اندھیری شب میں چیتے کی آنکھ تھی جس کا چراغ

(سردار عبدالقیوم خان ؒ کی برسی کے حوالے سے )
از
نصرت حمید

ماہ جولائی میں عید الفطر کاچاند پیامِ مسرت وشادمانی لے کر آیااس بار وطن عزیز میں ایک ہی دن عید کے انعقاد نے اتحاد و یگانگت کی فضاء قائم کر دی اللہ تعالی اس فضاء کو تا قیامت برقرار رکھے ۔آمین۔جہاں پرامن عید الفطر نے پیام مسرت دیا وہیں ایک عظیم ہستی کی برسی نے ان کی جدائی کا زخم بھی ہرا کر دیا۔سردار محمد عبدالقیوم صاحب کی رحلت سے جو سیاسی خلاء پیدا ہوا ہے وہ صدیوں میں بھی پاٹا نہ جا سکے گا۔ایسا گوہرنایاب صدیوں میں ہی پیدا ہوا کرتا ہے ۔

سردار عبدالقیوم ؒ ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے ۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے گھر پہ اپنے والدین سے حاصل کی ۔آپ کے والد صوبیدار عبداللہ برطانوی فوج میں ملازم تھے ۔انہوں نے دوران ملازمت آپکو اپنے ساتھ رکھا ۔ یوں آپ نے مختلف مقامات پہ رہ کر اپنی تعلیم مکمل کی۔آپ نے پونچھ شہر کے وکٹوریہ جوبلی گورنمنٹ ہائی سکول سے میٹرک کیا۔کمسن ہونے کی وجہ سے آپ کوآرمی میں کمیشن تو نہ مل سکا تاہم آپ نے برطانوی فوج کے شعب�ۂ ریلوے میں ملازمت اختیار کر لی ۔دو سال بعد آپکو کمیشن مل گیا لیکن آپ ملازمت کو خیرباد کہہ کر 1946میں مڈل ایسٹ سے وطن واپس آگئے۔

آپکے مذہبی گھرانے کے اثرات آپ کی شخصیت سے جا بجا جھلکتے تھے ۔قرآن و سنت سے شغف آپ کی زندگی میں بھی آپ کا ساتھی رہا اور امید ہے آخرت میں بھی انکی کامیابی کا وسیلہ بنے گا۔ آزاد کشمیر کے دستور کو اسلامی قانون کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کا سہرا آپ ہی کے سر ہے ۔ اسکے علاوہ آپ کی تمام عمر سادگی میں گزری ۔ خوراک، لباس اور دیگر رہن سہن میں آپ نے خود کو کبھی عام فرد سے ممتاز نہیں کیا۔یہاں تک کہ حکمرا ن ہوتے ہوئے بھی آپ کی بودوباش ایک عام شہری کی سی رہی۔آپ ایک صوفی منش آدمی تھے صوفیاء ،اولیاء اور علماء کی مجالس میں حاضری دیا کرتے تھے ۔آپ نے اولیاء کے قرب سے جو کسب فیض کیا اس نے آپ کی شخصیت کو اعلیٰ کردار کا نمونہ بنا دیایہی وجہ ہے کہ اعلیٰ عہدوں پہ فائز رہنے کے باوجود آپ کے دامن پہ کرپشن کا کوئی داغ نہیں ۔اقبال ؒ کو جس مرد مجاہد کی تلاش تھی سردار عبدالقیوم اس کا پرتوتھے ۔اگر سردار صاحب کی زندگی کو ایک جملے میں بیان کرنا ہوتو اسکے لیے اقبال کا یہ شعر ہی کافی ہے ۔
نگہ بلند ، سخن دلنواز، جاں پر سوز
یہی ہیں رخت سفر میر کارواں کے لیے

