انٹرویو مسرت حسین ہاشمی


معروف کالم نگار اور لکھاری

مسرت حسین ہاشمی سے انٹر ویو

حصہ دوم گذشتہ سے پیوستہ

زندگی کے تجربات اور حقیقتوں پر مبنی ایک دلچسپ انٹر ویو

 

پاکستان کی خاتون وزیر اعظم اور پیپلز پارٹی کی لیڈر بے نظیر کے بارے میں اپنی یادیں تازہ کرتے ہوئے مسرت حسین نے بتایا کہ پاکستان کے سرکردہ مرد لائنیں بنا کر ہاتھ باندھ کر ان کےسامنے کھڑے رہتے تھے۔اس سے بڑھ کر کسی کے لیڈر اور مضبوط لیڈر ہونے کی اور کیا نشانی ہو سکتی تھی ہاں البتہ

ان  پر خوب سجتی تھی    arrogancy تھیں اور arrogant وہ

بے نظیر کے ساتھ گزارے یادگار لمحات

۔سیاسی لحاظ سے وہ انتہائی میچیور ہو چکی تھیں۔ناروے میں وہ دو مرتبہ آئیں مجھے انکی قربت کا موقع ملا۔میں نے ان میں سیاسی بصیرت بہت دیکھی۔وہ سب کی سنتی تھیںاور اپنی رائے کا اظہار بہت کم کرتی تھیں۔جب تک یقین نہ ہو جاتا تھا۔وہ اپنی رائے محفوظ رکھتی تھیں۔وہ ایک پیدائشی لیڈر تھیں۔جو لیڈر بننے کے لیے پیدا ہوئی تھیں۔اس زمانے میں ناروے میں پاکستانی خواتین کا مقام بڑا سمجھا گیا۔پاکستان کی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو اور ناروے میں پاکستان کی سفیرخاتون محترمہ شکیلہ خانم رشید تھیں سو اس تصور سے نجات ملی کہ پاکستانی مرد پاکستانی عورتوں کو کچھ نہیں

سمجھتے۔

ہمارے ریستوران میں پاکستان کی کئی قابل ذکر سیاسی اور سماجی شخصیات کا آنا جانا لگا رہتا تھا۔ان کی ایک طویل فہرست ہے۔مرد تو ہوٹلوں میں ٹھہر جاتے تھے مگر انکی بیگمات میرے پاس ٹھہر جاتی تھیں۔اس طرح مجھے کئی اہم شخصیات کی بیگمات کی میزبانی کا شرف حاصل ہوا۔مجھے ان سب میں سے سیے ذیادہ  سیّدہ عابدہ حسین کے کافی قریب رہنے کا موقع

سیدہ عابد  ہ  حسین کے ساتھ

ملا۔بلکہ میری ان سے دوستی بھی ہو گئی۔وہ بہت دلکش شخصیت کی مالک تھیں۔ مجھے ان کی خوبصورتی بہت بھاتی تھی۔میں نے ان سے کہہ دیا اور یہی بات ہماری دوستی کی بنیاد بن گئی۔
زندگی کے تجربات

مسرت افتخار اپنی پر مسرت  زندگی کے تجربات سے کشید کردہ نچوڑ پر بات کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ہماری بیٹیوں کو عملی زندگی کی تیاری کی تعلیم ہونی چاہیے۔شوہر کے ساتھ سسرال کے ساتھ زندگی کس طرح گزاری جاتی ہے؟اسکا انہیں علم اور ٹریننگ ہونی چاہیے۔جیسے یہاں پر گاڑی چلانی ہے تو گاڑی چلانے کے لیے انہیں تھیوری اور پریکٹیکل دونوںپاس کرنے پڑتے ہیں تب کہیں جا کر انہیں گاڑی چلانے کا لائسنس ملتا ہے۔ناروے میں برفباری کی وجہ سے برف پر گاڑی چلانا بہت مشکل ہوتا ہے۔مگر مشکلات سے نبٹنے کے لیے ہی گاڑی اندھیرے اور برفوں پر چلانے کی تربیت دی جاتی ہے۔اسی طرح عملی زندگی میںشوہر اور سسرال کے ساتھ رہنا  اور زندگی گزارنا بھی ناروے میںبرفوں اور اندھیرے میں گاڑی چلانے جیسا ہے جس کی تربیت کے لیے بچیوں کو  پڑھائی کے بعد چھ ماہ کا ایک تربیتی کورس دینا چاہیے۔جہاں شوہر سسرال گھر کھانا پکانا سب کی تربیت مل سکے  اور بچیوں کو کم سے کم مشکلات کا سامنا ہو۔کیونکہ گھر اور گھریلو معاملات ساری زندگی لڑکی نے بسر کرنے ہیں۔کتابیں عام زندگی میں کام نہیں آتیں۔لڑکی کا سارا تاریخ و جغرافیہ معاشرتی علوم گھر تک محدود ہو کر رہ جاتا ہے۔سو یہ علم اور تربیت لازمی ہونی چاہیے۔
زندگی کی خوشیاں

