امید کی کرنیں

امید کی کرنیں

 

ترجمہ ، احسان شیخ اوسلو ناروے

عصرا ظہیر پاکستان ایمبیسی کے اکائونٹ آفیسر محترم  ظہیر صاحب کی صاحبزادی ہیں اور آجکل اوسلو میں زیر تعلیم ہیں۔یوم پاکستان کے سلسلے میں پاکستان ایمبیسی میں منعقدہ  پر وقار تقریب میں انہوں نے اپنی انگریزی میں لکھی نظم پیش کی۔یہ نظم انہوں نے اپنے وطن عزیز پاکستان کے حالات سے متا ثر ہو کر لکھی ہے۔انہوں نے کہا کہ علامہ اقبال سے متاثر ہو کر  انہوں نے پاکستان اوردنیا میں بسنے والے ہر محب وطن کو  امید  اور پختہ عزم کا پیغام  دینے کی کاوش کی ہے۔عصرا ظہیر نے کہا کہ اگر ہم صدق دل سے بانیء پاکستان  قاعداعظم کے نقش قدم پہ چلیں تو ہم ایک خوشحال پاکستان کو عملی شکل میں دیکھ سکیں گے۔علاوہ ازیں تصویر کو دور سے دیکھنے اور شکایات  کے رویے کو تبدیل کر کے اگر ہر شخص اپنا کردار پاکستان کی بقاء اور بھلائی کے لیے استعمال کرے تو ہم یقیناً پاکستان کے مقصد کو حاصل کر کے اسکا  انعام حاصل کر سکیں گے۔عصرا ظہیر کی نظم ،امید کی کرنیں،قارئین کی دلچسپی کے لیے پیش کی جا رہی ہے۔امید ہے وہ اس نظم کے ذریعے شاعرہ کا پیغام سمجھنے کی کوشش کریں گے۔

ASRA ZAHEER.JPG

یکسوئی کے عالم میں میں جب خیالات کے تانے بانے بنتی ہوں اور سوچتی ہیں تو میں خود کو اندھیروں میں گھرا محسوس کرتی ہوںبالکل ایسے جیسا ٹھہرا ہوا پانی اپنی حدوں سے نکلنے کے لیے تیار ہوپانی کو آگے جانے کے لیے روکنے والی چیز گلی میں لٹکے لیمپ کی ایک مدھم روشنی ہے جو دن بدن  دھیمی پڑتی جا رہی ہےشہر کی اونچائی پر بیٹھ کر جب میں تاریکیوں میں ڈوبے شہر کی جانب دیکھتی ہوںتو مجھے گلی میں لٹکے لیمپ ایسے نظر آتے ہیں جیسے چھوٹے چھوٹے ستارے سمندر کے اوپر جھلملا رہے ہوںیہ سرزمین جو کبھی روشنیوں کا گھرتھی اب وحشت بھری رات میں ڈوب چکی ہے۔وہ زمین جس پر کبھی چاند اس طرح دمکتا تھا جیسے دن میں سورج کی روشنیجس کے لوگوں نے بوقت ضرورت دن میں اپنی جانوں کی پرواہ کیے بغیر اپنی قربانیاں پیش کیںاور پھر انہی قربانیوں کے نتیجے میں میرا وطن عزیز معرض وجود میں آیایہ قربانیوں اور غم و الم کا وقت تھا جو ہر سو چھایا ہوا تھاایسے وقت میں ایک مرد آہن سامنے آیاجو ان آندھیوں طوفانوں اور بحر ظلمات کے سامنے سینہ سپر ہو گیااسی سچائی میں کسی کو ذرا برابر شبہ نہیںجس نے اقبال کے آزاد ملک کے کواب کو شرمندہء تعبیر کرنے کا عزم کیایقین محکم پر ایمان رکھنے والا وہ انسان جس نے دور اندیشی کی شمع کو تھام کر انسانوں کے دلوں میں امید کی کرن پیدا کیوہ ہمیشہ زندہ رہنے والے قاعد اعظم علی جناح تھےمیرے اندر شدت سے یہ خواہش پیدا ہوتی ہے اور میںاب ہر جھجک اور ہچکچاہٹ کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مزید انتطار نہیں کر سکتیہر قدم پر ایک نئے جذبے اور ولولے کے ساتھ اندھیروں میںڈوبے ان راستوں کو اب میں روشن کرنا چاہتی ہوں مجھے یقین ہے کہ اس عمل میںدوسری روشنیاں بھی میرے ساتھ آ ملیں گیاور ہم سب مل کر اندھیروں کو اجالوں میں تبدیل کر لیں گے

اپنا تبصرہ لکھیں