اسلام میں گواہی کی اہمیت

 

اسلام میں گواہی کی اہمیت

علامہ پیر محمد تبسم بشیر اویسی سجادہ نشین مرکز اویسیاں نارووال پنجاب پاکستان
اللہ تعالیٰ اس جہاں کا خالق ہے ۔کائنات میں حسن پیدا کرنے کے لئے انسان بنایا ۔انسان کے ملنے سے معاشرہ ترتیب پاتا ہے ۔جب معاشرہ میںدینی اور دنیاوی معاملات بعض اوقات ایسی صورت اختیار کر لیں کہ صاحب معاملہ کسی پر کسی چیز کا دعویٰ کرتا ہے کہ یہ میرا حق ہے لیکن تنہا اُس کے اقرار ی دعویٰ یا بیان کا کوئی اعتبار نہیں کیا جاتا ،اس لیے نہیں کہ وہ ناقابل اعتبار ہے ۔بلکہ اس لیے کہ اگر محض دعویٰ و بیان کی رو سے کسی کا کسی پر کوئی حق ثابت ہو جایا کرے تو دنیا سے امان اُٹھ جائے اور لوگوں کا جینا دوبھر ہو جائے ۔اسی لئے حضور اکرم ۖ ارشاد فرماتے ہیںکہ ”اگر لوگوں کو محض دعویٰ کی وجہ سے دے دیا جایا کرے تو کتنے ہی لوگ خون اور مال کا دعویٰ کر ڈالیں گے ۔لیکن مدعی (دعویدار ) کے ذمہ بَیّنہ (گواہ) ہے او رمنکر پر قسم ۔”(مسلم ،بیہقی)
تو ثابت ہوا کہ مدعی اپنے دعویٰ کے ثبوت ،یا اپنے کسی حق کو ثابت کرنے کے لئے حاکم اسلام کی مجلس میں ایسے اشخاص کو پیش کرے جو اس کے دعویٰ کی تصدیق کریں ۔لفظ شہادت کے ساتھ کسی کی تصدیق کرنے یا سچی خبر دینے کو شہادت یا گواہی کہتے ہیں ۔
پھر چونکہ شہادت بھی شرعاً ایک خاص اعزاز و منصب ہے اس لئے ہر کس و ناکس نہ اس شہادت کا اہل ہے اور نہ ایرا غیرا ،گواہی کے لئے موزوں اس کے اہل وہی ہیں جن کی سیرت و کردار پر اسلامی معاشرہ کو اطمینان ہو اور جو اپنے اخلاق و دیانت کے لحاظ سے بالعموم لوگوں کے درمیان قابل اعتماد سمجھے جاتے ہوں جن کی بات پر اعتبار کیا جاتا ہو اور جن کی دیانت کم از کم عام طور پر مشتبہ نہ ہو ۔قرآن کریم  میں ارشاد ہے ۔
مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّھَدَآئِ ۔”ایسے گواہ جن کو تم پسند کرو۔”
اور ظاہر ہے کہ ایک مسلمان ،ایسوں ہی کو گواہ بنانا اور اس کی گواہی کو قبول کرنا پسند کرے گا جو اُس کے نزدیک متقی ،عادل اور قابل اعتبار ہوں اور جن کے صالح ہونے پر اُسے اعتماد ہو ۔جو عاقل ہوں ،بالغ ہوں۔آزاد ہوں اور دیندار ہوں۔
اسلام نے مسلمان عورتوں کو بھی یہ حق دیا اور عورت کی گواہی کو قابل قبول مانا ۔ لیکن ساتھ ہی اپنے علم کا مل اور تحقیق مطلق کی بنا پر ،عورت کی گواہی کا مرتبہ ،مرد کے مقابلہ پر نصف مانا ہے ۔قرآن کریم فرماتا ہے ۔فَرَجُل وَّ امْرَاتٰنِ۔لہٰذا تنہا عورتوں کی گواہی کسی معاملہ میں ،اگر چہ وہ چارہوں ،شرعاً معتبر نہیں ۔ مگر جن اُمور پر مرد مطلع نہیں ہو سکتے ۔جیسے ولادت و بکارت یعنی عورت  کا بچہ جننا یا اُس کا باکرہ ہونا ۔یونہی نسوانی عیوب ،یعنی عورتوں کے وہ عیوب جن پر مردوں کو اطلاع نہیں ہوتی اُن میں ایک عورت کی شہادت بھی مقبول ہے ،جبکہ وہ آزادومسلمان ہو اور دوعورتیں ہوں تو اور بہتر۔
