الحاج بر صغیری پھر حج کر آئے

الحاج بر صغیری پھر حج کر آئے

الحاج بر صغیری پھر حج کر آئے

 

زبیر حسن شیخ

آج شیفتہ نے ہمیں اطلاع دی کہ الحاج بی آر صغیری حج سے واپس لوٹے ہیں اور  اس خوشی میں انہوں نے گھر پر ایک تقریب رکھی ہے، آپ بھی مدعو ہیں، وقت پر آجائیے گا،  آپ اکثر تاخیر  کرتے ہیں.  ہم وقت سے کافی  پہلے ہی نکل پڑے.  جب ٹرافک میں پھنسے تو احساس ہوا منیر نیازی صاحب نے کیوں فرمایا تھا “ہمیشہ  دیر  کر دیتا ہوں میں……”. ویسے بھی اب جدید شہروں میں حساس اور درد مند حضرات،  خاصکر ادیب و شاعروں کے لئے کچھ نہیں رکھا ہے سوائے بے سکونی اور اکتاہٹ کے. شاید اسی لئے انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ “عادت سی بنا لی ہے تم تو منیر اپنی……جس شہر  میں بھی رہنا اکتائے ہوئے  رہنا، اوراب کچھ یہی حال اکثر اہل فکر حضرات کا ہے. ابھی ٹریفک میں کچھ اکتاہٹ محسوس ہونے لگی تھی کہ گاڑیاں رینگنے لگی اور  کچھ موڑ نظر آنے لگے، اور ایک موڑ پر ہم نے اپنی فکر  کا رخ بھی موڑ دیا. سوچا  آج شیفتہ سے ضرور پوچھیں گے کہ اس لقب “الحاج” کی اصل کیا ہے. ویسے اس تقریب میں جانے میں ہمیں  نہ جانے کیوں مسرت ہو رہی تھی.  شاید یہ سوچ کر  کہ “برتھ ڈے” اور ایسی ہی دیگر نا معقول تقریبات سے اچھا ہے حج کی سعادت حاصل کرنے کی تقریب کرنا.  حاجی گناہوں سے اس طرح پاک ہوجا تا ہے جیسے ماں کے پیٹ سے معصوم پیدا ہوتا ہے. اس تقریب میں موجود حضرات کے درمیان شاید بر صغیری صاحب ہی واحد ہونگے جو فی الوقت گناہوں سے پاک ہونگے. کار کی رفتار تیز کرتے ہوئے ہم نے  ایک طویل القامت،  انتہا ئی نا زیبا بلکہ فحش اشتہار سے نظریں بچاتے ہوئے سوچا، بشرط یہ کہ بر صغیری ایر پورٹ سے گھر آنکھوں  پر پٹیاں باندھ کر راستوں سے گزرے ہوں. ورنہ گھر پہنچتے پہنچتے برصغیر ی کی ساری معصومیت خاک میں مل گئی ہو گی.  اس مہذب دنیا میں اب گوشہ عافیت کہاں، بس اب ایک آسمان بچا ہے جہاں نظریں گاڑے کوئی سڑکوں پر چل سکے تو ٹھیک،  یا پھر کو ئی راہگیر  نا بینا ہو تو  بچ جائے. ویسے اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ فحش اشتہار بازی فی الحقیقت  آسمانوں کو چھونے لگ جائے. کیونکہ اشتہار بازی کی ہوڑ میں “اسکائی رائیٹنگ” پر تحقیق ایک عرصہ سے جاری ہے،  اور  اہل مغرب اسکے امکانات پر غور فکر میں لگے ہوئے ہیں.  بر صغیری صاحب جیسوں کی احتیاط تو آسمان میں ہوائی جہاز میں ہی دا پر لگ جاتی ہو گی. دوران حج انہوں نے جو کچھ بھی،  جیسا بھی تقوی اختیار کیا ہو گا اسے تہذیب یافتہ دنیا میں لوٹ کر قائم رکھناکچھ آسان نہیں. برخلاف سعودی عربیہ،  اکثر ممالک میں راہ چلتے گناہوں کو پھاندنا ہوتا ہے، جست بھر کر طے کرنا ہوتا ہے،  اوروہ بھی آنکھیں بند کر کے. ابھی انہیں سوچوں میں غرق ٹریفک میں آگے بڑھ رہے تھے کہ ایک ایسی بس کے پیچھے جا پہنچے جس نے فحاشی کو اپنی پشت پر سوار کر رکھا تھا، اکثر عمارتوں نے تو اپنے سر پر اٹھا رکھا تھا. ایک عمارت  کچھ یوں نظروں کے سامنے آئی کہ محسوس ہوا کسی کے شبستاں میں داخل ہورہے ہیں، وہاں سے بچ کر نکلے تو ایک اور بس کے قریب سے گزرتے یوں لگا کہ بس نہ ہوئی جائے ضرور ہو ئی. اور ان سب کے علاوہ فٹ پاتھ، کراسنگ اور سگنل پر حادثات کو بلاوا دینے کے مختلف لوازمات تھے وہ الگ.  خدا خدا کر تے اور کفر توڑتے ہم اپنی منزل پر پہنچے.
