اسپتالوں کے باہرغریب و بے سہارا مریضوں کی امداد کیجئے

 Nehal Sagheer
  گذشتہ دنوں میری والدہ کو عارضہ قلب اور آپریش کیلئے ایک مہینہ تک ممبئی کے سرکاری نائر اسپتال میں رکھنا پڑا ۔ وہاں پر اپنی والدہ کے ساتھ ایک مہینہ تک دن رات رہنے پر جو تجربات ہوئے وہ یہاں بیان کررہا ہوں ۔
(۱) سرکاری اسپتالوں میں عام طور سے غریب اور پرائیویٹ اسپتالوں میں علاج کی استطاعت نہیں رکھنے والے لوگ ہی آتے ہیں ۔وہاں سب سے بڑی دقت تو مریض کے ساتھ آئے رشتے داروں کو یہ ہوتی ہے کہ ایک کھڑکی سے دوسری کھڑکی اور ایک منزلہ سے دو منزلہ پر دوڑایا جاتا ہے ۔ وہ جہاں بھی جاتا ہے وہاں اسے لمبی اور تھکا دینے والی قطار میں کھڑا ہونا پڑتا ہے ۔کبھی کبھی تو میڈیکل افسروں یا ڈاکٹروں کی ایک دستخط کیلئے پورا دن نکل جاتا ہے اور اگر کوئی سرکاری فنڈ کے ذریعے پیسے حاصل کرکے علاج کروانا ہے چاہے تو اس میں اس قدر دھکے کھانے پڑتے ہیں کہ آدمی خود بیمار ہوجاتا ہے ۔لہٰذا میری عوامی نمائندوں سے گذارش ہے کہ سرکاری اسپتالوں میں ایک کھڑکی سسٹم نافذ کیا جائے تاکہ مریض کے ساتھ آئے رشتے دار اس کی تیمارداری کریں یا مریض کو چھوڑ کر دن بھر کھڑکی در کھڑی یا افسروں کے ٹیبل کے چکر لگا کر خود بیمار ہو جائیں ۔
(۲)دوسرا تجربہ یہ ہوا کہ روزانہ رات کو کم عمر لڑکے جو لاپروائی سے موٹر سائیکل چلاتے اور ریس لگاتے ہیں حادثے کا شکار ہو کر ہڈیا ں تڑوا کر زخموں سے لہو لہان ہو کر ایمرجنسی وارڈ میں آتے رہتے ہیں اور افسوس کہ ان میں اکثر یت مسلم لڑکوں کی ہی ہوتی ہے ،روزانہ رات کے بارہ بجے سے تین بجے تک یہ منظر دیکھنے میں آتا ہے ۔ تعجب ہے ان کے ماں باپ پر جو اپنے لاڈلوں کی آدھی رات کو بھی خبر نہیں لیتے ۔ خدارا اپنے لڑکوں پر نظر رکھیں ۔ انہیں اتنی کم عمر میں موٹر سائیکل خرید کر نہ دیں اور نہ ہی کسی دوست کے ساتھ راتوں کو بائیک پر بیٹھ کر فراٹے بھرنے دیں ورنہ اس بات کے منتظر رہیں کہ آدھی رات کو آپ کو حادثے کی خبر مل سکتی ہے۔
(۳)تیسرا تجربہ یہ ہوا کہ سرکاری اسپتالوں میں انتہائی غریب لوگ دل ، گردے ، ٹی بی اور کینسر جیسی مہلک بیماریوں کا شکار ہو کر علاج کیلئے آتے ہیں جو تھوڑے بہت پیسے لے کر چلتے ہیں وہ باہر سے دوائیاں خریدنے اور ایمرجنسی میں خون یا دیگر ٹیسٹ کروانے میں خرچ ہو جاتے ہیں ۔ پھر ان کے ساتھ آئے رشتے دار کھانے تک کیلئے محتاج ہو جاتے ہیں یا پھر انہیں اگر باہر سے مزید دوائیاں یا ٹیسٹ کروانے پڑتے ہیں تو وہ نہیں کروا پاتے اور حسرت و یاس کی تصویر بنے ہوئے اسپتال کے احاطے میں ہی پڑے رہتے ہیں ۔ اکثریت مزدور طبقے کی ہوتی ہے جن کے اسپتال میں داخل ہونے سے کمائی کے چار پیسے آنے بھی بند ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے گھر والے نان شبینہ کو محتاج ہو جاتے ہیں ۔ حتیٰ کہ ان کے پاس گھر واپس جانے تک کا کرایہ بھی باقی نہیں بچتا ۔لہٰذا میری تمام مخیر دردمند انسانوں سے گزارش ہے کہ آپ اپنی زکوٰۃ اور صدقات کو اصل مستحق لوگوں تک پہنچانا چاہتے ہیں تو سرکاری اسپتالوں کا رخ کیجئے ۔ مہلک بیماریوں میں مبتلا غریب مریضوں کے علاج کا اور ان کے ساتھ آئے رشتے داروں کے کھانے پینے کا بندوبست کیجئے ،طبی امداد دینے والے معتبر اداروں کو مضبوط کیجئے ۔ جب ایک پیاسے کتے کو پانی پلانے پر اللہ نے ایک فاحشہ عورت کی مغفرت کردی تو غریب بیمار و محتاج انسانوں کی خدمت پر اللہ آپ پر بھی اپنی رحمت و مغفرت کے دروازے کھول دے گا ۔ممبئی کے بھی سرکاری اسپتالوں خاص طور سے جے جے ، نائر ، ٹاٹا اسپتال ، سیوڑی ٹی بی اسپتال ،پریل درگاہ ،بھوئی واڑہ درگاہ پریل کے اندر اور باہر ایسے مریضوں کی کثرت ہے ۔ جہاں باہر سے آئے کچھ مریض اور ان کے رشتے دار باہر پڑے ہوئے مل جائیں گے ۔ان کے علاج و امداد کے ذریعہ اپنی آخرت سنواریں ۔ اپنے غریب بیمار رشتے دار ، پڑوسیوں اور علاقے کے لوگوں کے احوال معلوم کرکے ان کی مدد کریں۔ایک عادت یہ بنا لیں کہ جس طرح ہم شادی میں جا کر لفافہ دیتے ہیں اسی طرح کسی مریض کی عیادت کرنے جائیں تو اسے بھی اسی طرح کے لفافے سے مدد کریں ۔ شادی سے زیادہ مریضوں اور ان کے رشتے داروں کو پیسوں کی ضرورت رہتی ہے ۔
آخری بات یہ کہ اپنی صحت کا خیال رکھیں اسے ہر گز نظر انداز نہ کریں برابر میڈیکل چیک اپ کرواتے رہیں ۔اپنی صحت کی قدر کیجئے اور اللہ سے توبہ و استغفار جاری رکھتے ہوئے اس کا شکر ادا کیجئے کہ اس نے آپ کو بہت سی بیماریوں سے بچا کر رکھا ہے جس میں دوسرے لوگ مبتلا ہیں ۔

محفوظ الرحمن انصاری ۔ مورلینڈ روڈ ۔ ممبئی ۔ موبائل : 9869398281 ۔ ای میل : mehfuzurrehman72@gmail.com
اپنا تبصرہ لکھیں