اسی بھول کا یہ عذاب ہے، تو مرا نہیں میں ترا نہیں

غزل
از ڈاکٹر جاوید جمیل
 
مری چاہ میں، مرے عشق میں، تو کبھی کسی سے لڑا نہیں
 
تھا گلاب میں، تھی یہ آرزو، ترے گیسوؤں میں کھلوں کبھی
نہیں کھل سکا تو یہ جان لے، یہ تری ہے میری خطا نہیں
 
تری یاد مجھ سے بہت لڑی، مرے انگ انگ میں زخم ہے
میں تڑپتا رہتا ہوں درد سے، تجھے فکر میری ذرا نہیں
 
مرا دل تو تیرے ہی پاس ہے، تو اسے کھنگال کے دیکھ لے
وہاں تو ہی تو ہے ہر اک طرف وہاں کچھ بھی تیرے سوا نہیں
 
ترے عشق سے مجھے کیا ملا، مری زندگی ہوئی موت سی
مجھے اب تلاش سکوں کی ہے، مجھے اب جنون_حنا نہیں
 
مجھے ایسی ذات سے عشق  ہے ، جو ہومہربان تو موت کب
اپنا تبصرہ لکھیں