’’انسانی جسم دراصل گارے سے نہیں بلکہ۔۔۔ ‘‘قرآن مجید کی روشنی میں انسانی جسم کی تخلیق کا وہ عمل جس نے سائنسدانوں کو دنگ کرکے رکھ دیا

’’انسانی جسم دراصل گارے سے نہیں بلکہ۔۔۔ ‘‘قرآن مجید کی روشنی میں انسانی جسم کی تخلیق کا وہ عمل جس نے سائنسدانوں کو دنگ کرکے رکھ دیا

انسانی تخلیق کے بارے میں بہت سے سوال کئے جاتے ہیں کہ انسان کو کس قسم کی مٹی سے تخلیق کیا گیا ۔آئیے اس کا جواب قرآن سے دیکھتے ہیں ،قرآن مجید فرقان حمید میں انسانی تخلیق کے بارے میں بہت کچھ بیان کیا گیا ہے لیکن یہاں آپ کے سوال سے متعلقہ آیات درج ذیل ہیں۔

’’ وہی ہے جس نے تمہیں مٹی کے گارے سے پیدا فرمایا‘‘( الانعام، 6 : 2)

’’(زمین کی) اسی (مٹی) سے ہم نے تمہیں پیدا کیا اور اسی میں ہم تمہیں لوٹائیں گے اور اسی سے ہم تمہیں دوسری مرتبہ (پھر) نکالیں گے۔(طہ، 20 : 55)

’’اور بیشک ہم نے انسان کی (کیمیائی) تخلیق ایسے خشک بجنے والے گارے سے کی جو (پہلے) سِن رسیدہ (اور دھوپ اور دیگر طبیعیاتی اور کیمیائی اثرات کے باعث تغیر پذیر ہو کر) سیاہ بو دار ہو چکا تھا۔‘‘(الحجر، 15 : 26)

’’اور بیشک ہم نے انسان کی تخلیق (کی ابتداء ) مٹی (کے کیمیائی اجزاء ) کے خلاصہ سے فرمائی۔‘‘(المؤمنون، 23 : 12)

’’بیشک ہم نے اِن لوگوں کو چپکنے والے گارے سے پیدا کیا ہے۔‘‘(الصافات، 37 : 11)

’’وہی ہے جس نے تمہاری (کیمیائی حیات کی ابتدائی) پیدائش مٹی سے کی۔‘‘(المؤمن، 40 : 67)

’’اسی نے انسان کو ٹھیکری کی طرح بجتے ہوئے خشک گارے سے بنایا‘‘(الرحمن، 55 : 14)

’’اور وہی ہے جس نے تمہیں ایک جان (یعنی ایک خلیہ) سے پیدا فرمایا ہے‘‘(الانعام، 6 : 98)

’’اْسی نے انسان کو ایک تولیدی قطرہ سے پیدا فرمایا۔‘‘(النحل، 16 : 4)

’’اور وہی ہے جس نے پانی (کی مانند ایک نطفہ) سے آدمی کو پیدا کیا۔‘‘(الفرقان، 25 : 54)

’’تم سب کو پیدا کرنا اور تم سب کو (مرنے کے بعد) اٹھانا (قدرتِ الٰہیہ کے لئے) صرف ایک شخص (کو پیدا کرنے اور اٹھانے) کی طرح ہے۔‘‘(لقمان، 31 : 28)

’’پھر اس کی نسل کو حقیر پانی کے نچوڑ (یعنی نطفہ) سے چلایا۔‘‘(السجدہ، 32 : 8)

’’اس نے تم سب کو ایک حیاتیاتی خلیہ سے پیدا فرمایا پھر اس سے اسی جیسا جوڑ بنایا۔‘‘(الزمر، 39 : 6)

’’پس انسان کو غور (و تحقیق) کرنا چاہیے کہ وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا ہےo وہ قوت سے اچھلنے والے پانی (یعنی قوی اور متحرک مادہ تولید) میں سے پیدا کیا گیا ہےo جو پیٹھ اور کولہے کی ہڈیوں کے درمیان (پیڑو کے حلقہ میں) سے گزر کر باہر نکلتا ہےo‘‘(الطارق، 86 : 5،6،7)

مذکورہ بالا آیات میں اللہ تعالٰی نے انسانی زندگی کے کیمیائی اور حیاتیاتی ارتقاء کے بارے میں بیان کر دیا ہے۔ اب ان کی وضاحت کے لیے مزید مطالعہ کرتے ہیں۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ العالی بیان کرتے ہیں’’’قرآن مجید کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ انسانی زندگی کا کیمیائی ارتقاء کم وبیش سات مرحلوں سے گزر کر تکمیل پذیر ہوا جو درج ذیل ہیں:

تراب (Inorganic Matter)

