اسلام کے پانچ ستون ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔۔۔ کبھی عمارت بھی تعمیر ہوگی یا صرف ستون ہی ستون کھڑے ہوتے جائینگے؟

اسلام کے پانچ ستون ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔۔۔
کبھی عمارت بھی تعمیر ہوگی یا صرف ستون ہی ستون کھڑے ہوتے جائینگے؟
کیا مدرسوں کے نصاب میں اس عمارت کی تعمیر کا کوئی نقشہ ہے؟
 
ایسا کیوں ہوتا ہے کہ لوگ نماز بھی پڑھتے ہیں۔ تلاوت، روزہ، زکوٰۃ خیرات، حج اور عمرہ  کا  بھی اہتمام  کرتے ہیں۔ چہرے بھی پرنوراور متشرع لگتے ہیں۔ لیکن آئے دن ہم سنتے رہتے ہیں کہ کوئی اپنی بیوی پر ظلم کررہا ہے تو کوئی پڑوسیوں کو تکلیف پہنچا رہا ہے۔ کوئی قرض لے کر واپس کرنا  نہیں چاہتا تو کوئی اسی کی پیٹھ میں چُھرا گھونپ رہا ہے جس نے اس کی مدد کی۔ کسی کا دن دوسروں کی برائیاں کئے بغیر گزر ہی نہیں سکتا۔
یہ تو تھیں اخلاقی برائیاں۔ جب ہم اخبار دیکھتے ہیں یا کسی کورٹ یا پویس تھانے میں جھانکتے ہیں تو مسلمانوں میں بڑھتے ہوئے  کرائم ریٹ اور غیر اخلاقی حرکتوں کو دیکھ کر ہر شخص کہہ اٹھتا ہے کہ ‘‘ارے؛ کوئی  مسلمان ہو کر ایسا کیسے کرسکتا ہے؟’’۔اور افسوس کی بات تو یہ ہیکہ دوسروں کی حرکتوں  پر حیرت کرنے والےخود ہی اپنی باری میں کئی ایسے کام کرجاتے ہیں جن کی اسلام ہرگز اجازت نہیں دیتا۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟۔ یہی سوال ہر ذہن میں آتا ہے کہ نمازوں روزوں کے اہتمام  کے باوجود مسلمان ایسی غلط حرکتیں کیوں کرتا ہے؟ اس کا مطلب یہ ہوا کہ  ہماری عبادتوں سے آگے بھی کوئی شئے ہے جو چھوٹ رہی ہے جس کی وجہ سے ہم بیج تو بو رہے ہیں لیکن بجائے فصل کے جنگلی درخت اُگ رہے ہیں۔ آیئے دیکھتے ہیں کہ کمی کہاں ہورہی ہے۔
 
دراصل آج کا اسلام ایک حدیث کی بنیاد پر گھوم رہا ہے۔ اگرچہ کہ اس سے کہیں زیادہ اہم احادیث بھی موجود ہیں جو قابلِ غور  ہیں لیکن ہم نے قرآن کو بھی اور باقی تمام احادیث کو بھی اس حدیث کے آگے ثانوی بنادیا ہے۔ اور وہ حدیث ہے  ‘‘بُنِيَ الْإِسْلَامُ عَلَى خَمْسٍ شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ ‏ ‏مُحَمَّدًا ‏ ‏رَسُولُ اللَّهِ وَإِقَامِ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ وَالْحَجِّ وَصَوْمِ رَمَضَانَِ’’ یعنی اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے ۔ کلمہ، نماز، زکوٰۃ، حج اور روزے۔ اسکو دین کے پانچ ستون بھی کہا جاتا ہے۔ بھلا کون سا مسلمان ایسا ہوگا جو اس حدیث سے انکار کرے۔ لیکن نماز ، روزہ، زکوٰۃ اور حج کے علاوہ بھی تو کئی ایسی چیزیں ہیں جن کے بارے میں قرآن اور حدیث میں ان سے کہیں زیادہ زور دیا گیا ہے۔ مثلاً جہاں یقیمون الصلوٰۃ  یعنے نماز قائم کرو پر زور ہے وہیں کونوا قوامین بالقسط یعنی ‘‘انصاف قائم کرنے والو بنو’’ پر اتنا ہی زور دیا گیا ہے۔ جہاں روزہ  دین کا ستون ہے وہیں یہ بھی تو کہا گیا کہ ‘‘مسلمان سب کچھ ہوسکتا ہے جھوٹا نہیں ہوسکتا’’۔ یہ بھی تو حدیث میں ہے کہ آپ  نے تین بار خدا کی قسم کھاتے ہوئے فرمایا کہ ‘‘خدا کی قسم وہ مومن نہیں ہوسکتا جس سے اس کے پڑوسی کو تکلیف پہنچے’’۔ جہاں یہ فرمایا گیا کہ حاجی گناہوں سے ایسے پاک ہوجاتا ہے جیسے پیدا ہونے والا بچہ، وہیں یہ بھی تواحادیث ہیں کہ جس کی کمائی حلال کی نہ ہو اس کی ساری عبادتیں اس کے منہ پر ماردی جاتی ہیں اور اس کی دعائیں زمین سے ایک فُٹ اوپر نہیں اٹھائی جاتیں؛  اور ایسی بے شمار احادیث ہیں جن میں پہلے انسانیت بعد میں عبادت ، بلکہ انسانیت سب سے بڑی عبادت کی تعلیم دی گئی ہے۔ لیکن صدیوں سے ہمارے مدرسوں، جماعتوں اور مسلکوں نے پورا پورا زور پانچ ستونوں پر لگا دیا، اور انسانیت کو قائم کرنے والے اسلام کو دانستہ یا غیر دانستہ نظر انداز کردیا۔