بر صغیری صاحب  کے گھر میں داخل ہوتے ہی دیکھا عجب سماں تھا.  شیفتہ نظریں جھکائے ایک طرف تشریف فرما تھے اور بقراط ماحول کا معائینہ کر رہے تھے،  اور شاید لطف اندوز بھی ہورہے ہوں. ہم شیفتہ کے بغل میں لگے گا تکیے سے ٹک کر ہیٹھ گئے. کسی حاجی کا چہرہ تصور میں بسائے ہوئے ہماری نظریں برصغیری کو تلاش کرنے لگی. ایک صاحب کے گلے میں لوگوں کو ہار دڈالتے اور انکے گلے پڑتے دیکھ ہم نے بھیڑ میں انکا چہرہ دیکھنے کی کوشش کی، لیکن یہ کیا، بر صغیری صاحب سوٹ بوٹ میں تر و تازہ ایسے لگ رہے تھے جیسے کسی “اسپا” سے ہو کر آئے ہیں.  شیفتہ کی جھکی نظروں کا مفہوم ہماری سمجھ میں آگیا.  ہمیں دیکھتے دیکھ فرمایا…. ایسا محسوس ہورہا ہے کہ یہ حج کر کے نہیں بلکہ کسی فرنگی کی میت سے ہو کر آرہے ہیں، انکے جنازوں میں آپ نے دیکھا ہوگا کہ لوگ کسقدر اہتمام اور سولہ سنگار کے ساتھ جنازے میں شامل ہوتے ہیں.  مجال ہے جو دھول مٹی جسم کو چھو جائے، یا کپڑوں کو  یا چہروں کو ہی. رشتہ دار تو رشتہ دار انکے یہاں تو اپنے عشاق کو بھی کچھ یوں دفنایا جاتا ہے کہ مجال ہے جو قبر کی مٹی کو سر چڑھنے دیں. ویسے عشاق کی قبر کا حال ہمارے یہاں مختلف ہے. بقولے شاعر “گرد  اڑی عاشق کی تربت سے  تو جھنجلا کے کہا……واہ سر چڑھنے لگی پاں کی ٹھکرائی ہو ئی”.  یہ وہ عشاق ہوتے ہیں جو زندگی بھر  دنیا کے عشق میں ڈوبے رہتے ہیں اور عشق حقیقی سے لا پرواہ ہوتے ہیں، ایسے عشاق کی اموات پر انکی محبوبہ یعنی انکی دنیا انکے ساتھ کچھ اسی قسم کا برتا کرتی ہے.
