انسانی نطفے پر تازہ تحقیق، سائنسدانوں کے 350 سال سے قائم خیالات غلط ثابت ہوگئے

انسانی نطفے پر تازہ تحقیق، سائنسدانوں کے 350 سال سے قائم خیالات غلط ثابت ہوگئے

اب تک ہم یہی جانتے تھے کہ سپرمز تیرتے ہوئے بیضے میں داخل ہوتے ہیں اور حمل وقوع پذیر ہوتا ہے تاہم اب سائنسدانوں نے نئی تحقیق میں اس حوالے سے ایک حیران کن انکشاف کر دیا ہے۔ انڈیا ٹائمز کے مطابق سائنسدانوں نے بتایا ہے کہ میل کے سپرمز تیرتے نہیں بلکہ سکریو(Screw)کی طرح گول گھومتے ہوئے مادہ کے بیضے میں داخل ہوتے ہیں اور اسے حاملہ کرتے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق مائیکروبائیولوجی کے باپ کہلانے والے ماہر انٹونی وین لیووین ہوئیک نے لگ بھگ 350سال پہلے 2ڈی مائیکروسکوپ کے ذریعے مشاہدہ کرکے یہ دریافت کی تھی کہ سپرمز تیرتے ہوئے بیضے میں داخل ہوتے ہیں۔ اب تک سائنسی اسی نظرئیے کو مانتی رہی تاہم اب برطانیہ اور میکسیکو کے ماہرین نے 3ڈی مائیکروسکوپی ٹیکنالوجی کے ذریعے ایک بارپھر سپرمز اور بیضوں کے ملاپ کا مشاہدہ کرکے انٹونی وین کی اس دریافت کو غلط ثابت کر دیا ہے۔

ان سائنسدانوں نے بتایا ہے کہ سپرم بہت چھوٹا ہوتا ہے لیکن اس کی دم کافی لمبی ہوتی ہے۔ سپرمز اس قدر تیز ہوتے ہیں کہ ان کی دم ایک سیکنڈ میں 20سوئمنگ سٹروک باآسانی دے سکتی ہے۔ تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ ہرمیس گیڈلا کا کہنا تھا کہ ”سپرمز کی یہ حرکت 2ڈی مائیکروسکوپ سے دیکھیں تو انسان کو دھوکا ہوتا ہے کہ سپرمز اپنی دم کے ذریعے تیر رہے ہیں۔ حالانکہ حقیقت میں یہ گول گھوم رہے ہوتے ہیں۔“