کون نہیں جانتا کہ احکامات کے اعتبار سے دین میں دو قسم کے احکامات ہیں۔ ایک حقوق اللہ ہیں جن سے شخصیت کا تزکیہ ہوتا ہے۔ دوسرے حقوق العباد جن سے سوسائٹی کی تعمیر ہوتی ہے۔ اگر کوئی انفرادی طور پر بہت نمازی اور روزہ دار ہو تو اس سے دوسروں پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ ہاں اس کے جھوٹے یا بے ایمان ہونے سے ہر ہر فرد پر اثر پڑتا ہے۔ اسی لئے سارے علما اس بات پر متفق ہیں کہ حقوق العباد کو حقوق اللہ پر فوقیت حاصل ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے ایک حدیث مروی ہے کہ ‘‘قیامت میں ہر شخص کے نامہ اعمال کی تین فائلیں پیش ہونگی۔ ایک شرک کی، دوسرے حقوق العباد کی اور تیسری حقوق اللہ کہ۔ جب تک حقوق العباد کی فائل صحیح نہ ہو اللہ تعالیٰ حقوق اللہ کی فائل ہرگز نہیں دیکھے گا’’۔ اور یہ بھی مروی ہے کہ ‘‘اللہ تعالیٰ چاہے تو حقوق اللہ کی فائل دیکھے چاہے تو معاف کردے’’ لیکن حقوق العباد میں ذرا بھی کمی کو ہرگز معاف نہیں کرے گا’’۔ اسی لئے کہا گیا کہ ‘‘الدین معاملہ’’ یعنی دین معاملہ داری کا نام ہے۔ معاملہ داری اصل عبادت ہے جس سے اسلام اور مسلمان کی پہچان ہے۔ یہی حقوق العباد کی جڑ ہے۔ مسلمان کی اصل پہچان اسی سے ہے نہ کہ عبادات سے۔ کسی کے نیک ہونے کے ثبوت میں ہم کہتے ہیں ‘‘فلاں صاحب بہت نیک آدمی ہیں پنج وقتہ نمازی ہیں’’۔ ہم نے اچھے مسلمان کی پہچان ہی نماز بنادی جبکہ یہ معاملہ تو بندے اور اللہ کے درمیان تھا۔  اسکی اصل پہچان تو یہ ہوتی کہ وہ کبھی صاحب کبھی جھوٹ نہیں بولتے، کبھی معاملہ داری میں اونچ نیچ نہیں کرتے۔ آج کسی بھی جماعت یا گروہ کا نام لیتے ہی اس جماعت یا گروہ کے مخصوص رنگ، لباس ، چہرے اور کاموں کا امیج ہمارے ذہن میں فوری آتا ہے۔ لیکن جب بات سچ، انصاف، عہد کی پابندی، جھوٹ اور غیبت سے نفرت کی آتی ہے تو کیا کسی جماعت یا گروہ کا تصوّر ہمارے ذہنوں میں آتا ہے؟ نہیں۔ ہاں چند انفرادی چہرے ضرور ہمارے ذہنوں میں آتے ہیں لیکن کوئی جماعت یا گروہ ایسا نہیں جن کے منشور میں کردار سازی یاحقوق العباد پہلے درجے پر ہو۔ اگر ہے تو وہ رسمی تقریروں تک ضرور ہے لیکن اس کو قائم کرنے کا منصوبہ ان کے لائحہ عمل کی ترجیحات میں نہیں ہے۔ یعنی یہ بدو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے
ہم سے صدیوں میں جو غلطی ہوئی ہے وہ یہ کہ ہم نے عبادات کو اصل اسلام بنا دیا اور جو باتیں ایمان سے تعلق رکھتی تھیں ان کو دوسرے یا تیسرے درجے کے کاموں کی فہرست میں دھکیل دیا۔ ہمار ا حال بھی انہی اعرابیوں کی طرح ہوگیا  جن کے بارے میں قرآن کا ارشاد ہے ۔ قالت الأعراب آمنا قل لم تؤمنوا ولكن قولوا أسلمنا ولما يدخل الإيمان في قلوبكم یعنی‘‘ یہ بدو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے۔ آپ ان سے کہیئے کہ تم ہرگز ایمان نہیں لائے ، ہاں یہ کہو کہ ہم اسلام لائے۔ ایمان تو ابھی تمہارے دلوں میں داخل بھی نہیں ہوا۔ ’’۔ یہاں اسلام اور ایمان کا فرق واضح ہوجاتا ہے۔ اعرابی جن میں منافق بھی شامل تھے۔ کہتے تھے کہ کیا ہم نماز نہیں پڑھتے؟ کیا ہم روزے اور زکوٰۃ کی پابندی نہیں کرتے۔ یہ سب کام ایک مسلمان معاشرے میں رہنے کیلئے ان کو حقدار تو بناسکتے ہیں لیکن جب معاملہ ایمان کا آتا تھا تو فرار ہوجاتے تھے۔ کیاوجہ ہے کہ حج زندگی میں ایک بار فرض ہوتا ہے اور اس پر لکھی جانے والی کتابوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ زکوٰۃ اور روزے سال میں ایک بار فرض ہوتے ہیں ان پر لکھی جانے والی کتابیں بھی لاکھوں میں ہیں۔ نماز دن میں پانچ مرتبہ ہے ساری نمازیں مِلا کر ایک گھنٹے سوا گھنٹے میں ادا ہوجاتی ہیں۔ لیکن نماز اور اس کے اختلافی مسائل پر لکھی جانے والی کتابوں ، مضامین، وعظوں اور تقریروں کی تعداد کروڑوں میں ہے لیکن جو چیز وائرس کی طرح ہر لمحہ ، ہر منٹ اور ہر سکنڈ ہمارے ساتھ ہے وہ ہے جھوٹ، غیبت، ناانصافی، بد عہدی، حرام کمائی وغیرہ۔ اتنے اہم موضوعات پر آپ نے کتنی کتابیں دیکھی ہیں؟ کتنے گرجدار وعظ اور تقاریر سنے ہیں؟ زیرو۔ یا زیادہ سے زیادہ پانچ دس۔ کیوں؟ ۔۔۔۔ کیونکہ ان کی حیثیت ایک مستحب کی بنادی گئی ہے کہ کرلیں تو ثواب ہے ورنہ کچھ نہیں۔
