اللہ کے راز‎

Waseem Hyder

وسیم ساحل
جنہیں اللہ تعالیٰ اپنی دوستی کیلئے چُن لیتا ہے اور اللہ ہی ہے جو اِنہیں ایسی قُوت اور طاقت عطا فرماتا ہے جسکا ادراک ہم جیسے معمولی لوگ جو اپنی تمام عُمر گُناہوں اور نافرمانی میں گُزار دیتے ہیں نہیں کرسکتے اللہ تعالیٰ تو قادر اور قُدرت والا ہے- آج  ایک ایسا ہی عجیب وغریب واقعہ جوکہ میرے دوست کی زبانی ہے دو حصوں پر مشتمل ہے آپکی خدمت میں پیش کر رہا ہوں جسکو پڑھ کر شائد آپ محو حیرت رہ جائیں گے ۔ 
یہ اُن دِنوں کی بات ہے جب میں نے میٹرک کا امتحان دیا تھا اور رزلٹ کا انتظار کر رہا تھا  ابو نے مذاقاً مجھ سے کہا کہ میرے خیال میں تُمہیں فارغ وقت میں کچھ کرنا چاہیے یہ بات کہنے کے بعد تو ابواپنےکام میں لگ گئےجب کہ میں کام   کے متعلق سوچنے لگا کہ مجھے کیا  کرنا چاہیے ، اور اِسی کیفیت میں کجھ دیر بعد نیند کی وادیوں میں کھو گیا صبح فجر کی نماز کے بعد میں نے ابو کی چابیوں میں سے ایک چابی جو ایک بند دوکان کی تھی جس میں اسٹاک سامان رکھا جاتا تھا خاموشی سے نِکالی اور اُس دُکان کی صفائی سُتھرائی کرنے کے بعد دُکان کا لُک دینے لگا جس میں دو ایک گھنٹے کی کوشش کے بعد میں کامیاب بھی ہوگیا جب اَبو مارکیٹ پُہنچے تو اُنہیں حیرت کا جھٹکا لگا کہ میں ایک گودام کو دُکان کی شِکل دے چُکا تھا ابو نے ماجرا دریافت کیا تو میں نے کہہ دِیا کہ آپ ہی نے تو رات کو کہا تھا کہ مجھے فارغ وقت میں کوئی کام شروع کرنا چاہیے سو میں نے یہ دوکان کھول لی ابو نے مجھے کافی سمجھایا کہ وہ صرف ایک مذاق تھا لیکن میری آنکھوں میں نَمی دیکھ کر اور مارکیٹ میں کہیں میرا مذاق نہ بنے ابو اُس وقت خاموش ہوگئے اور وہاں سے چلے گئے۔ اب میں نے باقاعدہ اُس دُکان پر جانا شروع کردیا لیکن چند ماہ کی کافی کوششوں کے باوجود بھی وہ دُکان نہیں چل پائی جس کی وجہ سے میں دلبرداشتہ ہونے لگا اور میں سوچنے لگا کہ دُکان کے بجائے اپنی تعلیم پر توجہ دینی چاہیے کافی دِن میں اِنہی سوچوں میں گرفتار رہا، کہ ایک دِن عجیب واقعہ ہوگیا جس نے میری سوچ کو بدل دیا۔
ہُوا یوں کہ ایک دِن ابو میری دُکان پر آئے اور مجھے کہنے لگے دانیال ایک کام کردو جب تک میں تُمہاری دُکان پر بیٹھ جاتا ہوں، میں خوشی خُوشی راضی ہوگیا، ابو نے کہا فُلاں فیکٹری چلے جاؤ اور وہاں سے کچھ سیمپل لے آؤ میں ابو کو اپنی دُکان پر چھوڑ کر موٹر بائیک پر فیکٹری کی جانب روانہ ہوگیا۔