خوشیاں انسانی زندگی میں بڑی جدو جہد کے بعد آتی ہیں۔خوش ہو کر جینے کا طریقہ اور علم آنا چاہیے۔ترقی کرنا کامیاب ہونا دنیاوی کامیابیاں ہیں۔جن سے آپ عملی زندگی میں آرام اور سہولتیں حاصل کر سکتے ہیں۔مگر زندگی خوشی سے گزارنے کے لیے محبت درکار ہوتی ہے۔اور سمجھوتہ گزارا کروا سکتا ہے۔خوشی نہیں دیتا۔اور پھر جب ہمیں محبت کی خوشی یا دل کی خوشی میّسر نہیں ہوتی تو پھر ہم دوسروں کی خوشیوں میں خوشیاں تلاش کرنے لگتے ہیں۔میرے خیال سے یہ ایسا ہی ہے جیسے اپنی خوشی اپنا گھر اور دوسروں کی خوشی کرایہ کا مکان جیسا درجہ رکھتی ہے۔محبت کی خوشی آپکے پورے وجود پر چھا جاتی ہے۔آپکو رسمی مسکرانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔آپکا انگ انگ بن بولے ہنس اور خوش ہو رہا ہوتا ہے۔اگر آپکو وہ خوشی میسر نہیں جو حقیقی ہے تو پھر آپ دوسروں کی خوشی میں لمحاتی خوشی تو لے سکتے ہیںوہ آپکے دل کو نہیں ہلاتی۔سو ایسی اخلاقی خوشی دل کی خوشی نہیں ہوتی۔محبت بہت ضروری ہے اور وہ بھی اس شخص کی جس سے آپ محبت کرتے ہیں۔وہ بھی آپ سے محبت کرے یہ محبت کی مکمل تعریف ہے۔تجربہ کے لیے آپکو وقت اور حالات کی ضرورت نہیں ہوتی۔اس سے بھی آپ اپنی مرضی کے تجربات چن لیتے ہیں۔اصل سبق آپکو اپنی اولاد دیتی ہے۔جس کو آپ نے ماننا بھی ہوتا ہے اور عمل بھی کرنا ہوتا ہے۔اسلیے اولاد بہترین سبق ہوتی ہے استاد نہیں۔مجھے تمام زندگی شکوہ کرنا نہیں آیا۔یہ بہت ضروری ہے۔مجھے لگتا ہے تعلقات کے لیے شکائیتیں مصالحہ کا کام دیتی ہیں۔اپنے لیے خوشیوں کی دریافت بہت ضروری ہے۔آپ کس کے ساتھ کیسے اور کس طرح خوش ہوتے ہیں ضرور جانیے۔وہ خوشیاں ڈھونڈیں۔محبت کیا ہے؟کامیاب ہونا اور خوش ہونا دو الگ باتیں ہیں۔انسان کامیاب ہو کر خوش بھی ہو ایسا  ضروری  نہیں ہوتا۔اسلیے انسان کو اپنی خوشیوں کی بھی آگاہی اور پہچان ہونی چاہیے۔وہ کیسے خوش رہ سکتا ہے اس کو کیسے خوش رہنا چاہیے۔دوسروں کی خوشی میں خوش ہونا اچھا ہے مگر دوسروں کی خوشیوں کو اپنی خوشی سمجھ لینا حماقت ہے۔اور خوش ہونا بہت ضروری ہے ورنہ آپ دوسروں کو خوش ہوتا نہ دیکھ سکیں گے اور پھر دوسرے خوش آپکو اچھے نہیں لگیں گے۔جو چیز آپ نے دنیا کے ساتھ بانٹنی ہے اسکا آپکا اپنا ذہن ہونا چاہیے جو آپ خوشی خوشی دیں اور بانٹیں بھی۔جو انسان خود خوش نہیں ہوتا وہ دوسروں کے ساتھ خوش ہو کر گویا احسان کرتا ہے۔اس لیے خوشی خالصتاً خوشی ہو۔ادھار کی خوشی نہ ہو یا وقتی کرایہ دار خوشی نہ ہو۔محبت بہت ضروری ہے۔ایک محبت تو آپکو رشتوں کی وجہ سے رشتوں کے ساتھ ہوتی ہے۔جیسے ماں باپ ہیں تو اس وجہ سے محبت ہے بہن بھائی ہیں تو اس وجہ سے ان سے محبت ہے۔شوہر اولاد سبھی کا آپ کے ساتھ رشتہ ہے۔تو رشتہ کی وجہ سے محبت ہوتی ہے۔اس جذبہ کو میں بہت مانتی ہوں۔اور اس کے لیے جو ہمارے ملکوں میں سمجھا جاتا ہے جنرل فارمولا یہ ہے کہ میاں بیوی کو محبت ہو ۔اگر یہ ہو جائے تو بہت اچھا ہے۔مگر پچانوے فیصد میاں بیوی محبت کے بغیر محض رشتہ کی وجہ سے ہوتے ہیں۔اس لیے رشتہ کے لیے محبت ضروری بھی نہیں۔مثال کے طور پر مجھے اپنی دوست سے محبت ہے۔یہاں میرے محبت کے جذبے کو تسلی ہو گی۔کیونکہ میں اپنی دوست کے ساتھ وہ ہوں جو دل سے ہوں۔مجھے اپنی دوست کے برا منانے یا بدل جانے کا ڈر نہیں۔مجھے خوف نہیں میری دوست مجھے چھوڑ دے گی۔مکمل تحفظ مکمل یقین جس پر آپکا ہو وہ آپکی محبت ہے۔میری دوست اور میں نے ایک یونیورسٹی اور ایک کالج میں پڑھا۔ہم ایک شہر بوریوالہ کے ہیں۔اور ہماری دوستی کو چالیس برس ہو گئے ہیں۔وہ امریکہ میں ہے۔ ہم ہر دوسرا سال  ایک دوسریکے ساتھ گزارتے ہیں۔ہم مختلف ملکوں میں گھومتے ہیں جیسے لندن پیرس ڈنمارک اسپین ،ترکی ناروے اور امرستڈیم وغیرہ۔ہم جب اکٹھی ہوتی ہیں تو دوسرے ملکوں کو نکل جاتی ہیں۔اس کے ساتھ مجھے جو بات بہت خوبصورت لگتی ہے وہ یہ ہے کہ اسکو میری تمام کمیوں اور غلطیوں کا علم ہے۔اور مجھے بھی لگتا ہے کہ شمیم کے بعد اگر کوئی مجھے مکمل جانتا ہے تو وہ میں خود ہوں۔میں نے ایف اے میں