حقوق العباد کو نظرانداز کرکے  پورا زور نمازوں  پر لگانے سے ہوتا کیا ہے اسکا اندازہ سعودی عرب کا جائزہ لینے سے ہوتا ہے۔   ہم سعودیوں سے زیادہ نماز کی پابندی نہیں کرسکتے۔ وہ نہ صرف خود انتہائی پابندی سے نماز  پڑھتے ہیں بلکہ ڈنڈے کے زور پر پورا مارکٹ بند کرواکر نماز پڑھواتے ہیں۔ اگر کسی نے دوکان بند نہ کی تو رات بھر لاک اپ میں بند بھی کردیتے ہیں۔ لیکن کسی بھی سعودی عرب سے آنے والے سے پوچھئے کہ اِن کے اخلاق و کردار کا کیا حال ہے۔ آپ کو اندازہ لگ جائیگا کہ دنیا میں سب سے زیادہ نماز  اور دیگر ستونوں کی حفاظت کرنے والی قوم کی اکثریت کے اخلاق و کردار ، عدل و انصاف اور حلال کمائی کا کیا حال ہے۔ ایمانداری کی بات تو یہ ہیکہ یہ نہ صرف سارے عربوں کا بلکہ ہمارا اور آپ کا بھی یہی حال ہے۔ ہم نےحقوق العباد کے بجائے صرف ستونوں کو اپنی پہچان بنالی ہے۔ لاکھوں بلکہ کروڑوں ستون کھڑے کرتے چلے جارہے ہیں۔ ہر طرف بس ستون ہی ستون۔ تا حدِّ نظر صرف ستون۔ ایوانوں میں ستون، سڑکوں پر ستون، محلوں میں ستون، جھگّیوں میں ستون، شیعوں کے ستون، سنّیوں کے ستون۔ ماشااللہ ہر طرف ستون ہی ستون ۔ کیا آپ نہیں جانتے کہ جس پلاٹ پر صرف ستون کھڑے کرکے چھوڑ دیئے جائیں اور عمارت نہ تعمیر کی جائے تو اس پلاٹ کا کیا انجام ہوتا ہے۔ اس پر چور اچکّے ّ قبضہ کرلیتے ہیں۔ اس پر ہم نے عمارت  کی تعمیر کا سنجیدگی سے کبھی نقشہ ہی نہیں بنایا۔ اگر نقشہ بناتے تو سمجھ میں آتا کہ اتحاد اس عمارت کی چھت تھی تو حقوق العباد اس کا فرش،  حلال کمائی اسکی دیواریں تو عدل و انصاف اسکے دروازے ۔ سچائی اس کی روشنی تو نماز ، روزہ ، زکوٰۃ اور حج اس کے ستون ہوتے۔ آج کوئی جماعت یا گروہ یا سلسلہ ایسا نہیں ہے جو ان خالی ستونوں پر عمارت تعمیر کرنے کا شعور رکھتا ہو۔اسی وجہ سے عفوو درگزر، عجزو انکساری ہمارے دلوں سے اٹھا لیئے گئے جو کہ کسی مسلمان کی   بلکہ اسلام کی اصل پہچان تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہر ہر شخص جو چاہے نماز کبھی کبھار ہی پڑھتا ہو اپنی جیبوں میں تکفیر کے اسٹامپ لے کر گھومنے لگا اور یہودیوں، نصرانیوں اور مشرکوں کو تو چھوڑ یئے خود  مسلمانوں  ہی کو اسلام سے خارج کرنے لگا۔ کوئی ذاکر نائک پر تو کوئی دیوبندی و اہلحدیث پر تو کوئی بریلوی حضرات پرمشرک ، کافر اور بدعتی کے فتوے ٹھوک رہا ہے۔ جسطرح کسی سڑک چھاپ کیلئے گالی دینا آسان ہے اسی طرح ہمارےایسے   دینی بھائیوں کیلئے اختلاف الرائے رکھنے والے کو ایجنٹ، گمراہ، جدید تعلیم کا پروردہ، باغی اور دین سے نابلد کہہ دینا آسان ہے۔   شیعہ اور سنّی تو  یوں بھی ایک دوسرے کو کافر اور دشمنِ اسلام قرار دے چکے ہیں۔ لاکھوں ستونوں کے  کھڑے ہونے کے بعد  بھی اگر خانہ جنگی کا یہ حال ہے تو کیا کوئی  تصوّر کرسکتا ہے کہ ان ستونوں پر کیا کبھی کوئی عمارت کھڑی بھی ہوسکے گی؟
حقوق العباد کا ایک نمونہ ملاحظہ ہو۔ حضرت عمرؓ سنگِ اسود کو مخاطب ہوکر فرماتے ہیں ‘‘تو مجھے صرف اس لئے عزیز ہے کہ رسول اللہ ﷺنے تجھے بوسہ دیا تھا ورنہ تو مجھے کسی مسلمان کے دل سے زیادہ عزیز نہیں’’۔ اور آج ہماری شدّت پسندی بلکہ دہشت گردی کا یہ عالم ہے کہ مسجدوں پر لکھ کر لگا دیتے ہیں کہ یہاں فلاں فلاں عقیدے کے لوگوں کا داخلہ ممنوع ہے۔ نعوذباللہ۔ ایسی مساجد کے پورے ذمہ دار ان ، امت میں تفریق و انتشار پھیلانے کے مرتکب ہیں اور کھلے عام کوڑے مارے جانے کے قابل ہیں۔ اس شدّت پسندی کا نتیجہ یہ ہے کہ آج پ95%لوگ صرف انہی  مذہبی جنگوں کی وجہ سے مسجدوں سے اور دین سے دور جاچکے ہیں۔ گھروں میں نماز پڑھتے ہونگے لیکن مسجدوں میں نہیں آتے۔ یہ جتنے مذہبی اختلافات بلکہ فسادات ہیں محلے یا شہر کا سروے کریں تو ثابت ہوجائیگا کہ مشکل سے 5% لوگ ہیں جو یہ اختلافات میں پڑے ہیں۔ انہی  کو مذہب سے دلچسپی ہے۔ جلسے جلوس  اور اجتماعات کرنے والے، مناظرے اور مباحثے کرنے والےچندے جمع کرکے مسجدوں اور درگاہوں یا چِلّوں کو دلہن بناے والےیہی  لوگ  ہوتے ہیں۔ باقی 95% لوگ جن میں زیادہ تر پڑھے لکھے لوگ ہوتے ہیں وہ ان چیزوں کی وجہ سے دینی کاموں سے  دور بھاگتے ہیں۔ ان کے ذہن خالی ہیں۔ بخدا وہ دین سے بیزار نہیں بلکہ دین کے نام پر ان جھگڑوں سے بیزار ہیں۔ اس کا پورا پورا فائدہ اٹھا کر کئی چالاک لوگوں نے وسیلوں، نسبتوں، شفاعتوں اور مغفرت کے چور دروازے کھول لئے ہیں جہاں جاکر ان سیدھے سادے لوگوں کو تسلیّ اور بخشے جانے کا اطمینان حاصل ہوجاتا ہے۔