آپکی گھریلو تربیت کا نتیجہ ہے کہ آپکو ایک مجاہد بنا دیا ۔ 1947 ؁ء کی تحریک آزادی کشمیر میں آپ کا کلیدی کردار تھا ۔ آپ نے عام مجاہد کی حیثیت سے جہاد میں شرکت کی لیکن آپکی قائدانہ صلاحیتوں نے مجاہدین کی کمان آپ کے ہاتھ میں سونپ دی ۔آپ کی ولولہ انگیز قیادت نے ڈوگرہ فوج کو ناکوں چنے چبوائے ۔آپ نے مجاہدین کشمیر پہ مشتمل آزاد کشمیر ریگولر فورسز کو منظم کیاجو آج آزاد کشمیر رجمنٹ کے طور پہ وطن عزیز کے دفاع میں سرگرم ہے ۔ تحریک آزادی کشمیر کے ساتھ آپ کا ایک نہ ٹوٹنے والا رشتہ تھا ۔آپ نے کشمیر کی آزادی کو مقصد حیات بنا رکھا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ آپ تا دم مرگ تحریک آزادی کے وکیل بنے رہے ۔آپ نے مسئلہ کشمیر کو دنیا کے ہر ایوان میں اٹھایا اور کشمیریوں کے لیے حمایت حاص کی۔1989 میں جب اہل وادی نے بھارت سرکار کے خلاف ہتھیار اٹھائے تو آپ نے اس تحریک کو سیاسی پشت پنایہ فراہم کی اور آزادکشمیر میں مہاجرین کی آبادکاری اور مجاہدین کی امداد کا انتظام کیا۔آپکی رحلت سے تحریک آزادی کشمیر اپنے ایک معاون اور وکیل سے محروم ہو گئی ۔

1949 میں آپ نے باقاعدہ طور پہ سیاست میں قدم رکھا ۔ آپ مسلم کانفرنس میں شامل ہوئے ۔یہاں بھی آپ کی قائدانہ صلاحیتوں نے آپ کو پر پرواز عطا کیے اور آپ مسلم کانفرنس کی صدارت پہ متمکن ہو گئے ۔آپ کی انہی صلاحیتوں کی وجہ سے قوم نے آپکو کئی بار صدر اور وزیر اعظم آزاد کشمیر کے عہدوں پہ فائز کیا ۔آپ نے سیاست میں اصولوں کی پیروی کی اور آمریتوں کا مقابلہ کیا۔ آپکو صدائے حق بلند کرنے کے جرم میں دلائی کیمپ میں قید بھی کیا گیا ۔ بھٹو آمریت کے خلاف صف آرا ء نو جماعتوں میں مسلم کانفرنس بھی شامل تھی ۔ گویا آپ کی قیادت نے مسلم کانفرنس کو پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں کی صف میں لا کر کھڑا کر دیا تھا۔

آپ جہاں ایک شعلہ بیاں مقرر اور ولولہ انگیز قائد تھے وہاں حق گو مصنف بھی تھے ۔آپ نے متعدد کتب تحریر کی ہیں جو آپ کی ادبی صلاحیتوں کا شاہکار ہیں۔آپکے یہ ادب پارے پڑھنے والوں کے لیے راہنمائی کا ذریعہ بھی ہیں ۔آپ کی تصنیفات ملک کی دانش گاہوں کو دعوت د ے رہی ہیں کہ ان پہ تحقیقی مقالے لکھوائے جائیں تاکہ سردار صاحب کی شخصیت کے ہر پہلو کو اجاگر کیا جا سکے ۔

سردار عبدالقیوم صاحب کی شخصیت ایک ہمہ پہلو اور ہمہ جہت شخصیت تھی ۔ آپ بیک وقت لیڈر، مجاہد ، عالم ، اور صوفی تھے ۔ آپ کی شخصیت کے ہر پہلو پہ اگر تحقیقی کام کیا جائے تو یہ ایک علمی سرمایہ کی شکل آنے والی نسلوں کی رہنمائی کا ذریعہ ثابت ہو گا۔ اور جو خلاء ان کے جانے سے پیدا ہوا ہے اسے پاٹنے میں ممد و مددگار ثابت ہو گا۔اللہ تعالیٰ اس مرد قلندر کی خدمات کو اپنے دربار میں مقبول فرمائے ۔آمین

4 تبصرے ”اندھیری شب میں چیتے کی آنکھ تھی جس کا چراغ

  1. Nusrat Hameed has tried to acknowledge the struggles and services of Mujahid e Awal Sardar Abdul Qayum Khan. He was an historical personality and had a lot of struggles for Azadi e Kashmir. Somany books have been written and many can and will be. May almighty Allah accept his struggle and services and rest his soul in peace and increase his ranking in Paradise. Ameen
    Efforts of Nusrat Hameed are being appricieted herewoth.
    Raja Zain Peshawaw Pakistan

اپنا تبصرہ لکھیں