ہم نے پوچھا حضور، یہ لقب الحاج کبھی ہمارے اسلاف کے نام کے ساتھ لگا نہیں دیکھا.  اس دور جدید میں اس لقب کی کیا حاجت ہے. فرمایا، اکثر حضرات فرض حج ادا کرنے کے بعد نفل حج کی سعادت حاصل کر تے رہتے ہیں.  انہیں کے نام کے ساتھ لوگ باگ تعظیما یہ لقب لگا دیتے ہیں.  آپ ذرا بر صغیری کے تیور ملاحظہ کریں، چہرہ بشرہ دیکھیں. انکا پانچواں حج ہے یہ.  مختلف اداروں اور حکومتوں کے توسط سے حج پر جاتے ہیں. انکے چہرے مہرے سے لگتا ہے آخرت کے علاوہ دنیا کی فصل بھی پامال کرآئے ہیں. حج  ایثار و قربانی، فقر و تقوی، دنیا سے بے رغبتی اور  بندے کو رب کے سپرد کرنے  کی علامت ہے. جبکہ  یہ ابھی آئیں گے یہاں تو حج کا سارا قصہ مع موبائل پر اتاری ہو ئی تصویروں کے پیش کریں گے.  تب دیکھ لینا آپ انکا حج کیسے ہوا ہے. جناب،  حج تو  ہمارے پڑوسی بھی کر آئے ہیں. خاندانی رئیس ہیں اور وہ بھی سات پشتوں سے، لیکن مزاج فقیرانہ پایا ہے. حج سے واپسی پر  چہرہ ایسے پر نور مانو آب کوثر میں نہا کر آئے ہوں. مو من دولہا لگ رہے تھے.  بقراط نے حیرت سے پوچھا مو من دولہا؟.  فرمایا  یہ مثال تبلیغی جماعت کے ایک درس میں ہم نے سنی تھی کہ مو من کی مثال دولہے کی ہوتی ہے اور باقی سب باراتی ہوتے ہیں،  جو خوب شادی کے مزے لوٹتے ہیں.  فرمایا، مومن کو ہر لحظہ  فکر وصال یار ہوتی ہے.  اور وہ زندگی بھر یہی گنگناتا رہتا ہے کہ …… وصال اپنا ازل سے طے شدہ ہے یارو…….محض آئے ہیں شب غم گزارنے کے لئے. بقراط نے کہا حضور کچھ اسی طرح کی مثالیں ہمیں دوسری دینی جماعتوں کے درس میں بھی سننے کو ملی ہیں. فرمایا تمام جماعتیں مقصد میں ایک ہوتیں ہیں.  آپ چاہے جماعت اسلامی یا  اہل حدیث کے درس میں بیٹھیں یا خالص صوفیانہ افکار رکھنے والے حضرات کے ساتھ، تمام کے تمام آب کو ثر ہی پلاتے ہیں، بس پیمانے مختلف ہوتے ہیں. بقراط نے کہا اور وہ اختلافات،  اور وہ ایکدوسرے کے لئے دل شکن رویے اور توبہ شکن نصیحتیں.  فرمایا…. جناب اول تو یہ سمجھ لیں کہ  اصل “وسیع المشربی” یہی ہے. ورنہ یہ کیا کہ پیمانوں کے ساتھ شراب بھی مختلف ہو.  شرابیں جو شرابوں میں ملیں گی تو خانہ خراب ہی ہونا ہے. دوم یہ کہ آپ نوواردان شوق کے پیدا کردہ اختلافات کی بات کررہے ہیں جن کے ہاتھوں میں مسلکی مشعل دیکھ آپ انکے ساتھ ہو لیتے ہو.  وہ ان مشعلوں سے آگ لگانے نکلے ہوتے ہیں،  وہ علماوں کے پیروکار  کم اور  عقل کے دشمن زیادہ ہوتے ہیں.  آپ انکی جماعت کے بانیوں، انکے السابقون واولون اور جید علمائے دین کی صحبت اختیارکریں.  کہا، حضور ان میں اب کوئی  حیات کہاں.  فرمایا ابھی چند ثقہ علما حیات ہیں.  