفاقا چند صدیاں پیشتر ہوتے
ہوس کی آگ نے ہم کو بگولہ کر دیا ورنہ
نہ اپنی آبرو کھوتے نہ یوں ہم دربدر ہوتے
کنارے تاج کے رقصاں جسے پانی میں دیکھا ہے
اسے ہم نے پریشاں تیری پیشانی میں دیکھا ہے
ڈراتا ہے اسے ناداں زمانہ موج و طوفاں سے
وہ جس نے خواب ہی ساحل کا طغیانی میں دیکھا ہے
جو منظر اہلِ بینش آج دنیا کو دکھاتے ہیں
مری آنکھوں نے اس کو دورِ نادانی میں دیکھا ہے
محفلوں کی ترجمانی اور ہے
بند کمروں کی کہانی اور ہے
غیر سے پہونچی ہوئی تکلیف کیا
دوستوں کی مہربانی اور ہے
نوجواں لگنے سے کیا ہو گا جلیل
جس کو کہتے ہیں جوانی اور ہے
جناب جلیل نظامی کے بعد ناظمِ مشاعرہ نے کراچی سے تشریف لائے ہوئے مہمان شاعر جناب شمس الغنی صاحب کا رخ کیا، موصوف اقتصادیات کے عالم ہیں اور پاکستان کے مجلات و جرائد میں لکھتے رہتے ہیں، اب تک آپ کے تقریبا ساڑھے تین سو (350) مقالات/مضامین شائع ہو چکے ہیں، آپ کے منتخب اشعار ملاحظہ فرمائیں:
ہے کتنا قوی جبر کا لشکر نہیں دیکھا
دستار پہ بن آئی تو پھر سر نہیں دیکھا
نکلے تھے کبھی گھر سے کہ سودا کوئی لے آئیں
تو مل گیا پھر مڑ کے کبھی گھر نہیں دیکھا
دست و بازوئے رقیباں کا تعین ہو جائے
آؤ دیکھیں تو سہی کوچۂ قاتل کیا ہے
چاند کو دیکھ کے تجھ کو کبھی دیکھا تو کھلا
حسنِ بے مثل ہے کیا حسنِ مماثل کیا ہے
ویراں ہے بزمِ رنگ وبو جائیں کہاں بتائیے
خالی ہے شیشہ و سبو جائیں کہاں بتائیے
راندہ ٔ بزم دوستاں کشتۂ کوئے دشمناں
لے کر بدن لہو لہو جائیں کہاں بتائیے
میں ارتقائے ذات کی شب کا امین تھا
غارِ حرائے دل مری حدِ زمین تھا
میں نے اساسِ فکر اٹھائی تھی لفظ پر
تیرا غرورِ حسن ہی تیرا یقین تھا
شمس الغنی صاحب کے بعد ناظم مشاعرہ نے اس شعری قافلے کے آخری راہرو جناب شوکت علی درد کو دعوت سخن دی، موصوف حیدرآباد ، دکن سے تشریف لائے تھے۔ آپ ایک کہنہ مشق شاعر ہیں، تقریبا نصف صدی تک تدریس کے شعبہ سے منسلک رہے ہیں،۔ ان کے کلام کو حاضرین نے بے حد پسند کیا۔ نمونۂ کلام پیش ِخدمت ہے:
اپنے معیار سے کمتر نہیں بولا کرتے
کبھی دریا سے سمندر نہیں بولا کرتے
گھر کی عزت رہے گھر میں تو وہ گھر ہوتا ہے
گھر کی ہر بات کو گھر گھر نہیں بولا کرتے
ہے محبت تو فقط روح سے محسوس کرو
یہ وہ رشتے ہیں جو چھو کر نہیں بولا کرتے
کروں کیا گفتگو لفظوں سے رشتہ ٹوٹ جاتا ہے
مخاطب ان سے ہوتا ہوں تو لہجہ ٹوٹ جاتا ہے
تمنا ،آرزو، حسرت ، خوشی ، آس اور امیدیں
بشر کیا جوڑتا ہے اور کیا کیا ٹوٹ جاتا ہے
بساطِ زندگی میں ضرب کمزوروں پہ پڑتی ہے
بچانے شاہ کو اکثر پیادہ ٹوٹ جاتا ہے
سرخیِ دل کو ہتھیلی پہ سجا رکھا ہے
خون کا نام بھی لوگوں نے حنا رکھا ہے
دو پہر ہی تو ہیں باقی ترے آنے کے لئے
دوپہر ہی سے چراغوں کو جلا رکھا ہے
درد کا ساتھ بھلا کون کہاں تک دیتا
درد کا اس لئے ہر حرف جدا رکھا ہے
اس کے بعد ناظم مشاعرہ کی درخواست پر مہمان اعزازی اور مہمان خصوصی نے اس مشاعرے کے حوالے سے اپنے اپنے تاثرات کا اظہار فرمایا،میزبانوں کا شکریہ ادا کیا ، پروگرام کے تعلق سے پسندیدگی کا اظہار کیا اور مقامی شعراء کے کلام کو خوب سراہا۔ دونوں مہمانوں کا ایک مشترک تاثر یہ تھا کہ ہند وپاک اور قطر کے مشاعروں میں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ وہاں شعراکی تعداد سامعین پر غالب رہتی ہے جب کہ یہاں (قطر میں)سامعین کی تعداد شعراے کرام کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہوتی ہے، جو ادب دوستی اور زبان پروری کے نقطہ نظر سے بلا شبہ ایک مثبت اور قابل تقلید رجحان ہے۔
