انتہا پسندی ایک رویہ یا چیلنج

انتہا پسندی ایک رویہ یا چیلنج


مسلم نوجوانوں کی انتہا پسندی پر جناب احسا  ن شیخ کا مقالہ
تیس ستمبر بروز اتوارپاکستان ویلفیر یونین ناروے کے زیر اہتما مسلم نوجوانوں میںانتہا پسندی روکنے کے لیے کیے جانیوالے اقدامات کے موضوع پر ایک سیمینارکا انعقاد ہوا۔اس سیمینار میں راقم نے ایک مقالہ پڑھا۔جس کو قارئین کی دلچسپی کیلیے پیش کیا جا رہا ہے۔داراصل یہ ایک بہت وسیع موضوع ہے۔لیکن وقت کی قید کے پیش نظر اسے درج ذیل الفاظ میں پیش کیا گیا ہے۔

عام اصطلاح میں انتہا پسندی ایسا نظریہ یا سیاسی عمل ہے جو کسی بھی معاشرے کے رائج اخلاقی رویہ کی خلاف ورزی ہے۔اس کے مطابق جمہوری معاشروں میں افراد یا گروہ جو کہ جمہوری طریقہ کو حاکمانہ یا ظالمانہ طریقہ میں تبدیل کرنا چاہیں۔انہیں عموماً انتہا پسند کہا جاتا ہے۔
اگر دنیا میں ہونے والی انتہا پسندی کو موجودہ تناظر میں دیکھا جائے تو دائیں بازو کی سوچ رکھنے والوں یعنی   Right wing extremism    کو اسکا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے۔مذہب پر یقین رکھتے ہوئے اس سے رہنمائی لینے والوں کو انتہا پسندی کے حوالے سے  اس رویے کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے انہیں جمہوری رویوںاور جمہوریت کے لیے خطرہ قرا ر دیا جاتا ہے۔
ہالینڈ میں گستاخانہ فلم بنانے والے کے قتل کویورپ  میں کثیر ثقافتی معاشرہ بنانے کے خواب کے ٹوٹنے کی بنیاد قرار دیا جاتا ہے۔اور اسے نسلی تقسیم کی بنیاد پر یورپ میں فسادات کی وجہ قرار دیا جاتا ہے۔اس صورتحال نے ان ممالک میں خوف کی ایک ایسی لہرپیدا کر دی ہے جس کے نتیجے میںان ممالک کے سماجی معاشی  اور سیاسی حالات متاثر ہوئے ہیں۔
گذشتہ سال ناروے میں اوتھویا میںہونے والا سانحہ ایک ایسی مثال ہے جس میں ایک عیسائی نارویجن نے اپنی انتہا پسندانہ سوچ کے بل بوتے پر 77  لوگوں کی جان لے لی کہ یہ ناروے کو کثیر ثقافتی معاشرہ بنانا چاہتے تھے۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ انتہا پسندی کا کوئی مذہب نہیں۔کوئی بھی شخص اپنے عقیدے،احساس  یاسوچ  سے مغلوب ہو کر ایسی سرگرمی کا مرتکب ہو سکتا ہے۔جس سے سماجی طور پر اس سے متعلق گروپ کو شدید نتائج کا سامنا کرنا پڑتاہے۔پاکستان اور افغانستان میں طالبان کی سرگرمیوں کی وجہ سے دنیا میں بسنے والے مسلمان متاثر ہو رہے ہیں۔انہیں دنیا میں انتہا پسند اور دہشت گرد تصور کیا جاتا ہے۔
آج کا موضوع ہے ۔
“forebygging av ekstremisme blant muslimske ungdom
یعنی مسلم نوجوانوں میں انتہا پسندی کو روکنے والے اقدامات ۔زندگی  مسلسل عمل کا نام ہے آج سے چالیس برس پہلے جب پاکستانی تارکین وطن ناروے آئے اس وقت ناروے کے معاشی ،سیاسی اور سماجی حالات بہت مختلف تھے۔ ناروے دنیا کے کونے میں قطب شمالی پر ایک چھوٹا سا ملک  دنیا کے ساتھ بغیر کسی رابطے کے اپنی ترقیاتی سیڑھی کی پہلی منزل پر تھا۔یہاں کے لوگوں نے انہیںخوش آمدید کہا اور اپنے ہر طرح کے وسائل ان کے ساتھ بانٹے۔انہیں نوکریاں فراہم کیں،انہیں رہنے کے لیے جگہ دی  اور ان کے ساتھ شفقت کا برتائو کیا۔وقت کے ساتھ ساتھ  ناروے کی معاشی  ترقی اور دنیا کے بدلتے ہوئے سیاسی حالات کی وجہ سے یہاں کے لوگوں کو پاکستان ،پاکستانی،اور پاکستانی بحیثیت مسلمان کے ساتھ آشنائی ہوئی۔انقلاب ایران مشرق وسطیٰ کی جنگ اور نائن الیون کے واقعات کی وجہ سے لوگوں کے نظریات میں تبدیلی آنا شروع ہو گئی۔علاوہ ازیں ہمارے اپنے رویوں نے سونے پہ سہاگہ کا کام کیا۔ جس سے نارویجن لوگوں کے رویہ میں تبدیلی آنا شروع ہوئی۔وہی لوگ جو شفقت اور پیار سے ہمارے قریب آتے تھے انہوں نے ہم سے فاصلہ لے لیا۔