 میں اپنی بائیک پہ سُوار چلا جارہا تھا شہر کے درمیان میں ریلوے پھاٹک تھا جب میں پھاٹک کراس کر کےاُس فیکٹری کے نزدیک پُہنچا تو یکا یک ایک نحیف ونراز عُمر رسیدہ بُزرگ نے مجھے ہاتھ کے اِشارے سے رُکنے کا اِشارہ دِیا مجھے اگرچہ بُہت جلدی تھی  لیکن اماں نے ہمیشہ بُزرگوں کا احترام کرنا سِکھایا تھا سو میں نے چند قدم آگے اپنی بائیک کو روک لیا وہ بُزرگ پلٹ کر میرے پاس آئے اور کہنے لگے بیٹا مجھے ریلوے اسٹیشن جانا ہے کیا مجھے گیٹ تک پُہنچا دو گے اب مزے کی بات یہ تھی صرف پٹری عبور کر کے وہ صاحب اسٹیشن پر پُہنچ سکتے تھے جب کہ وہ چاہ رہے تھے کہ میں ایک طویل سفر طے کر کے اُنکو اسٹیشن کے گیٹ پر پُہنچاؤں۔ پہلے تو میرے دِل میں آیا کہ مُعذرت کرلوں لیکن پھر نجانے کس خیال کے تحت میں نے اپنی بائیک کو واپس موڑ لیا اور اُن صاحب سے پیچھے بیٹھنے کی استدعا کی جب بائیک پر کچھ لمحے تک وزن محسوس نہیں ہُوا تو پیچھے مُڑ کر دیکھا تو معلوم ہُوا کہ وہ صاحب تو نجانے کب پِچھلے اسٹینڈ پر بیٹھ بھی چُکے تھے اُس دِن ہُوا کے جھکڑ چل رہے تھے اور بائیک چلانے میں دُشواری پیش آرہی تھی لیکن اُن صاحب کے بیٹھنے کے بعد تو گویا بائیک میں پر لگ گئے ہُوں بہرحال اسٹیشن پر وہ صاحب جیسے ہی اُترے میں نے بائیک کو یو ٹرن دیا اور بھاگنے کی تیاری کر ہی رہا تھا کہ اُن صاحب نے چِلا کر آواز دی برخوردار! ذرا رُکنا تو سہی مجھے جِسقدر جلدی تھی وہ صاحب مجھے اُتنا ہی لیٹ کئے جانے کے درپے تھے۔
میں نے عرض کیا جناب اب کیا ہے؟ وہ گویا میرے اضطراب سے لُطف اندوز ہورہے تھے کہنے لگے برخوردار دو روپے کا نوٹ ہے جیب میں؟ میں نے سوچا لو ایک تو نیکی کی اِنکے پچاس پیسے جو پک اپ والے کو دینے پڑتے بچا دیئے اب دو روپیہ اور اِنہیں دو، میں نے جُھلا کر جیب میں ہاتھ ڈالا تو دو روپیہ کا نوٹ خود بیقرار ہو کر ہاتھ میں آگیا میں نے دو روپیہ کا وہ نوٹ اُنکے ہاتھ پر رکھ کر جونہی کک ماری وہ پھر چِلائے میاں رُکو تو سہی کیا قلم ہے جیب میں؟ مجھے اب غُصہ آنے لگا تھا مجھے ایسا محسوس ہونے لگا تھا جیسے وہ بُزرگ میرے ساتھ کوئی کھیل کھیل رہے تھے۔ میرے اِنکار پر اُنہوں نے اپنی جیب سے قلم نِکالا اور نوٹ پر کُچھ لکھنے لگے اُس کے بعد اُنہوں نے وہ نوٹ مجھے واپس کردیا اور کہنے لگے برخوردار یہ لو اپنا نُوٹ اور اِسے پیسوں کی دراز میں رکھ دِینا مجھے اُنکی حرکتیں عجیب سی محسوس ہورہی تھیں کبھی پیسے مانگ رہے تھے اور اب اپنا آٹو گراف خود ہی نوٹ پر ڈال کر یوں واپس کر رہے ہیں جیسے مُجھ پر اِحسان کر رہے ہوں میں نے وہ نوٹ اپنی جیب میں رکھا تو کہنے لگے میاں ذرا ذرا سی بات پر رویا نہیں کرتے ویسے تُم ہمیں پسند آئے ہو۔
