امید ہے میرے بچوں سے قیدیوں جیسا سلوک نہیں کیا جائے گا

یو کرائن کی حالیہ جنگ کی وجہ سے ناروے ہجرت کرنے والی ایک خاتون نے مقامی روزنامہ کلاس کیمپ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مجھے امید ہے ناروے میں میرے بچوں کے ساتھ قیدیوں جیسا سلوک نہیں کیا جائے گا۔وہ یو کرائن سے بس کے ذریعہ باقی مہاجروں کے ساتھ آئی تھی۔تین بچوں کی مہاجر خاتون نے تقریباً روتے ہوئے بس ڈرائیور کو بتایا کہ وہ تین دن ناروے کے ریسپشن سینٹر میں گزارنے کے بعد سویڈن جا رہی تھی جہاں سے اسکی اگلی منزل ڈنمارک تھی۔اس نے کہا کہ اس کے لیے یہ تین روز کافی تھے۔اس نے گوتھنبرگ جانے والی بس ڈرائیو ماریا سے پوچھا کہ کیا وہ بس میں بیٹھ سکتی ہے جس پر اس نے اسے یوکرائنی زبان میں بتایا کہ ہاں وہ بیٹھ سکتی ہے۔جس پر وہ اسکی بات سن کر اسکے گلے لگ کر رونا شروع ہو گئی۔
اس نے اخباری نمائندہ کو بتایا کہ اسے ڈنمارک میں امن پانی کافی خوراک اور کام ملنے کی امید ہے۔
مقامی اخبار کے نمائندہ نے دو مزید پناہ گزینوں سے بھی گفتگو کی جنہوں نے کیمپوں میں ٹھنڈ اور ٹھنڈے پانی اور پیٹ کے وائرس کی شکائیت کی۔جبکہ وہ ریڈ کراس کے عملے کے دوستانہ رویہ پر شکر گزار تھے۔
یوکرائنی ایسو ایشن کی سربراہ ٹیٹیانہ نے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ ناروے مہاجروں کے کام کے لیے رضاراروں پر انحصار کرتا ہے۔ شائید وہ مہاجرین کو پناہ دینے کیلیے تیار ہی نہیں ہے۔
جب پہلے سے شناخت معلوم ہے پھر لوگوں کو رجسٹر کرنے میں ذیادہ وقت کیوں لگتا ہے۔سخٹ ٹھنڈ میں بہت دیر تک لمبی قطاروں میں تھکے ہوئے مہاجرین کو کھڑے رہنا بے حد مشکل لگتا ہے۔ اس کے مقابلے میں پولینڈ سویڈن او ڈنمارک میں پناہ گزیوں کے بہت اچھے حالات اور انتظام ہے جبکہ ناروے پناہ گزینوں کے لیے بہتر انتظام نہیں رکھتا۔
Klasse kampen/UFN

اپنا تبصرہ لکھیں