مہمانوں کے تاثرات کے بعد صدر مشاعرہ ڈاکٹر فیصل حنیف نے اپنی مختصر مگر جامع تقریر میں سب سے پہلے ‘انڈیا اردو سوسائٹی’ کو اس کامیاب مشاعرے کے انعقاد پر مبارکباد پیش کی، انہوں نے ادب کے تقابلی مطالعات کا سلسلہ بہت پسند کیا ، اس سلسلے میں انہوں نے چند مفید مشورے بھی دیے، مثلا یہ کہ اس طرح کا تقابلی مطالعہ کرنے کے لئے صرف دو زبانوں کا ماہر ہونا کافی نہیں ، یہ بھی ضروری ہے کہ دونوں زبانوں کی ادبیات ، ثقافت اور اقدار و روایات کا بھی گہرا علم ہو، اس کی رعایت بھی ضروری ہے کہ دونوں فن پاروں کی تخلیق کس زمان و مکان اور کس طرح کے حالات اور ماحول میں ہوئی ہے۔ مشاعرے پرتبصرہ کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ مشاعرہ شروع ہوتے وقت میں نے قلم اور کاغذ سنبھالا تھا کہ آخر میں اچھے اشعار کی طرف حاضرین کی توجہ مبذول کراؤں گا، لیکن درمیان میں مجھے اپنا قلم اور کاغذ ایک طرف رکھ دینا پڑا کیونکہ اچھے اشعار اتنی بڑی تعداد میں تھے کہ انہیں نوٹ کرنا ممکن نہ تھا، سبھی شعرا نے اپنا منتخب اور معیاری کلام پیش کیا اور اس کے لیے وہ ہر طرح کی مبارکباد اور داد و تحسین کے مستحق ہیں، انہوں نے امید ظاہر کی کہ حیدرآباد اور کراچی سے تشریف لائے ہمارے مہمان دوحہ کی ادبی اور شعری سرگرمیوں کے سلسلے میں اچھے تاثرات کے ساتھ واپس ہوں گے۔ ‘انڈیا اردو سوسائٹی’ کے ذمہ داروں سے انھو ں نے یہ خواہش ظاہر کی کہ ان شعری نشستوں کا سلسلہ جاری رکھا جائے اور انھیںس اپنے وقت پر شروع اور ختم کیا جائے تاکہ لوگ بار محسوس نہ کریں۔
صدارتی تقریر کے بعد ناظم مشاعرہ نے صاحب خانہ جناب جلیل نظامی کو اظہار تشکر کے لیے مدعو کیا، نظامی صاحب نے حاضرین کا شکریہ ادا کیا اور اس سلسلے کو جاری رکھنے کا عزم دہرایا، انھو ں نے ‘حق بہ حقدار رسید’ پر عمل کرتے ہوئے اس راز سے پردہ اٹھایا کہ آج کے پروگرام کے اصل میزبان جناب محمد شاہد خاں ہیں، در اصل انہیں کی تحریک پر یہ سلسلہ دوبارہ شروع کیا گیا ہے اور اللہ کی ذات سے امید ہے کہ ان کی سرپرستی میں یہ مسلسل جاری و ساری رہے گا۔ انہوں نے جناب محمد شاہد خاں سے درخواست کی کہ حقیقی میزبان ہونے کے ناطے وہ اسٹیج پر تشریف لائیں اور مہمانوں کا شکریہ ادا کریں۔
جناب محمد شاہد خاں (ڈائرکٹر ایسٹرن یونین) نے اپنی مختصر گفتگو میں فرمایا کہ کسی بھی زبان ، علم و ادب اور فکر و فن کی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ اس کے قدردان بھی اپنا مثبت کردار ادا کریں ، ایک فنکار ہماری ذہنی تسکین اور روحانی بالیدگی کے لیے اپنا خون جگر نچوڑ کر ہماری ضیافت طبع کا سامان مہیا کرتا ہے، ایسے میں فکروفن کے قدردانوں کا کم ازکم یہ فرض تو بنتا ہی ہے کہ اس کے فن پارہ کی ترسیل کویقینی بنائیں، مشاعرے دراصل شاعر اور اس کے مخاطب کے درمیان ترسیل اور کمیونیکیشن کا ہی ایک ذریعہ ہیں، میں شعراے کرام اور تمام سامعین کا تہ دل سے شکرگزار ہوں کہ انہوں نے اپنے مصروف شیڈول میں سے کچھ وقت فارغ کرکے اپنی علم دوستی اور ادب نوازی کا ثبوت پیش کیا۔

(رپورٹ: ڈاکٹرنشاط احمد صدیقی)

اپنا تبصرہ لکھیں