میرا ذہن ابو میں اُلجھا ہُوا تھا یہ سب کچھ اُس وقت میرے لئے ہرگِز اہم نہیں تھا بلکہ میں جلد ازجلد دوکان پر پہچنے کے لیے بیقرارتھا لہٰذا گَردن گھماتے ہوئے خُدا حافظ کہا اور بائیک کی اسپیڈ بڑھانے لگا مجھے خُوف تھا وہ صاحب کہیں پھر پیچھے سے نہ پُکار لیں لیکن اُنہوں نے مجھے پھر کوئی صدا نہیں لگائی البتہ راستہ بھر مجھے اُنکی ذومعنی مُسکراہٹ کا مطلب سمجھ نہیں آسکا۔
جب میں دوکان پر پُہنچا تو ابو  شکایت بھرے لہجے میں تاخیر کا سبب معلوم کیا تو میں تمام واقعہ تفصیل سے سُنانے لگا  نوٹ پر آٹو گراف والی بات سُن کر وہ خاموش نہ رہ سکے اور مجھے مُخاطب کرتے ہوئے کہنے لگے بیٹا وہ نوٹ فوراً پھاڑ کر پھینک دو، میں نے حیرت سے استفسار کیا مگر کیوں؟وہ کہنے لگے تم ابھی بَچّے ہو نہیں سمجھ سکتے کہ کس طرح ٹھگ ٹائپ کے لوگ اپنے نِشان ذدہ نُوٹ بُھولے بَھالے لوگوں کی جیبوں اور پیسوں کی دراز میں داخِل کردیتے ہیں اور پھر کوئی الزام لگا کر اپنے نوٹ کی نِشانی بتا کر لوگوں کو بلیک میل کرتے ہیں، مجھے اُنکی کوئی بات پَلّے نہیں پڑی تو وہ کہنے لگے اگر یہ نوٹ تُم اپنی پیسوں کی دراز میں رکھو گے اور اُس شخص نے پولیس میں یہ ر پورٹ لِکھوا دی کہ تُم نے اُس کی رقم چوری کی ہے اور اُسکی بتائی ہوئی نِشانی والا نوٹ پولیس نے تُمہاری دراز سے برآمد کرلیا تو سمجھو سال دو سال کیلئے جیل پُہنچ جاؤ گے۔
وہ تو تجویز دیکر چلے گئے لیکن میرے چہرے پر ۱۲ بج گئے یہ واقعی پریشانی والی بات تھی اگر ایسا کوئی واقعہ پیش آگیا تو میں اور میرے گھر والے کِسی کو مُنہ دِکھانے کے قابل نہیں رہیں گے لیکن نُوٹ پھاڑ کے پھینکنے والی تجویز مجھے قطعی پسند نہیں آئی کیونکہ یہ رقم میری ذاتی کمائی تھی میں نے سوچا شام کو گھر کی طرف جاتے ہوئے اِس رقم سے پیٹ بھر کر گول گَپّے کھاؤں گا واپسی پر چُونکہ رات کا اندھیرا پھیل چُکا تھا لِہٰذا گول گَپے والا مجھے کہیں نظر نہیں آیا۔