Thomas Hardy     کا ناول  Far from the mad crowd
پڑھا تھا۔اس میں محبت کی جو تعریف کی گئی وہ میرے اندر میرے مزاج میں رچ بس گئی۔
“Whith all your faults i love you”
اور جب محبت کا معیار یہ ہو تو کوئی غلط کام برا لگتا ہی نہیں۔اور ہم ایک دوسرے کے ساتھ اپنی اپنی مکمل اچھی بری ذات میںجیتے ہیںاور مکمل آزادی بغیر تکلف و ڈر کے جینے کا لطف لیتے ہیں۔کیونکہ ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ لوگوں جیسا نہیں رہنا ہوتا۔اچھا بن کر رہنا اور خوف میں کوئی بات کسی کو بری نہ لگ جائے، لوگ کیا کہیں گے  ،اس فکر ڈر سے آزاد آزادی ء ذات سے رہنا ۔دل سے جینا ، اسکا مزہ اور نشہ ہی اور ہے۔اور میرے نزدیک یہی کسی کے ساتھ محبت ہے۔جہاں آپ کسی کے ساتھ سچائی کے ساتھ رہتے ہیں۔اپنی تمام خامیوں اور کمیوں کے ساتھ  اور کوئی نہ برا مناتا ہے اور نہ برا سمجھتا ہے۔میں شمیم کے ساتھ ایسے رہتی ہوں جیسے اپنے آپ کے ساتھ رہتی ہوں۔بلکہ بہت اچھا لگتا ہے جب ہم یاکٹھے ہوتے ہیں۔تب کسی بھی رشتے کے بغیر اپنی ذات سے جڑ جاتے ہیں۔اپنے ساتھ رہنا جینا بہت خوبصورت لگتا ہے۔اور ہماری دوستی کے تعلق کی یہی خوبصورتی ہے۔ہم اپنے آپ سے ملتے ہیں اور اپنے ساتھ جیتے ہیں۔اور آپکا یہ تعلق دنیا میں کسی کے ساتھ نہیںہوتا۔  اخلاص اپنی ذات کا تعلق۔۔اور ہر شخص سب سے پہلے خود سے محبت کرتا ہے۔اور جس کے ساتھ اپنی ذات سے محبت اور بڑھے کوئی آپ کو اتنا ہی حتمی اعلیٰ اور محبت کے لائق سمجھے اس کے ساتھ ہی آپکو محبت ہو سکتی ہے۔میں سو فیصد شمیم سے محبت کرتی ہوں۔جہاں سو فیصد میں ہوتی ہوں۔اس کے بعد میں اپنی نانی سے بڑی محبت کرتی تھی ۔وہ مجھے مکمل تحفظ دیتی تھیں۔اپنی بیٹی سے بہت محبت ہے مجھے۔