افغانستان اور پاکستان میں طالبان کی سرگرمیوں نے دنیا میں مسلمانوں کے بارے میںرائے عامہ میں مسلمانوں کو دہشت گرد اورانتہا پسند کی حیثیت سے دیکھا جانے لگا۔اسکا اثر ناروے میں بھی ہوا لیکن الحمد اللہ  یہاں کی حکومتوں اور سیاسی پارٹیوںنے اس نظریہ کو اس حد تک پنپنے نہیں دیا۔جس سے ہم خود کو بہت ذیادہ غیر محفوظ سمجھیں۔چونکہ اب ہماری تیسری نسل تیار ہو چکی ہے اس لیے ان کو انتہا پسندی سے
بچانے کے  لیے مستقبل پہ نظر رکھتے ہوئے اس معاشرے میں رہنے کے لیے تدابیر اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔
درج ذیل میں تدابیر ایسی ہیں جو راقم کی نظر میںضروری ہیں
١۔دنیا میں ہونے والی تبدیلیوں کے مطابق اپنے رویوں کو متعین کرنا۔ہمارے نزدیک روائیتی جمود کا شکار ہو کر انسانی ذہن کی وسعت اور ترقی میں رکاوٹ پیدا کرتے ہیں۔ جو بعد میں مایوسی اور رکاوٹ کا باعث بنتے ہیں۔
لٰٰہذادنیا میں سماجی معاشی،معاشرتی،ترقیاتی،اورتبدیلی کے عمل کے بارے میںشناسائی اور ان تبدیلیوں کے بارے میں منصوبہ بندی  اور لائحہ عمل ترتیب دے کر طے شدہ مقاصد کے لیے کوشش کرناوقت کے تقاضوں اور چیلنجز کے لیے لازمی ہے۔
ایک متوازن سوچ اور رویہ انتہا پسندی کو روکنے کے لیے ممدو ثابت ہو سکتا ہے۔
٢۔نوجوانوں میں موجود ناامیدی اور غیر محفوظ سوچ کو مستقل اور مسلسل رابطے کے ذریعے تحفظ کا احساس دلا کر اس سلسلے میں اپنے عمل کے ذریعے انہیںامید کی کرن دکھا کر اس امید کو پورا کرنے کے لیے مضبوط منصوبہ بندی اور لائحہ عمل پر عمل در آمد کرتے ہوئے انہیں۔
٣۔ایک مضبوط سوشل نیٹ ورک تشکیل دے کر جس میں معاشرے کے تمام ادارے مثلاًدینی سماجی فلاحی،تعلیمی اکٹھے ہو کر فرد پر فوکس کریں، اور اسکی بہتری اور تحفظ کے لیے اجتماعی طور پر کام کریں۔ایسا کام جو کاغذی اور دکھاوے کا نہ ہو۔جس میں عملی رویہ اپنے نتائج سے ظاہر ہو۔
٤۔بنیادی عقائد کی مضبوطی کے لیے نوجوانوں کو اپنے سامنے ایسے رول ماڈل نظر آنے چاہیئیںجو حقیقتاً ان کے عقائد کو مضبوط کرنے کا باعث بنیں۔
لفاظیت اور بے عمل رویہ ان کے عقائد کو مجروح اور کمزور کرنے کا باعث بنتا ہے۔جس کے نتیجے میںانکا مذہب او مذہبی اداروں سے یقین اور بھروسہ ختم ہو جاتا ہے۔
٥۔توہین رسالت کے بارے میں اوسلو میں دو طرح کا رد عمل نظر آیا ۔ایک متوازی اور مثبت دوسرا غیر متوازی اور جارحانہ،جس میں نوجوانوں نے جارحانہ انداز میں پارلیمنٹ کے باہر مظاہرہ کیا۔ایسے نوجوانوں کی رہنمائی کرنے کے لیے ان کے ساتھ رابطہ کر کے انہیں صورتحال سے روشناس کرانا ضروری ہے۔
٦۔اسلامک کونسل ناروے کو مزید فعال  اور متحرک ہونے کی ضرورت ہے۔اس تنظیم میں اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ موجود ہیں جو سا ئنٹتفک طریقے سے ایسامستقل لائحہ عمل تیار کر سکتے ہیں جو بوقت ضرورت فوری طور پر قابل قبول ہو۔
٧۔ہم نے اپنے دوہرے معیار سے اپنی نئی نسل کو مایوس کیا ہے۔لہٰذا ہمیں اپنے قول و فعل کے تضاد کو ختم کتے ہوئے انہیں اپنے ساتھ ملانے
کے لیے وہ تمام طریقے استعمال کرنے چائیںجن سے ہم انکا اعتمادبحال کر سکیں۔
٨۔مختلف تنظیمیں مختلف معاملات پر اکثر سیمینار کا اہتمام کرتی ہیں۔ان سیمینار میں مقالات پڑہے جاتے ہیں اور اکثرجذباتی انداز میں  متفکرانہ باتیں کی جاتی ہیں۔ان سیمیناروں میںفراہم کی جانے والی معلومات اور دیگر کارآمد تجاویز کی روشنی سے استفادہ حاصل کرتے ہوئے ہم مستقبل کے لیے کوئی ایسا لائحہ عمل نہیں بناتے جس کے ذریعے ایک سسٹم بنایا جا سکے۔
٩۔نوجوان نسل کو نارویجن سیاست میں ہر سطح پر حصہ لینا چاہیے۔
١٠۔نوجوان نسل کی مختلف تنظیموں کا  نارویجن تنظیموںکے ساتھ رابطہ ہونا ضروری ہے۔اسطرح وہ باہمی سمجھ کے ذریعے  ایک بہتر فضا قائم کرنے میں مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں۔

انتہا پسندی ایک رویہ یا چیلنج“ ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ لکھیں