گھر پُہنچتے ہی اَمّی نے خَفگی کا اظہار کرتے ہُوئے تاخیر کا سبب معلوم کیا تو تمام دِن کی رُوداد اَمّی کو سُنانے لگا اُنہوں نے بھی اُس نُوٹ میں دِلچسپی کا اِظہار کیا اور اُس نُوٹ کی بابت معلوم کیا تو میں نے اَمی کو وہ نُوٹ دیتے ہوئے کہا اَمّی آپ خود اپنے ہاتھ سے اِس نُوٹ کو پھاڑ ڈالیں اَمّی نے اُس نُوٹ کو غور سے دیکھا اور مجھ سے دریافت کرنے لگی تُم شکل سے دُکاندار کم اور طالب علم زیادہ لگتے ہو کیا تُم نے اُنہیں بتایا تھا کہ تُم دُکان پر بیٹھتے ہو؟ میں نے اپنا سر نَفی میں گُھمایا تو اُنہوں نے مجھے وہ نُوٹ واپس دیتے ہوئے کہا اِسے احتیاط سے جیب میں سنبھال کر رکھ لو اور اِسے صبح جاتے ہی اپنے پیسوں والی دراز میں چَسپاں کردینا۔ میں حیرت سے اَمّی کو دیکھتے ہوئے کہنے لگا اور اگر وہ بڑے میاں پولیس کو لے آئے تُو؟
اَمِّی نے میری ہِمت بندھاتے ہوئے کہا ایسا کچھ بھی نہیں ہوگا میرا دِل گواہی دے رہا ہے کہ تُمہارے دِن پھرنے والے ہیں، بس وہی کرو جو میں تُم سے کہہ رہی ہوں مجھے اَمِّی کا یہ فیصلہ اگرچہ مُناسب نہیں لگا لیکن بہرحال مجھے اَمِّی کے فیصلے کو ہر ایک فیصلے پر اہمیت دینی ہی تھی کیونکہ وہی تو تھیں جو مجھے ہمیشہ حوصلہ دِیا کرتی تھیں اور اِسطرح ہَفتہ کی صُبح میں نے دُکان کھولتے ہی جو سب سے پہلا کام کیا وہ یہ تھا کہ اُس نوٹ کو ایک سادہ کاغذ پر چسپاں کیا اور کاغذ کے پیچھے نوٹ کو چُھپایا اور اُس کاغذ کو سلوشن ٹیپ کی مدد سے دراز کی سایڈ میں چُپکا دِیا۔ دراصل اِک خوف تھا جو میرے مَن میں جگہ بنا چُکا تھا۔ اِس لئے احتیاطًً میں نے یہ طریقہ اپنایا تھا۔
مُجھے دُکان کھولے بَمُشکل ایک گَھنٹہ ہی ہُوا ہوگا کہ ایک شَخص جس کے چہرے پہ چیچک کے پُرانے نَشان تھے میری دُکان پر آیا اور مجھ سے مُختلف آیٹمز کی قیمتیں دریافت کرنے لگا میں بڑی خوش اخلاقی سے دَام بتاتا رہا وہ کہنے لگا کیا آج ہی دُکان کھولی ہے؟
میں نے جواباً بتایا کہ نہیں دُکان کو تو کئی ماہ ہوگئے، وہ حیرت کا اظہار کرنے لگا کہ میں نے یہ دُکان پہلے کیوں نہیں دیکھی
بہرحال اُسنے اپنی جیب سے ایک فہرست نکالی اور مجھے سامان لَکھوانے لگا اور کچھ دیر ہی میں اُس نے اسقدر بڑا آرڈر مجھے لِکھوا دِیا کہ مجھے اُس کی دماغی صحت پر شُبہ ہونے لگا کیونکہ یہ میری دُکان میں موجود 25 فی صد سامان کی لسٹ تھی اور اِسکا اَماؤنٹ میری دُکان کی 10 دِن کی سیل کے برابر تھا مجھے شُبہ ہُوا کہ شائد یہ میرے ساتھ کوئی مذاق کیا جارہا ہے لہٰذا میں نے اُس شخص کو اِس تمام سامان کی قیمت بتائی اور کچھ ایڈوانس رقم کا مُطالبہ کیا، وہ شخص یہ کہتا ہُوا دُکان سے روانہ ہوگیا کہ آپ تمام سامان کی پیکنگ کرلیں اور بِل تیار رکھیے گا میں دو گھنٹے بعد آکر سامان لیجاؤں گا اور آپکو پیمنٹ بھی تبھی کردونگا مجھے ابھی مارکیٹ سے مزید خریداری بھی کرنی ہے، میرا شک اب یقین میں بدل گیا کہ یہ شخص ضرور مجھ سے مذاق کر رہا ہے ورنہ مجھے کُچھ ایڈوانس رقم ضرور دے کر جاتا۔