غور کیجئے یہ سب کچھ کیوں ہورہا ہے؟ یہ اسلئے کہ اسلام کے نام پر ہمیں جس شدّت سے مسلکوں کے درمیان فقہی  ، علمی اور تصوّف کے مسائل سمجھائے گئے کبھی اس شدّت اور گھن گرج سے حقوق العباد نہیں سمجھائے گئے جن کی اہمیت کیلئے ایک حدیث کافی ہے کہ رسول اللہ کعبہ کا طواف فرماتے ہوئے کعبہ کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں کہ اللہ کے نزدیک کعبہ کی حرمت کسی مومن کی جان و مال کی حرمت سے زیادہ عظیم نہیں۔ (ابن ماجہ جلد سوم حدیث ۱۷۱) یا حجۃ الوداع کا یہ خطبہ کہ ‘‘آج کے بعد کسی بھی مسلمان کی جان ، مال اور عزت تم پر ایسے ہے حرام ہے جیسے آج کا دن، یہ مہینہ اور یہ مقام’’۔ یا یہ حدیث کہ کسی مسلمان کے کفر کیلئے یہی کافی ہے کہ وہ کسی دوسرے مسلمان کی تحقیر کرے۔ اگر کوئی قرآن یا حدیث سے یہ ثبوت لالے کہ کسی مسلمان کو باوجود اسکے بُرے اعمال کے، کافر، مشرک یا منافق کہنے کا حق دیا گیا ہو۔ یہ کس اسلام کو ماننے والے لوگ ہیں جو کسی کو بھی کافر، مشرک یا منافق کہہ دینے کی جرات کرتے ہیں۔ کس نے انہیں یہ حق دیا ہے؟ ان کے ماننے والے خود ہی اُن کی اسلام سے وقفیت کا اندازہ کرلیں تاکہ یہ ہم پر بھی کل یہی الزام نہ لگا سکیں۔اور اگر کہیں اس اجازت کا ثبوت مل جائے تو خدارا ہمیں بھی بتایئے۔ ہم بھی ایسے کئی لوگوں سے واقف ہیں جو مسلمان ہوتے ہوئے کئی کفریہ، شرکیہ اور منافقانہ حرکتوں میں مبتلا ہیں لیکن ہم انہیں راست کافر، مشرک یا منافق کہنے سے اسلئے معذور ہیں کہ کسی مسلمان کو بھی دوسروں کی تکفیر یا تحقیر کرنے کی ہرگز اجازت نہیں۔
اب سوال یہ ہیکہ ہمیں کرنا کیا ہے؟چونکہ ہمارے معاشرے کی پوری دینی ذہنیت کی تشکیل انہی استادوں، بزرگوں، پیروں،مرشدوں، صباحی مدرسوں، جمعہ کے خطبوں اور مختلف جلسوں سے ہوئی ہے جن کا سر چشمۂ ِ علم مدارس ہیں۔  علما اور مفتی جو دین کی سمجھ لے کر باہر نکلتے ہیں وہ عوام کے ذہنوں میں بیٹھتی ہے۔ اسطرح یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ہمارے دینی علم و عمل کا چشمہ و منبع مدرسہ ہی کی تعلیمات ہیں۔ اسلئے ہمیں مدرسوں کے نصاب پر غور کرنا ہوگا جہاں دین پڑھایا جارہا ہے۔
 جو درسِ نظامی کئی سو سال سے مدرسوں کے نصاب میں رائج ہے اسے ترتیب دیئے گئے کئی صدیاں گزر چکی ہیں۔  جس وقت یہ ترتیب دیا گیا تھا اس وقت مسلمانوں کی حکومت تھی۔ مسلم کلچر غالب تھا۔ مسلمان قاضی عدالتوں میں فیصلے کرتے تھے۔ اس وقت کی ضروریات کے لحاظ سے جس قسم کے علما اور مفتی درکار تھے اس کے پیشِ نظر نصاب ترتیب دیاگیا تھا۔ اب وقت بدل چکا ہے۔ اب کئی سو سال قبل کے کوفہ، بصرہ و شام کے حالات آج کے ہندوستان پاکستان کے حالات سے یکسر مختلف ہیں۔ وقت بدل چکا ہے۔ سوسائٹیز بدل چکی ہیں۔ ضروریات بدل چکی ہیں۔
                   کیا مرے عہد کا تقاضہ ہے       کیا صدا آرہی ہے منبر سے
سب سے پہلے تو یہ جو طوطوں کی طرح قرآن رٹا کر ہم  ہر سال سینکڑوں حفّاظ پیدا کررہے ہیں ، حفظ کا یہ طریقہ عربوں کا طریقہ تھا۔ ان کی مادری زبان عربی تھی اسلئے صرف قرآن رٹا دینا ان کیلئے کافی تھا۔ وہ بآسانی سمجھ لیتے تھے۔ ہم نے عربوں کی اندھی تقلید میں وہ حفّاظ پیدا کرنے شروع کردیئے جنکی زبان ہی عربی نہیں تھی۔ اسلئے وہ قرآن سمجھنے سے معذور تھے۔ یقیناً حافظِ قرآن کے لئے آخرت میں عظیم درجات ہیں۔ قرآن یاد کرنے کا ثواب اپنی جگہ مسلّمہ ہے لیکن حافظ اگر قرآن کے معنے و مطالب نہ بتا سکے تو اس دنیا کو کوئی فائدہ نہیں جس دنیا میں قرآن سے ناآشنائی کی وجہ سے مسلمان ذلّت و رسوائی سے  دوچار ہیں۔ جسطرح قرآن کی عربی رٹاتے ہیں اسی طرح اسکا ترجمہ بھی رٹایا جائے جیسے
الم ذلك الكتاب لا ريب فيه هدى للمتقين                   الم یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں اور یہ ہدایت ہے ڈرنے والوں کیلئے
اسطرح عربی کے ساتھ ساتھ اردو یا جوبھی بچے کی مادری زبان ہو ے    اسمیں ترجمہ بھی رٹایا جائے۔ الحمدلللہ اب کوئی زبان ایسی باقی نہیں رہی جس میں قرآن کا ترجمہ موجود نہ ہو۔  حفظ کی مدت میں اگر دو ایک سال کا اضافہ ہوجائے تو ہونے دیجئے۔ ہمیں حفاظ پیدا کرنے کی ایسی کوئی جلدی بھی نہیں۔ اپنی زبان میں قرآن سمجھنے کی صلاحیت لے کر پانچ سال میں آنے والا حافظ اس حافظ سے کہیں زیادہ بہتر ہے جو بغیر سمجھے قرآن دو تین سال میں رٹ کر آجاتا ہے۔
اسی طرح ہمارے مدرسوں میں فقہ کے بوجھ کو کم کرکے حقوق العباد کے مضامین زیادہ پڑھائے جائیں۔ کردار سازی، اخلاقیات، معاشرت وغیرہ یہ تمام حقوق العباد ہی کے حصّے ہیں۔  طلاق و خلع کے پیچیدہ اور مفروضہ مسائل کو کم کرکے کونسلنگ کا مضمون پڑھایا جائے۔ رسول اللہﷺ کی ایک حیثیت کونسلر کی بھی تھی۔ ان کے پاس  کئی باپ، بیٹے، بیویاں اور شوہر شکایتیں لے کر آتے اور آپﷺ ان کی کونسلنگ فرماتے۔ایک موقع پر آپﷺ نے صحابہؓ سے فرمایا کیا میں تمہیں ایک ایسی چیزنہ بتاوں جو درجے میں نماز ، روزہ ، زکوٰۃ، حج اور دوسری کئی نیکیوں سے افضل ہے۔ صحابہؓ نے فرمایا ضرور یا رسول اللہﷺ۔  آپ نے فرمایا دلوں کے درمیان اختلافات کو دور کرنا کیونکہ اس سے دین منڈھ جاتا ہے۔ امریکہ اور یورپ کے ہر کالج میں یہ مضمون پڑھایا جاتا ہے اس پر ڈاکٹریٹ ہوتی ہے۔ لیکن ہمارے ہی مدرسے سے یہ مضمون خارج ہے۔ اسی کی وجہ سے آج گھر گھر کے جھگڑے پولیس تھانوں اور عدالتوں میں جارہے ہیں۔ جو فیصلے ہمارے علما کو کرنے چاہئے تھے وہ بے دین بلکہ دشمنِ دین افراد کررہے ہیں۔ غنڈے، پہلوان اور وکیل مسلمانوں کی کمائی لوٹ رہے ہیں۔ ایک ہی نشست میں تین طلاق یا ایک طلاق کی بحثوں کی وجہ سےیا  جہیز کی وجہ سے ہزاروں خاندان برباد ہورہے ہیں۔ ہزاروں بچے کہیں ماں  سے دور کہیں باپ سے دور ہورہے ہیں۔ لڑکیاں بھاگ رہی ہیں، غیر مسلمین سے شادیا ں کررہی ہیں۔ کیا کونسلنگ جیسا اہم ترین سبجکٹ علما کے نصاب میں شامل نہیں ہونا چاہئے؟ کیا اتنی اہم ترین سنّت ہمارے مدرسوں میں نہیں پڑھائی جانی چاہئے؟
زکوٰۃ کا نظام قائم ہوجائے تو آج دنیا کا سب سے بدترین مسئلہ یعنی غربت حل ہوسکتا ہے۔ یہ اکنامکس اور کامرس سے تعلق رکھنے والا سبجکٹ ہے۔ لیکن ہم نے یہ سبجکٹ نصاب سے دور رکھا۔ بنک کو حرام کرکے بہت بڑا جہاد کرلیا۔ حلف الفضول اور میثاقِ مدینہ کے ذریعے رسول اللہ ﷺ نے دنیا کو سب سے پہلا لائف انشورنس کا چارٹر دیا تھا لیکن ہم نے اسی کو حرام قرار دے دیا۔ ہزاروں لوگ جو حادثات یا بیماریوں میں اچانک موت کے حوالے ہوجاتے ہیں ان کی بیواؤں اور بچوں کیلئے زکوٰۃ، خیرات اور بھیک کو جائز کیا لیکن ان کے لیے خودداری کے ساتھ جینے کیلئے ایک متبادل لائف انشورنس سسٹم نہیں بنا سکے۔ بقول احمدبن  عبدالعزیز بن باز سابق مفتی اعظم سعودی عرب کہ ‘‘ ہم نے پچھے دو سو سال میں اکنامکس یا بنکنگ میں کوئی نئی  تحقیق نہیں کی ۔ صرف کاپی پیسٹ کا کام کرتے رہے’’۔ ہم ان مضامین میں پورے دو سو سال پیچھے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج ہم انہی بنکوں کی قطاروں میں بھکاریوں کی طرح کھڑے ہیں۔ اور ہمارے معاشی مستقبل کا فیصلہ کرنے والے وہی لوگ ہیں جن کی کارکردگی کو ہم نے خود حرام قرار دیا ہے۔کیا یہ مضامین سمجھنے والے علما کی ضرورت نہیں۔ کیا یہ مضمون مدرسوں میں لازمی پڑھایا جانا ضروری نہیں؟
ایک حدیث ہے فرمایا رسول اللہ ﷺ نے ‘‘الطہور شطر الایمان’’ یعنی پاکی، صفائی ستھرائی آدھا ایمان ہے۔ یہ مضمون آج ماحولیاتی سائنس کی بنیاد ہے۔ آج مسلمان گھر، حمام اور محلّے دیکھئے، مدرسوں یا مسجدوں کے حمام دیکھئے،سب سے گندے ہوتے ہیں۔ گندی نالیوں اور بدبودار کچہرے کے ڈھیروں سے اُنگل کر مسجد جانے والوں کو ہم نے کبھی یہ نہیں بتایا کہ پاکی  ایمان کا ویسا ہی اہم حصہ ہے جیسے نماز۔ انتہا تو یہ ہے کہ مقدس ترین مقامات مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ تک اگر کار سے سفر کریں تو دیکھیں کہ راستے میں کیا کوئی ایسا حمام ہے جس کی گندگی اور بدبو کی وجہ سے آپ کراہیت کے بغیر جاسکتےہوں؟ اس کے مقابلے میں امریکہ یا یورپ کے کسی کاونٹی کا سفر کیجئے آپ دیکھیں گے ان لوگوں کے حما م آئینے کی طرح صاف ہوتے ہیں۔ کیونکہ انہوں نے‘‘الطہور شطر الایمان’’  کا مطلب سمجھا  اور Environmental Sciences  کا پورا مضمون ڈیویلپ کردیا اور ہم اس حدیث کا مطلب مسواک، ستر سے نیچے کی صفائی اور ڈھیلہ سکھانا سمجھاتے رہے۔ کیا اس مضمون کو تھیوری اور پراکٹیکل کے ساتھ مدرسے میں نہیں پڑھایا جانا چاہئے۔ کیا پاکی اور صفائی ایمان کا حصہ نہیں ہے؟ کیا دنیا کو یہ پیغام نہیں دیا جاسکتا کہ مسلمان صفائی پسند قوم کا نام ہے؟
دنیا کو کوئی بھی پروڈکٹ ہو کہ نظریہ یا تحریک، بغیر مارکٹنگ کے ہرگز نہیں چل سکتے۔ اسی طرح اگر دینِ اسلام حق ہے تو اس کی بھی مارکٹنگ انتہائی ذہانت کے ساتھ منظّم طریقے سے ہونی چاہئے۔ اسی کو ‘‘دعوت’’ کہتے ہیں۔ یہ کام مسلمانوں میں ، عورتوں میں ، طلبا میں، مزدوروں میں، غیر مسلمین میں کیسے یہ سکھانا  ایک مکمل سبجکٹ ہے۔ اس دین کو قائم کرنے کیلئے دعوت ریڑھ کی ہڈی کی طرح اہم ہے۔ لیکن بدقسمتی سے اتنا اہم مضمون ہمارے مدرسے کے نصاب میں شامل نہیں۔  جس کی وجہ سے جب دوسرے عصری تعلیم سے لیس داعی میدان میں آتے ہیں تو پھر یہی علما ان سے تعصب برتتے ہیں ۔ ان پر قرآن و حدیث کے علوم سے ناواقفیت کا الزام لگا کر غیر ارادی طور پر ایک پروپیگنڈا کرنے کے مرتکب بھی ہوتے ہیں۔جس سے ایک برہمنیت سامنے آتی ہے کہ دین کے موضوع پر خبردار سوائے ہمارے کوئی نہ بولے۔  کیوں نہ دعوت کا مضمون خود مدرسے میں شروع کیا جائے اور تھیوری کے ساتھ پراکٹیکل کروایا جائے ورنہ ان مدرسوں سے نکلنے والے علما اور مفتی ایک منجمد تالاب کی طرح ہوکر رہ جائیں گے۔ عام طور پر جمعہ کے دن اردو اخبارات میں مذہبی سوالات کو پڑھیئے اور سوال کرنے والوں کے ذہنی معیار کا اندازہ لگایئے۔بعض سوالات تو اس قدر بچکانہ ہوتے ہیں کہ اندازہ ہوتا ہے کہ دین کے معاملے میں لوگ  کامن سنس سے کام ہی لینا نہیں چاہتے۔ سوال کرنے والوں سے زیادہ حیرت جواب دینے والوں پر ہوتی ہے۔  اسی معیار کے لوگ پھر علما اور مفتیوں کے قریب آئیں گے تعلیم یافتہ طبقہ انہیں دور ہی سے سلام کرے گا۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہ معالی تعاون کردے گا۔
آج علما کو یہ شکایت ہے کہ مدرسوں میں سوائے غریب ، یتیم اور مسکین طلبا کے کوئی داخل نہیں ہوتے۔ لوگ خاطر خواہ چندہ نہیں دیتے۔ علما کی عزت نہیں کرتے سوائے چند اہم موقعوں پر تقریر کرواکر لفافے دینے کے۔ ایسا اس لئے ہےکہ ایک عالم کو اپنے وقت کا قائد بھی ہونا چاہئے۔ لیکن جو کھیپ مدرسوں سے نکل رہی ہے کیا وہ قیادت کرسکتی ہے؟ یہ حضرات چند مسلمان محلوں میں جلسوں کو مخاطب کرکے خوش ہیں کہ لوگ اب بھی ان کے قریب ہیں۔ یہ ان کی غلط فہمی ہے۔ جیسا کہ عرض کیا گیا اب دین اور علما سے دلچسپی رکھنے والوں کا پورے شہر میں فیصد  پانچ سے زیادہ نہیں۔ گاوں اور ضلعوں میں ذرا زیادہ ہے۔ باقی 95% لوگ بہت تیزی سے دور ہورہے ہیں۔ اب اگر امت کو دین پر دوبارہ واپس لانا ہو تو پہلے مدرسوں سے وہ پروڈکٹ نکالا جائے جس کی عہدِ حاضر میں ضرورت بھی ہو۔ جو تعلیم یافتہ طبقہ کی ہرمیدان میں علمی قیادت بھی کرسکے۔ اگر پروڈکٹ اچھا ہو تو لوگ ڈبل قیمت دے کر خریدتے ہیں ورنہ وہ پروڈکٹ ردّی کے دام بِکتا ہے۔
اس کے لئے ضروری ہے کہ جو نصاب صدیوں پہلے بنا تھا عہدِ حاضر کی ضروریات کی روشنی میں ازسرِ نو ترتیب دیاجائے۔ الصناعہ و البدایہ، ہدایہ، قدوری، متوّل، کتاب البیوع جیسی فقہ کی کتابوں کا مواد 60%  سے زیادہ آوٹ ڈیٹیڈ ہوچکا ہے۔ اسے کم کیا جائے۔ اسکے علاوہ ایک اور مضمون جو ہر مدرسے میں پڑھایا جاتا ہے وہ ہے الفوزالکبیر فی اصول التفسیر۔ ہم جانتے ہیں اس پر کچھ تبصرہ کرنا شہد کے چھتّے میں ہاتھ ڈالنا ہے۔ بہت کم علما حقیقت پسند ہوتے ہیں۔ زیادہ تر لوگ اپنے استادوں کے پڑھائے ہوئے  اسباق  کو وحی مان کر اس کے خلاف کچھ بھی سننا نہیں چاہتے اور اختلاف کرنے والے پر فتوے داغ دیتے ہیں یا پھر ایسے کامنٹس کردیتے ہیں جس سے کہنے والا عوام میں مشکوک ہوجائے۔ لیکن چونکہ آج یہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ اگر اس پر غور نہ کیا گیا تو امت مسلمہ کبھی تعصباتِ مذہبی سے باہر نہیں نکل سکتی اسلئے ہم کہنے پر مجبور ہیں کہ علامہ سیوطیؒ نے مفسّرِ قرآن ہونے کیلئے جو شرائط تصنیف کی ہیں وہ اگرچہ کہ انتہائی نیک نیتی پر مبنی ہیں لیکن بہرحال وہ ان کی ذاتی رائے بلکہ اجتہاد ہے۔ کوئی وحی نہیں ہے۔ ان شرائط کو پڑھنے کے بعد ایک عالم یا مفتی  عہدِ حاضر کی تمام عصری تفاسیر پر جب نگاہ ڈالے گا تو ان شرائط کی کسوٹی پر سوائے چند ایک قدیم تفاسیر کے باقی ساری تفاسیر یا تو مشکوک یا پھر  رد  ہوجائینگی۔ اِلّا یہ کہ کوئی ایسی تفسیر ہو جو اسکے مکتبِ فکر کے مفسّر کی ہو۔ جسطرح بائیبل کے سینکڑوں مختلف جلدیں وجود میں آگئیں اور ہر ایک کا ماننے والا فرقہ اپنی بائبل کے حق ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اسی طرح قرآن کے ساتھ بھی ہوگا۔ سب کا قرآن ایک ہوتے ہوئے بھی ہر ایک فرقہ یا جماعت ایک دوسرے کے قرآن کی تعبیر کو ماننے سے انکار کردے گا۔ قرآن کی مختلف تعبیرات ہونے میں کوئی برائی نہیں کیونکہ ہر مفسّر اپنے دور کے پیشِ نظر قرآن کا جائزہ لے گا لیکن امام سیوطیؒ کے اصول پڑھ کر نکلنے والے علما جب کئی تفاسیر اور ان کے مفسرین کو  رد  یا  مشکوک کرینگے تو ان تفسیروں کے چاہنے والے ان علما کو  رد کرینگے۔ اور ہندوستان پاکستان میں تو یہی ہوتا آیا ہے۔ دونوں فریق جب اپنا مقدمہ عوام کے سامنے پیش کرینگے تو کنفیوزڈ عوام دونوں کو  رد  کردیگی اور یہی ہوا ہے۔ اسی کے نتیجے میں بے شمار فرقے ، جماعتیں اور مسلک وجود میں آئے ہیں۔ اور اسی علمی چپقلش کے نتیجے میں یہ دماغوں میں بٹھایا جاتا ہے کہ قرآن سب کے سمجھنے کی چیز نہیں بس تلاوت کرتے رہو اور مرحومین کو بخشواتے رہو۔ عہدِ حاضر میں قرآن سے رہنمائی حاصل کرنے کا کام بس علما پر چھوڑ دو۔ کون سے علما؟ وہی علما جن کو دوسرے مسلک کے علما عالم ہی نہیں مانتے۔ اگر مانتے  بھی ہیں تو دوسرے تیسرے درجے کا عالم مانتے ہیں۔ علما کی بے حرمتی کسی اور نے نہیں کی بلکہ خود علما نے کی ہے۔ ایک مسلک کا عالم جب دوسرے مسلک کے عالم کی تحقیر کرے گا تو عوام کی نظر میں دونوں مشکوگ ہوجائیں گے اور یہی ہوا ہے۔ کیونکہ جن مسائل کو مدرسے میں زیادہ زور پڑھایا جارہا ہے ان میں یہ مضمون اس اہمیت اور زور کے ساتھ شامل نہیں ہے جس میں دوسرے کسی دوسرے مسلمان کی عزت کی اہمیت ہے۔
ہمیں مسائل کو قدیم دور کے ائمہ و اولیا کے زمانے میں لے جاکر حل کرنے کے بجائے یہ سوچنا چاہئے کہ آج کے انٹرنیٹ کے دور میں اگر وہ ائمہ و اولیا   زندہ ہوتے تو کس طرح دین پھیلاتے اور کس طرح فقہ کی تدوین کرتے۔ ورنہ ہوگا یہ کہ اپنے عہد کے مسائل کو جب ہم ہزار بارہ سو سال پہلے کے کوفہ و بصرہ یا دمشق میں لکھی گئی کتابوں کی روشنی میں حل کرنے کی پرانی روش پر چلتے رہیں گے تو زمانے سے صدیوں پیچھے چلے جائیں گے۔ اور یہی ہوتا آیا ہے۔ پرنٹنگ مشین کی ایجاد کے ستّر پچہتّر سال کے بعد تک بھی ہم پرنٹنگ مشین کو حرام قرار دیتے رہے۔ ترکی میں جب پانی کا جہاز بنا تو بخارات سے چلنے والے جہاز کو علما نے حرام قرار دیا۔ ایک دور ایسا بھی تھا جب لاوڈ اسپیکر، گھڑیال دیکھ کر نمازپڑھنا، عورتوں کا مسجد میں آنا، انگریزی تعلیم، عورتوں کی تعلیم، یونیورسٹی کی تعلیم وغیرہ حرام تھے۔ٹی وی اور انٹرنیٹ تو ابھی حال حال تک حرام تھے۔ آج تک ہم دنیا  کو بنک کا متبادل تو نہیں دے سکے لیکن بنک کو ضرور حرام کیا۔ کل تک سعودی عرب میں کار انشورنس، میدیکل انشورنس، لائف انشورنس اور جنرل انشورنس حرام تھے۔ انڈیا پاکستان میں تو آج بھی حرام سمجھے جاتے ہیں کیوں؟ کیونکہ علامہ اقبال کے بقول
          شیر مردوں سے ہوا پیشۂِ تحقیق تہی                   رہ گئے صوفی و ملا کے غلام ائے ساقی