قرآن حکیم سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جب مدعی گواہوں کو طلب کرے تو انہیں گواہی چھپانا جائز نہیں ۔بلکہ مدعی کے طلب کرنے پر گواہی دینا لازمی ہے ۔بلکہ اگر گواہ کو اندیشہ ہو کہ اگر میں نے گواہی نہ دی تو صاحب حق کا حق تلف ہو جائے گا ۔یعنی اُسے معلوم ہی نہیں ہے کہ فلاں شخص معاملہ کو جانتا ہے تو اُسے گواہی کے لئے کیسے طلب کرے گا۔ اس صورت میں بغیر طلب بھی گواہی دینا لازم ہے ۔
البتہ حدود میں یعنی حدود کی گواہی میں دو پہلو ہیں ایک ازالہ منکر یعنی برائی کا ازالہ اور رفع فساد کہ معاشرہ میں فساد برپا نہ ہواور دوسرا مسلمان کی پردہ پوشی ۔اس لیے حدود کی گواہی میں گواہ کو اظہار واخفاء کا اختیار ہے کہ پہلی صورت اختیار کرے اور گواہی دے تاکہ مجرم اپنی سزا کو پہنچے ۔یادوسری صورت اختیار کرے اور گواہی دینے سے اجتناب و پرہیز برتے اور یہ دوسری صورت زیادہ بہتر ہے ۔حدیث شریف میں ہے کہ جو مسلمان کی پردہ پوشی کرے ۔اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اُس کی ستاری کرے گا (اور اُس کے جرائم پر پردہ ڈال دے گا۔)
ہاں جس پر جرم ثابت ہو چکا وہ بیباک و بدلحاظ ہو ۔حدود شرعیہ کی محافظت نہ کرتا ہو اور مسلمان اس کے کر توتوں سے نالاں ہوں اور اس کی غلط روی سے دوسروں کے اخلاق و عادات اور کردار کے خراب ہونے کا اندیشہ ہوتو پہلی صورت اختیار کرے تاکہ لوگ اس کی شرارتوں اور بد کرداریوں سے محفوظ رہیں ۔ یونہی چوری میں مال لینے کی شہادت دینا واجب ہے تاکہ جس کا مال چوری ہو گیا ہے اُس کا حق تلف نہ ہو ۔اتنی احتیاط کرسکتا ہے کہ چوری کا لفظ نہ کہے ۔اتنا کہنے پر اکتفاء کرے کہ اُس نے فلاں شخص کا مال لیا ۔ یہ نہ کہے کہ چوری کی ۔اس طرح احیاء حق بھی ہو جاتا ہے اور پردہ پوشی بھی ۔(درمختار ۔ردالمختا ر وغیرہ)
جھوٹی گواہی کا وبال
حدیث میں ہے ۔رسول اللہ ۖ ارشاد فرماتے ہیں ”جھوٹی گواہی بُت پوُجنے کے برابر ہے ۔جھوٹی گواہی بُت پرستی کے برابر ہے ۔جھوٹی گواہی شرک کے برابر ہے ۔” تین بار فرما کر ،حضور ۖ نے یہ آیت پڑھی کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔
”بتوں کی ناپاکی سے بچو اور جھوٹی بات سے بچو ۔اللہ کے  لئے باطل سے حق کی طرف مائل ہو جائو ۔اُس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔”(ترمذی ابن ماجہ وغیرہما)
نیز رسول اللہ ۖ فرماتے ہیں کہ ”جھوٹے گواہ کے پائوں ،جگہ سے ہٹنے بھی نہ پائیں گے کہ اللہ تعالیٰ اس کے لئے جہنم واجب کردیگا۔ (ابن ماجہ)
اور بیہقی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے راویت کرتے ہیں کہ حضور اکرم ۖ نے فرمایا:”جو شخص لوگوں کے ساتھ یہ ظاہر کرتے ہوئے چلا کہ یہ بھی گواہ ہے ،حالانکہ یہ گواہ نہیں ۔وہ بھی جھوٹے گواہ کے حکم میں ہے اور جو بغیر جانے ہوئے کسی کے مقدمہ کی پیروی کرے ،وہ اللہ تعالیٰ کی ناخوشی میں ہے ۔جب تک اُس سے جدا نہ ہو جائے ۔”اور ایک حدیث شریف میں ہے کہ جو گواہی کے لئے بلایا گیا اور اُس نے گواہی چھپائی یعنی ادا کرنے سے گریز کیا وہ ویسا ہی ہے جیسا جھوٹی گواہی دینے والا ۔”(طبرانی)