اُس شخص کے جاتے ہی مزید چند نئے کسٹُمر دُکان پر آئے اور میں اُن میں مصروف ہوگیا، تقریباً دو گھنٹے کے بعد وہی شخص پھر دُکان پر آدھمکا اور مجھ سے اپنا آرڈر طلب کیا تو میرے ماتھے پر پسینہ آگیا، مجھے پریشان دیکھ کر اُس نے استفسار کیا آپ نے میرا سامان پیک کردیا؟
میں نے جب اُسے بتایا کہ اُسکا سامان ابھی تک نہیں نِکالا گیا ہے تو وہ پریشان ہوگیا اور کہنے لگا میں تو ڈاٹسن بھی لے آیا ہوں اور مارکیٹ سے فارغ بھی ہوچُکا ہوں آخر آپ نے میرے ساتھ پہلی مرتبہ میں ہی ایسا سلوک کیوں کیا؟
میں نے اُسے سچ سچ بتا دیا کہ میں نے آج تک اِتنا بڑا آرڈر بُک نہیں کیا ہے اِس وجہ سے مجھے لگا کہ آپ میرے ساتھ مذاق کر رہے ہیں۔
وہ شائد میری سچائی سے مُتاثر ہُوا تھا اُس نے مجھ سے پُوچھا آپ کم از کم کتنے وقت میں تمام سامان پیک کرسکتے ہیں؟ میں نے کہا بُہت جلدی بھی کروں تو 45 منٹ تو لگ ہی جائیں گے۔
اُس نے پرس نکالا اور مکمل رقم میرے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا کوشش کرنا اِس سے زیادہ وقت نہ لگے میں جب تک ڈرائیور کو چائے پِلا لاتا ہوں، میں نے کہا کہ چائے میں پِلوا دِیتا ہوں مگر وہ نہیں مانا کہ اسطرح آپ کا دھیان مہمانی میں رہے گا آپ صرف کام میں دھیان رکھیں میں نے اُس کے جانے کے بعد سب سے پہلے اُن نوٹوں کی جانچ کی اور پھر سامان کی پیکنگ میں مصروف ہوگیا، تمام سامان 45 منٹ سے قبل ہی پیک کرلیا گیا وہ شخص45 منٹ بعد آیا اور اپنا سامان لے گیا اور جاتے جاتے کہہ گیا میں دو چار دِن بعد پھر آؤں گا اَ ب مجھ پر بھروسہ کرنا میں اُسکی اِس بات سے کچھ شرمندہ ہوگیا۔
اُس شخص کے جانے کے بعد پھر شام تک دُکان پر ایسا رَش رہا کہ ایک گاہک جاتا نہیں تھا کہ دوسرا آموجود ہوتا تھا اڑوس پڑوس کے دُکاندار بھی محوِ حیرت تھے کہ آج یہ ہو کیا رہا ہے شام تک میرا مارے تھکن کے بُرا حال ہوگیا مغرب سے قبل ہی میں نے دُکان سمیٹنا شروع کردی جب رقم گِننا شروع کی تو حیرت زدہ رہ گیا یہ رقم میری ایک ماہ کی سیل سے بھی زیادہ تھی دُکان تقریباً خالی ہوچُکی تھی میں نے بڑے بھائی کو جب اپنی سیل کی رقم دی تو وہ بھی حیرت کرنے لگے میں نے اُنہیں بتایا کہ دُکان تقریباً خالی ہوچُکی ہے مجھے صبح دُکان کے لئے سامان چاہیے آپ انتظام کردیجئے گا، اور اُسکے بعد سیدھا گھر چلا آیا، گھر میں داخل ہوتے ہی اَمِیّ نے سوال کیا
دانیال آج کیسا دِن گُزرا میں اُنکو تمام دِن کی روداد سُنانے لگا، وہ بُہت خُوش تھیں۔
لیکن مجھے لگ رہا تھا کہ آج کا دِن واقعی میرے لئے لکی تھا لیکن ہر دِن تو ایسا نہیں ہوسکتا جب میں نے اِس خدشے کا اظہار اپنی اَمِیّ سے کیا تو وہ کہنے لگی اَب تُمہارا ہر دِن لکی ہوگا بس اُس نوٹ کی حِفاظت کرنا۔
لیکن مجھے اب بھی نہیں لگتا تھا کہ یہ سب صرف ایک نوٹ کی وجہ سے ہورہا ہے لیکن وقت نے ثابت کردیا کہ جب تک میں اُس نُوٹ کی حِفاظت کرسکا قسمت مجھ پر مہربان رہی لیکن دوسال بعد اپنی ایک اپنی دراز بدلنے کے چکر میں اُس نُوٹ کو بھول گیا چند دِن میں جب سیل ٹوٹنے لگی تو مجھے اُس نُوٹ کا خیال آیا جب اسٹور میں اُس دراز کو تلاش کرنے کے بعد دِیکھا تو اُس میں وہ نُوٹ موجود نہیں تھا شائد کسی مُلازم نے اُسے پالیا تھا۔
یہ دُکان تقریباً دو سال بڑے آب و تاب کیساتھ میں نے چلائی پھر ابو فیکٹری پر بُلانے لگے تو میں نے اُس شاپ کو خیرباد کہا اور ابو کیساتھ فیکٹری پر جانے لگا چند ماہ کے بعد مجھے اَمِّی نے ایک عجیب بات بتائی کہ ایک بُزرگ جنکی عُمر ایک صدی سے زیادہ تھی اور اُنکے متعلق یہ بات مَشہور تھی کہ وہ صاحب کشف ہیں اکثر ہماری گَلی سے گُزرا کرتے تھے اور بارہا میں نے اُن سے اُس ہستی کے مُتعلق معلوم کرتی رہی جنہوں نے تُمہیں وہ نُوٹ دیا تھا مگر یہ بُزرگ ہمیشہ مجھے یہ کہہ کر ٹال دیتے تھے کہ قُدرت کے رازوں سے پردہ اُٹھانے کی کوشش مت کرو آج جب میں پھر وہی سوال کیا تو کہنے لگے لگتا ہے تو اِس سوال کو جانے بِنا میرا پیچھا نہیں چھوڑے گی۔
تُو سن ایک دِن تیرا بیٹا
دانیال ایک مزار کے پاس سےگُزر رہا تھا وہاں سے ایک مَرد قلندر اپنی ڈیوٹی نبھاتے ہوئے گُزر رہے تھے کہ اُنکی نظر تیرے بیٹے پر پڑی اُنہیں تیرے بیٹے پر پیار آگیا – تیرا بیٹا بڑا خُوش نصیب ہے یہ اولیاءَ اللہ کی نظر میں آگیا ہے ایک دِن آئے گا کہ لوگ اِسے پہچان جائیں گے جب میں نے اُن بُزرگ کا نام معلوم کیا تو وہ صاحب کشف بُزرگ کہنے لگے وہ ہمارے دوست ہیں حضرت سید اسماعیل شاہ بُخاری، اُسکے بعد اَمِّی نے حُکم دیا کہ مجھے اُن بُزرگ حضرت سید اسماعیل شاہ بُخاری سے دوبارہ جاکر مُلاقات کرنی چاہیے میں جب مطلوبہ مُقام پر پہنچا تو مجھے انتہائی حیرت ہوئی کہ وہاں اُن بُزرگ کا آستانہ نہیں بلکہ مزار مُبارک موجود تھا اور زیادہ حیرت تب ہوئی جب یہ پتہ چلا کہ اُنہیں پردہ فرمائے ہوئے دس برس کا عرصہ گُزر چُکا ہے۔
میں اپنا سر تھام کر رہ گیا یا اِلٰہی یہ کیا ماجرا ہے جس ہستی سے میں ڈھائی، تین برس قبل مِلا تھا اُنکے وصال کو 10 برس کیسے ہوسکتے ہیں؟ مجھے سر تھامے دیکھ کر ایک صاحب کو تشویش ہوئی تو وہ بڑی اپنائیت سے میرے قریب آئے اور میری طبیعت دریافت کرنے لگے میں نے بتایا کہ میں ٹھیک ہوں مگر آپ سے ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں؟ کیا آپ اِن صاحِبِ مزار کے مُتعلق جانتے ہیں؟
اُنہوں نے بتایا کہ وہ یہیں مزار کے قریب میں ہی رہتے ہیں اور بابا اسماعیل شاہ صاحب (رحمتہ اللہ علیہ) کی حیات ظاہری کے زَمانے سے ہی اُنکی خِدمت میں آیا کرتے ہیں میں نے سوال کیا بابا کے وصال کو کتنا عرصہ ہوگیا؟
وہ کہنے لگے تقریباً 10 برس ہوگئے ہیں، میں نے پُوچھا کیا بابا صاحب کی کوئی یادگار تصویر آستانے میں موجود ہے؟ وہ کہنے لگے بابا کی کوئی یادگار تصویر تو موجود نہیں البتہ میرے پاس ایک محفل کی تصویر ضرور موجود ہے جس میں بابا صاحب موجود ہیں، میں نے اُن سے عرض کی کیا آپ مجھے وہ تصویر دِکھا سکتے ہیں؟ وہ کہنے لگے اچھا تُم بیٹھو میں اپنے گھر سے وہ تصویر لاتا ہوں، کُچھ دیر میں وہ صاحب آئے تو اُنکے ہاتھ میں ایک تصویر تھی جس میں ایک بُزرگ کی طرف اِشارہ کرتے ہوئے وہ صاحب کہنے لگے یہ ہیں بابا اسماعیل(رحمتہ اللہ علیہ) میں نے اُس تصویر کو غور سے دیکھا تو فرطِ جذبات سے میرے مُنہ سے نکل گیا، واللہ یہ تو وہی ہیں، وہ شخص میری کیفیت کو دیکھ کر کُچھ پریشان ہورہا تھا بلآخر اس نے پوچھ ہی لیا بیٹا آخر بات کیا ہے مجھے بھی کُچھ بتاؤ؟
میں نے کہا کہ میں نے حضرت سید اسماعیل شاہ بُخاری رحمتہ اللہ علیہ سے دو ڈھائی برس قبل مُلاقات کی ہے وہ میری
بائیک پر سوار بھی ہوئے اور مجھ سے باتیں بھی کی اور مجھے انعام بھی دِیا تھا جِسے میں اب گَنوا چُکا ہوں، جب کہ یہاں سب یہی کہہ رہے ہیں کہ اُنکے وصال کو 10 برس کا عرصہ گزرچُکا ہے اور یہ کیسے ممکن ہے کہ جو اِنسان دُنیا سے 10 برس قبل پردہ کرچُکا ہو میں اُس سے بعد پردہ فرمانے کے مُلاقات کرلوں۔
وہ صاحب کہنے لگے بیٹا یہ اللہ کے راز ہیں جو اللہ ہی بہتر جانتا ہے میں تو بس اِتنا جانتا ہوں کہ اولیاءَ اللہ ہماری طرح کے عام بشر نہیں ہوتے یہ وہ خُوش نصیب اشخاص ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ اپنی دوستی کیلئے چُن لیتا ہے اور اللہ ہی ہے جو اِنہیں ایسی قُوت اور طاقت عطا فرماتا ہے جسکا ادراک ہم جیسے معمولی لوگ جو اپنی تمام عُمر گُناہوں اور نافرمانی میں گُزار دیتے ہیں نہیں کرسکتے اللہ تعالیٰ تو قادر اور قُدرت والا ہے کیا وہ گُنہگار اور نیک کو ایک جیسی طاقت عطا کرے گا وہ تو بڑا عادل ہے یقیناً اپنے نیک بندوں کو اپنے اولیاءَ کو زمانے میں ممتاز کرتا ہے جس کے سبب لوگوں کے دِل میں اُنکی عظمت کا سکہ بیٹھ جاتا ہے۔
اس کے علاوہ بیٹا تُم پہلے شخص نہیں ہو کہ جس نے بعد وصال بابا اسماعیل (رحمتہ اللہ علیہ) کو جاگتی آنکھوں سے دیکھا ہے بلکہ اِس علاقے کے کئی لوگوں نے تہجد کیلئے مسجد جاتے ہوئے اپنی جاگتی آنکھوں سے بابا اسماعیل کو علاقے میں گشت کرتے دیکھا ہے لیکن تُم خُوش نصیب ہو جس نے بابا سے کلام بھی کیا اور کُچھ لمحے اُنکے ساتھ بھی گُزارے ہیں۔
میں نے فوراً مزارِ پاک پر حاضری دی فاتحہ پڑھی اور جائے نماز کے اِحَاطہ میں سجدہ شُکر بجا لایا اور اللہ کریم کی بارگاہ میں دُعا کی اے میرے پروردِیگار میں تیرا بُہت گُنہگار بندہ ہوں تیرے اِک دوست نے مجھ بدکار پر نظر کرم ڈالی ہے میں تُجھ سے مغفرت کا طلبگار ہُوں مجھ پر تیرے دوستوں کی نظر کرم ہمیشہ بنی رہے تو اور تیرے محبوبین ہمیشہ مجھ سے راضی رہیں اور میرے دِل کو اپنے مِحبوب بندوں کی مُحبت سے بھر دے اور میرے سینے کو کینہ اور بغض سے پاک کردے۔
مُحترم قارئین مجھے لگتا ہے کہ اُس دِن میری دُعا مقبول ہوگئی تھی کیونکہ میں اُس خاندان میں پیدا ہُوا تھا جہاں اولیاءَاللہ کا ذکر سُن کر ہی پیشانی پر بَل آجاتے تھے جَہاں مَزارات اولیاءَ اللہ کو معاذ اللہ ثُمَّ معاذ اللہ بُت کدوں سے تعبیر کیا جاتا ہے مجھے اللہ کریم نے اپنے دوستوں کی نظر عنایت کے سبب گُمراہی اور اندھیرے کی تاریک وادی سے نِکال کر اپنے دوستوں کے مُحِبین کی صف میں شامِل کرلیا الحمدُ للہِ عزوجل ( یا رَبَّ العالمین یوں تو تیرے مجھ گُنہگار پر کروڑوں اِحسان ہیں لیکن فقط تیرا یہ ایک اِحسان ہی ایسا ہے کہ جسکا شُکر میں ساری زندگی سر بسجود ہوکر بَجالاؤں تب بھی ممکن نہیں کہ شُکر ادا کرپاؤں) یا رَبَّ العالمین تمام دُنیا کے مسلمانوں کے قلوب کو اپنے اولیاءَ کی مُحبت کا گہوارہ کردے
اپنا تبصرہ لکھیں