اور  جو وصال یار سے سر فراز ہوچکے ہیں وہ اپنی تحریروں اور افکار میں اب بھی زندہ ہیں، بس انہیں تلاش کیجیے.  ابھی یہ گفگو جاری تھی کہ بر صغیری بھی اپنی تمام تر  رنگینیوں کے ساتھ جلوہ گر ہوئے اور شیفتہ کے ساتھ ہم سب کی آمد کا شکریہ ادا کیا.  بقراط کی رگ حماقت پھر پھڑکی….پوچھا، جناب جب اول حج کے بعد آپکے تمام گناہ معاف ہو گئے ہونگے،  پھر  بار دیگر  حج کرنے کا خیال اللہ کی خوشنودی کی خاطر آیا تھا یا کسی اور سبب؟   آپ وہاں سے کیا لانے جاتے ہیں؟.    کہا، ہم کچھ “لانے وانے” کہاں جاتے ہیں، ہم تو بس “ملنے ملانے” جاتے ہیں.  ہمیں خیال گزرا اس ‘ملنے ملانے’ میں کو ئی رمز پوشیدہ ہوگا، کوئی روحانی عقدہ ہوگا.  بس ہم وجد میں آگئے.  ہمارا حال دیکھ شیفتہ نے ایک چپت لگا ئی اور فرمایا.  یہ سیاسی ملن کی بات کر رہے ہیں، انکی تقریب کا حال دیکھ کر بھی آپکو احساس نہیں ہوا. بر صغیری نے اپنی روداد شرو ع کر دی. کہا حضور، آج کل حج میں وہ سہولتیں ہیں کہ کیا بتائیں. منی و عرفات اب تپتے صحرا نہیں رہے اور وہاں قیام کرنا اب اتنا صبر آزما نہیں رہا. کھانے پینے کی فراوانی رہتی ہے. حج میں  تکلیف کا احساس ہی نہیں ہوتا،  اور  حرمین شریفین پر  حکومت دل کھول کر  خرچ کرتی ہے.  فرمایا ہو سکتا ہے، ویسے ہی جیسے پرانے سلطان، نظام اور نواب کیا کرتے تھے، خالق حقیقی کی عطا کردہ دولت کا بیشتر حصہ اپنی اور اپنوں کے عیش و آرام پر خرچ کرتے تھے….. اگر تخمینہ لگائیں تو پتہ چل جائے گا کہ شاہی خاندانوں  کے محل دو محلوں کا عشر عشیر بھی حرمین پر خرچ نہیں کیا جاتا. آپ جیسے سفارتی تعلقات کے تحت حج پر جانے والوں کو منی ہو یا عرفات،  ہر مقام پر خیموں سے بنے محلوں میں ٹہرایاجاتا ہے،  جہاں آسائشوں کے تمام تر لوازمات مہیا کیے جاتے ہیں، تاکہ آپ ایسی رپورٹنگ کریں جیسی اب  آپ کر رہے ہو. چند لوگوں نے نفل حج کو  تفریح اور سیاحت کا سامان سجمھ لیا ہے اور چند اسے شان و شوکت کی علامت سمجھتے ہیں،  اور  جو عبادت کی نیت سے نوافل حج کر الحاج کا لقب اختیار کرنے جاتے ہونگے تو انہیں غریب اور نادار  مسلمانوں کی ضرورتوں کا احساس نہیں ہوتا ہوگا، اور  وہ نوافل کی افضلیت میں فرق کرنے سے قاصر رہتے ہیں. مستحق حضرات جنکا فرض حج بھی ادا نہیں ہوا انکا حق کوٹہ سسٹم کی نذر  ہوجاتاہے اور وہ ہر سال ایک امید کے سہارے باقی ماندہ زندگی کے دن کاٹتے ہیں. دارلافتاوں کو اور حکومتوں کو  چاہیے کہ فرض کے بعد صرف ایک نفل حج پر اکتفا کرنے کی تلقین کریں ورنہ آنے والوں دنوں میں شان و شوکت اور سیاحت  کے متلاشی آسودہ حال حضرات ہی صرف حج کرتے رہیں گے اور خدا نخواستہ حج کی عظیم عبادت کا اصل مقصد فوت ہوتا جائے گا.

اپنا تبصرہ لکھیں