ناروے میں اردو ادب کا مستقبل

ناروے میں اردو ادب کو زندہ رکھنا میرے نزدیک ایک جہاد ہے جو اردو ادب سے محبت کرتا ہے اس کو اس جہاد میں اپنی محبت کا حصہ ڈالنا ہو گا۔ناروے میں اردو ادب سے وابستہ مردو خواتین مجھے مجاہد اور مجاہدہ لگتے ہیں۔جن کو معلوم ہے ناروے جیسے ملک میں اردو کو زندہ رکھنا اور اردو کو اچھی زندگی دینا اآسا ن نہیں۔اس لیے میرے نزدیک ادب میں جدو جہد مسلسل کرنے والے اپنی جدو جہد کا صلہ بھی پاتے ہیں۔اردو ادب کے یہ لوگ بین لاقوامی شہرت کے مالک ہیں۔جیسے جمشید مسرور ،فیصل ہاشمی،فیصل نواز،سید مجاہد حسین اور خواتین میں شازیہ عندلیب اور مینا جی خواتین کی سربراہ ہیں۔اپنے پسندیدہ موضوعات کے بارے میں بتاتے ہوئے مسرت افتخار نے بتایا کہ کہ انہوں نے ناروے کی ڈائری لکھی۔انہیںڈائری لکھنا سب سے ذیادہ پسند ہے۔بیس برس تک مسلسل لکھی۔اور ابھی تک یہ سلسلہ جاری ہے۔میں ناروے میں پہلی جنگ کی نمائندہ خاتون بنی اور اب تک ہوں۔میرے موضوعات ناروے میں پاکستانیوں کے مسائل خصوصاً خواتین کے مسائل اور تمام ناروے کی تاریخ سیاست ،رہنماء حکمران اور شاہی خاندان کے موضوع پر  اب تک ہزاروں ڈائریاں لکھ چکی ہوں۔

پاکستانی خاتون سفیر بیگم شکیلہ کے ساتھ
اپنا تبصرہ لکھیں