اور دوسری وجہ یہ ہیکہ
          آئینِ نو سے ڈرنا طرزِ کہن پہ اڑنا            منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں۔
ہم کہتے ہیں کہ یونائیٹیڈ نیشنس، ہیومن رائٹس اور ویمنس رائٹس کے چارٹر تو اسلام نے چودہ سو سال پہلے ہی اسلام نے ہمیں دے دیئے تھے۔ پھر چودہ سو سال سے ہم کہاں مچھلیاں پکڑ رہے تھے کہ دنیا کے سامنے پیش ہی نہیں کرسکے نہ کسی ملک میں نافذ کرسکے۔ اگر کوئی ایک بھی مسلمان ملک ان کو نافذ کرلیتا تو دنیا کیلئے انسانیت کا ایک نمونہ ہوتا۔  
خیر؛ ایسے مضامین جن سے امت کی  مزید تقسیم ہونے کا اندیشہ ہے انہیں ختم کرنا لازمی ہے۔ منطق کے نام پر بھی صدیوں پرانی منطق پڑھائی جاتی ہے۔ عہدِ حاضر میں علامہ اقبال کو ساری دنیا مانتی ہے۔ ان کی منطق  The Construction of thought in Islam   جو بشمول جرمنی کے کئی یورپی اور امریکی یونیورسٹیوں میں پڑھائی جاتی ہے ایسے عصری فلاسفرز کی تصانیف بھی پڑھائی جانی چاہئے کیونکہ علامہ اقبال ایک ایسے فلسفی ہیں جو نظم اور نثر میں نہ صرف جوشِ ایمانی سے آراستہ کرتے ہیں بلکہ ان کی شاعری میں بین السطور قرآن، حدیث ، سیرت، تاریخ ، فلسفہ اور عہدِ حاضر کے تقاضے پوشیدہ ہوتے ہیں۔
حقوق العباد کو قائم کرنے کا ایک اور ذریعہ موجودہ دور کی دعوتی تحریکیں بن سکتی ہیں۔ بالخصوص وہ تحریکیں جو غیر مسلمین میں کام کررہی ہیں۔ ان سے ہماری خصوصی درخواست ہےکہ اپنے دعوتی نصاب میں تھوڑی سی تبدیلی کریں۔ گاؤں گاؤں جاکر یہ لوگ اپنی جانوں کو جوکھم میں ڈال کر جو کام کررہے ہیں وہ غیر معمولی جہاد ہے۔ ماشااللہ۔ توحید کی دعوت مختلف زبانوں میں یہ حضرات بہت خوبصورتی اور لاجِک کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ انسانی نفسیات یہ ہے کہ جب کوئی اس دعوت سے متاثر ہوتا ہے تو فوری اس کے ذہن میں یہ آتا ہے کہ ‘‘مجھے کیا کرنا ہوگا’’۔ یہ لمحہ گرم لوہے پر ہتھوڑا مارنے کا ہوتا ہے۔ ہم لوگ اسی لمحے کو ضائع کرڈالتے ہیں اور انہیں ایسا ہوم ورک دیتے ہیں جسے خود مسلمان پورا نہیں کرسکتے۔ ایسے وقت میں انہیںحقوق العباد کی وہ دعوت دیجئے جو حبشہ اور روم کے دربار میں مسلمانوں نے پہلی بار دی تھی  کہ‘‘ ہم لوگ جھوٹ بولتے، اپنی بیٹیوں کو زندہ دفن کردیتے لیکن اللہ کے نبی محمد ﷺ نے آکر ہماری زندگی بدل دی۔ ایک خدا کا ماننا، آخرت کی جوابدہی ملحوظ رکھتے ہوئے سچ بولنا، عورتوں کے حقوق دینا اور حرام کمائی سے بچنا سکھایا’’ ۔  آپ کی دعوت سے جو بھی متاثر ہوکر قریب آئے اسے سب سے پہلے یہ سکھایئے کہ مسلمان ہونے کے بعد جھوٹ بولنا حرام ہے۔ ان کے ذہنوں میں بٹھایئے کہ مسلمان انصاف کرنے والا ہوتا ہے۔ اور مظلوم کی مدد کیلئے کھڑا ہونے والا ہوتا ہے۔ مسلمان کبھی حرام کے لقمے کو ہاتھ نہیں لگا سکتا اسلئے اس کے نزدیک جھوٹ، رشوت، سود، چوری، جہیز، شراب  وغیرہ حرام ہیں۔ اب لوگ اگر ان چیزوں کو اپنے دماغ میں بٹھا لیں گے تو ان کے دوست اور رشتہ دار خود اس انسان میں تبدیلی دیکھ کر اسلام کے قریب آئیں گے۔
حقوق العباد کو قائم کرنے کا ایک اور طریقہ یہ ہیکہ ایک دیڑھ گھنٹے والے صباحی یا عصری مدرسوں کو پھر سے قائم کیا جائے۔ مسجد یا کسی کا گھر بڑا ہو تو محلے کے بچوں کو قرآن کے ساتھ ساتھ حقوق العباد زیادہ سے زیادہ یاد دلائے جائیں ورنہ نئی نسل میں جس تیزی سے آوارہ گردی، بے دینی اور بے حیائی بڑھتی جارہی ہے اس کو روکنا ناممکن ہوجائیگا۔
مختصر یہ کہ یہ غلط فہمی ذہنوں سے نکالی جائے کہ پانچ ستون ہی اسلام ہیں۔ ان پانچ ستونوں پر عمارت کی تعمیر اصل اسلام ہے۔ ورنہ نہ ستون کام آئیں گے نہ ان  ستونوں کے بغیر عمارت کام آئیگی۔ دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ اور عمارت کی تعمیر صرف حقوق العباد سے ہوگی۔  اللہ تعالیٰ ہمیں اسلام کی صحیح عمارت کا معمار بنائے۔ آمین
 
ڈاکٹر علیم خان فلکی
       سوشیوریفارمس سوسائٹی۔ جدہ  aleemfalki@yahoo.com      7.6.2015                  
اپنا تبصرہ لکھیں