اسلام میں معاشی نظام کا تصور

کالم نگار، بشیر ذاہد
اوسلو
کہتے ہیںکہ غربت اور مفلسی انسان کو کفر کے قریب لے جاتا ہے۔انسان کی سب سے بنیادی ضرورت پیٹ کی آگ بجھانا ہے۔اسی لیے بھوکے بچے کو گول چاند بھی ایک روٹی کی ماننددکھائی دیتا ہے۔
کسی بھی قوم میں اخلاقی اور معاشرتی برائیاں معاشی کمزوریوں کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔مغرب نے اس بنیادی نقطہ کو بخوبی اور بخوبی اور بر وقت سمجھا اور اپنی اقوام میں معاشی نا ہمواری کو دور کرنے میں بھرپور توجہ دی۔ یہی وجہ ہے کہ آج مغرب پوری دنیا پر راج کر رہا ہے۔اور ہم ان کی اخلاقی قدروں کی مثالیں پیش کرتے ہیں۔
اسلام کی معاشی تعلیمات کا بنیادی نقطہ یہ ہے کہ وسائل کو چند ہاتھوں میں محدود ہو کر نہیں رہنا چاہیے۔اور دولت کو ہمیشہ حرکت میں رہنا چاہیے۔تاکہ امیر اور غریب کے درمیان فرق کم سے کم ہو۔اور معاشرے کے پسماندہ طبقے کو معاشرے کی مجموعی دولت کاحصہ کسی نہ کسی صورت ملتا رہے۔
ہمارے مذہب کا بنیادی نقطہ بھی اصل میں یہی ہے کہ انصاف پر مبنی ایسا معاشرہ معرض وجود میں آئے۔
جہاں نہ صرف افراد کے حقوق اور فرائض کا تعیّن ہو بلکہ جہاں افراد کے بنیادی حقوق کا مکمل تحفظ بھی ہو۔اور جہاں ریاست ہر فرد کو روزگار فراہم کرنے کی ضامن ہو۔
ہم انسان کی معاشی ضرورت پوری کیے بغیر معاشرتی برائیوں سے پاک معاشرے کا خوب شرمندہ تعبیر نہیں کر سکتے۔
بد قسمتی سے ہمارے مذہبی قائدین نے اس نقطہ پر کبھی توجہ مبذول نہیں کرائی اور صرف عبادات کو ہی گناہ ، ثواب اور نجات کے تصور سے جوڑے رکھا۔
اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن و حدیث کے صحیح معنوں کو سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔آمین

اپنا تبصرہ لکھیں