ماء (Water)

طین (Clay)

طین لازب (Adsorbable or Adsorptive)

صلصال من حماء مسنون (Old, Physically and Chemically Altered Mud)

صلصال کالفخار (Dried and Highly Purified Clay)

سلالہ من طین (Extact of Purified Clay)

قرآن میں انسان کے جسم کی تیاری میں مٹی، پانی، گارے کا بھی ذکر آتا ہے اور نطفہ کا بھی ،کہیں آخری مرحلے میں سلالہ یعنی جوہر کا بھی ذکر آتا ہے، جوہر کسی بھی چیز کا نچوڑ ہوتا ہے۔ اب سمجھنے والی بات یہ ہے کہ جس جوہر کا ذکر کیا گیا ہے یہ کیا ہے؟

ابو القاسم الحسین بن محمد بیان کرتے ہیں۔ سلالہ من طین سے مراد ہے ’’ مٹی میں سے چنا ہوا وہ جوہر جسے اچھی طرح میلے پن سے پاک صاف کر دیا گیا ہو‘‘

معلوم ہوا مذکورہ بالا سات مراحل کے آخر تک انسانی زندگی کا کیمیائی عمل سلالہ (جوہر) پر ختم ہو جاتا ہے، اس کے بعد انسانی زندگی کا حیاتیاتی ارتقاء شروع ہو جاتا ہے، جس کے پھر کچھ مراحل ہیں، جس کے طے کرنے کے بعد ایک بچہ پیدا ہوتا ہے۔ ہمارا اصل مقصد اس بات کو سمجھنا ہے کہ انسان مٹی سے کیسے پیدا کیا گیا؟ وہ مٹی کون سی ہے؟ جس سے انسان پیدا ہوا اور پھر اس کو اسی مٹی میں دفن کیسے کیا جائے گا؟ کیونکہ بظاہر تو نظر نہیں آتا کہ انسان کے پیدا ہونے کے لیے مٹی کا استعمال ہوتا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ہم جو خوراک کھاتے ہیں، اس میں سبزیاں، پھل یا کوئی بھی چیز اس کا تعلق بلا واسطہ یا بالواسطہ مٹی سے ہوتا ہے۔ گندم، چاول، چینی کو لے لیں یا سبزیاں لے لیں یا پھر کوئی بھی کھانے کی چیز اس کو جن جن اجزاء سے تیار کیا جاتا ہے، وہ اسی سے پیدا ہوتے ہیں، اب انسانی تخلیق میں قرآن نے بہت سے مراحل بیان کیے ہیں، مٹی کا بھی ذکر ہے، نطفہ کا بھی ذکر ہے، معلوم ہوا کہ جب مٹی سے پیدا ہونے والی خوراک استعمال کی جاتی ہے تو وہ کسی نہ کسی زمین سے حاصل ہو گی، اس میں سے یہی نطفہ بنتا ہے، اسی کی Purified شکل کو جوہر کہتے ہیں۔ اسی کے اجزا ملتے ہیں تو حیاتیاتی ارتقاء ہوتا ہے، اسی کے مراحل طے کرنے کے بعد بچہ پیدا ہوتا ہے۔ یہ تو معلوم ہو گیا کہ یہ انسانی جسم کا حصہ کیسے بنتی ہے اور پھر اس سے انسان کیسے پیدا ہوتا ہے۔ اب رہا مسئلہ کہ انسان جس مٹی سے پیدا ہوتا ہے اسی میں دفن کیا جائے گا اس کی وضاحت درج ذیل ہے:

علامہ سمہوردی فرماتے ہیں’’ ‘چونکہ ہر نفس کو اس مٹی سے تخلیق کیا جاتا ہے جس میں بعد از وفات اسے دفن کیا جاتا ہے‘‘

احادیث مبارکہ میں بھی اس حوالے سے بیان کیا گیا ہے۔ درج ذیل ہے:

’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں: ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک جنازہ کے بعد ایک قبر کے پاس سے گزرے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے دریافت فرمایا: یہ کس کی قبر ہے؟ انہوں نے عرض کیا، یا رسول اللہ! فلاں حبشی کی ہے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لا الہ الا اللہ پڑھ کر فرمایا: اسے اس کی زمین اور آسمان سے اس مٹی میں لایا گیا، جس سے اس کی تخلیق کی گئی تھی ‘‘

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا’’ ہر انسان کو اس مٹی میں دفن کیا جاتا ہے جس سے وہ پیدا کیا گیا ہے‘‘

المختصر انسان مٹی سے حاصل شدہ بہت سے اجزا ملنے سے مرحلہ وار سفر طے کرنے کے بعد حاصل ہونے والے جوہر سے پیدا ہوتا ہے جس کی اصل مٹی ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں