اللہ اور اس کے رسول کی عظمت

اللہ اور اس کے رسول کی عظمت

اللہ اور اس کے رسول کی عظمت

انتخاب احسان شیخ
اسلام کے خلاف امریکہ میں بننے والی توہین آمیز فلم پر بہت سے لوگوں نے بہت سی باتیں کہیں ہیں لیکن انڈونیشیا کے ایک عالم نے جو کہا ہے وہ توجہ کا طالب ہے۔

امیدان شبیرا ملک کی علما کونسل سے وابستہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ فلم ساز کا مقصد لوگوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانا تھا۔ دنیا بھر میں مسلمانوں کو تکلیف پہنچی ہے، لیکن لوگوں کو صبر و تحمل سے کام لینا چاہیے کیونکہ اللہ اور اس کے رسول کی عظمت اور شان اس توہین سے کم نہیں ہوجائے گی!
اسی بارے میں

یمن میں امریکی سفارتخانے پر حملہ
اسلام مخالف فلم پر مسلم دنیا میں احتجاج
اسلام مخالف فلم: پراسرار فلمساز کا کھوج
متعلقہ عنوانات

مسلمان
تو لوگوں کو کیوں مشتعل نہیں ہونا چاہیے؟
کیونکہ یہ فلم امریکی حکومت نے نہیں ایک ایسے جرائم پیشہ شخص نے بنائی ہے جسے پہلے ایک اسرائیلی نژاد امریکی یہودی بتایا جا رہا تھا لیکن اب یہ بات سامنے آئی ہے کہ وہ ایک مصری قبطی عیسائی ہے اور امریکہ میں اس کا مجرمانہ ریکارڈ ہے۔ این بی سی نیوز کے مطابق اس شخص کا نام نکولا باسیلے نکولا ہے اور اس پر امریکہ کی ایک عدالت میں دھوکہ دہی کے ایک کیس میں جرم ثابت ہوچکا ہے۔ انیس سو نوے کی دہائی میں منشیات سے متعلق جرائم میں وہ دو مرتبہ جیل جاچکا ہے۔
ایک مجرمانہ کوشش

یہ فلم امریکی حکومت نے نہیں ایک ایسے جرائم پیشہ شخص نے بنائی ہے جسے پہلے ایک اسرائیلی نژاد امریکی یہودی بتایا جارہا تھا لیکن اب یہ بات سامنے آئی ہے کہ وہ ایک مصری قبطی عیسائی ہے اور امریکہ میں اس کا مجرمانہ ریکارڈ ہے۔ این بی سی نیوز کے مطابق اس شخص کا نام نکولا باسیلے نکولا ہے اور اس پر امریکہ کی ایک عدالت میں دھوکہ دہی کے ایک کیس میں جرم ثابت ہوچکا ہے۔ انیس سو نوے کی دہائی میں منشیات سے متعلق جرائم میں وہ دو مرتبہ جیل جاچکا ہے۔

جن اداکاروں نے اس فلم میں کام کیا ہے وہ صاف طور پر یہ کہہ چکے ہیں کہ فلم کے مکالمے بعد میں بدلے گئے ہیں اور شوٹنگ کے وقت یہ فلم اسلام کے بارے میں نہیں تھی۔ جن لوگوں نے انٹرنیٹ پر اس فلم کے کچھ حصے دیکھے ہیں ان کا کہنا ہے کہ یہ توہین آمیز مکالمے بعد میں فلم کی اصل آوازوں کی جگہ پر لگائے گئے ہیں اور یہ فلم مسلمانوں کو مشتعل کرنے کی ایک بھونڈی کوشش ہے۔ لہذا مبصرین کا کہنا ہیکہ جو لوگ فلم ساز کے منصوبے کو ناکام بنانا چاہتے ہیں انہیں مشتعل نہیں ہونا چاہیے۔ اسرائیل کی حکومت نے بھی کہا ہے کہ یہ شخص ناقابل بیان حد تک احمق ہے اور اسرائیل کی حکومت کا اس سے یا اس کی فلم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
ماضی میں کیا ہوتا آیا ہے؟
ماضی کی کئی مثالیں موجود ہیں جن میں یا تو دانستہ طور پر اسلام یا پیغمبر اسلام کی توہین کی کوشش کی گئی ہے یا اظہار خیال کی آزادی کے نام پر ایسا مواد شائع کیا گیا ہے جو مسلمانوں کو گراں گزرا ہے۔ ڈنمارک میں پیغمبرِ اسلام کے خاکوں کی اشاعت اس کی ایک مثال ہے۔ وجہ جو بھی رہی ہو مسلم دنیا میں ہمیشہ تقریبا یکساں ردعمل سامنے آتا رہا ہے۔ لوگ سڑکوں پر اترتے ہیں، شعلہ بیان مقرر کبھی امریکہ اور کبھی باقی مغربی دنیا کے خلاف زہر اگلتے ہیں اور اس کے بعد تشدد میں کچھ عام لوگ مارے جاتے ہیں۔ کچھ دن بعد بات پرانی ہوجاتی ہے لوگ اپنے معمولات زندگی میں پھر مصروف ہوجاتے ہیں، توہین آمیز مواد بھی بھلا دیا جاتا ہے اور جو مرتے ہیں، لوگ انہیں بھی بھول جاتے ہیں۔ اگر آپ اس بات سے اتفاق نہیں کرتے تو ماضی میں ایسے مظاہروں کے دوران مارے جانے والے کسی بھی ایک شخص کا نام یاد کرنے کی کوشش کیجیے!
ناراضی ظاہر کرنے کا ایک طریقہ ملائیشیا میں سولہ غیر سرکاری تنظیموں نے اختیار کیا۔ انہوں نے اپنے بیس نمائندے بھیج کر امریکی سفارت خانے کو ایک میمورینڈم دیا، پیغام ان کا بھی یہ ہی تھا کہ انہیں اسلام کی توہین قبول نہیں ہے، بس انداز ذرا مختلف تھا اس لیے کوئی جانی یا مالی نقصان نہیں ہوا۔
نقصان کس کا ہوتا ہے

شاید بنیادی سوال یہ ہے کہ سلمان رشدی کی کتاب سے لیکر ماضی قریب کے متنازع واقعات تک، نقصان کس کا ہوا ہے اور کیا کبھی ہتکِ اسلام کے الزام کا سامنا کرنے والوں یا ان کے خلاف تشدد پر اترنے والوں میں سے کسی نے سامنے آکر یہ بھی کہا ہے کہ  ہاں مجھ سے غلطی ہوئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ کوئی نظریاتی بحث یا لڑائی نہیں ہے جس میں لوگ ایک دوسرے کا نظریہ سمجھنے یا بدلنے کی کوشش کررہے ہوں، بس کچھ لوگ اسلام کو پسند نہیں کرتے اور کچھ امریکہ کو! اور انہیں جہاں موقع ملے گا وہ اپنا ایجنڈا آگے بڑھانے کی کوشش کریں گے۔

لیکن شاید بنیادی سوال یہ ہے کہ سلمان رشدی کی کتاب سے لے کر ماضی قریب کے متنازع واقعات تک، نقصان کس کا ہوا ہے اور کیا کبھی ہتکِ اسلام کے الزام کا سامنا کرنے والوں یا ان کے خلاف تشدد پر اترنے والوں میں سے کسی نے سامنے آکر یہ بھی کہا ہے کہ  ہاں مجھ سے غلطی ہوئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ کوئی نظریاتی بحث یا لڑائی نہیں ہے جس میں لوگ ایک دوسرے کا نظریہ سمجھنے یا بدلنے کی کوشش کررہے ہوں، بس کچھ لوگ اسلام کو پسند نہیں کرتے اور کچھ امریکہ کو! اور انہیں جہاں موقع ملے گا وہ اپنا ایجنڈا آگے بڑھانے کی کوشش کریں گے۔
اور اسلام کو اب تک کتنا نقصان ہوا ہے؟ یہ سوال ان لوگوں سے کیا جانا چاہیے جو ایسے ہر موقع پر خون کی ندیاں بہانا اور مغربی اہداف کو نشانہ بنانا چاہتے ہیں۔ اس بحث میں آپ کا نظریہ جو بھی ہوا، انڈونیشا کے عالم کا مشورہ ایک مرتبہ ضرور پڑھ لیں۔

اپنا تبصرہ لکھیں