شہادت کے احکام و مسائل میںاتنا یاد رکھنا چاہیے کہ مندرجہ ذیل افراد کی گواہی شرعاً مقبول و معتبر نہیں۔
1:۔ کافر کی گواہی مسلم کے خلاف اور مرتد کی گواہی مقبول نہیں۔
2:۔ دوشخصوں میں دنیاوی عداوت ہو تو ایک کی گواہی دوسرے کے خلاف قبول نہیں۔
3:۔ جو شخص گناہ کبیرہ کا ارتکاب یا صغیرہ پر اصرار کرتا ہو کہ وہ اس کی عادت سی ہو گئی ہے ۔تو ایسے شخص کی گواہی بھی قبول نہیں۔
4:۔ بچے کی گواہی اور ایسے لوگوں کی گواہی جو دنیاوی باتوں سے بے خبر رہتے ہیں۔
5:۔ جس پر حد قذف قائم کی گئی ہو۔
6:۔ جس کا جھوٹا ہونا مشہور ہے یا جھوٹی گواہی دے چکا ہے ۔
7:۔ زوج و زوجہ میں سے ایک کی گواہی دوسرے کے حق میں اور خلاف ہو تو مقبول۔
8:۔ اولاد کی گواہی ماں باپ دادا دادی کے حق میں ،اور اُن کی گواہی اولاد کے حق میں۔
9:۔ کسی کا ریگر کے پاس کام سیکھنے اور اس کی کفالت میں رہنے والوں کی گواہی اُستاد کے حق ہیں۔
10:۔ گویے ،گانے والی یا پیشہ ور ڈرامے کرنے والے۔
11:۔ جو شخص اٹکل پچو باتیں اڑاتا ہو۔
12:۔ جو کثرت سے قسم کھاتا یا اپنے بچوں کو یا دوسروں کو گالی دینے کا عادی ہو ۔
13:۔ جس کا پیشہ دلالی ہو کہ کثرت سے جھوٹ بولتا ہے ۔
14:۔  مختاری کا پیشہ کرنے والے کہ خود جھوٹ سچ بولنے اور دوسروں کو تلقین کرتے ہیں۔
15:۔ مرغ بازی ،کبوتر بازی ،اور دوسرے ایسے ہی کھیل کود میں وقت گنوانے والے ۔
16:۔ جو شخص گناہ و حرام کی مجلس میں بیٹھتا ہے اگر چہ وہ خود اس حرام کا مرتکب نہیں۔
17:۔ سود خور ، جواری ، یا علی الاعلان شطر نج کھیلنے والا۔
18:۔ بغیر عذر شرعی نماز روزہ قضا کرنے والا یا جماعت ترک کرنے والا جبکہ کوئی عذر شرعی نہ ہو ۔
19:۔ حقیر و ذلیل افعال میں گرفتار و مشغول رہنے والا ۔
20:۔ جو شخص بزرگان دین ،پیشوایان اسلام مثلاً صحابہ و تابعین ،و ائمہ اہلبیت خصوصاً امام حسین شہید کرب و بلا اور ازواج مطہرات رضی اللہ عنہم کو برے الفاظ سے ا علانیہ یاد کرتا ہو، اس کی گواہی بھی مقبول نہیں ۔انہی بزرگان دین سلف صالحین میں امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ بھی ہیں ۔اور جو بیہودہ گوئی کو اپنا جزو ایمان سمجھتے ہیں ،ہر گز ہرگز کسی دینی یاد نیاوی معاملہ میں شہادت کے اہل نہیں ۔(درمختار ،ردا لمختار ،عالمگیری وغیرہا)
کیونکہ سچی گواہی سے معاملہ کھل کر سامنے آجاتا ہے ۔حق اور باطل دونوں میںتمیز ہو جاتی ہے ۔لہٰذا سچی گواہی مسلمان کی عزت میں اضافہ کرنی ہے جبکہ جھوٹی گواہی ذلت و رسوائی کا باعث بنتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سچی گواہی دینے والا بنائے ۔آمین

3 تبصرے ”اسلام میں گواہی کی اہمیت

اپنا تبصرہ لکھیں