اسلام میں غیر مسلم کے حقوق

علامہ پیر محمد تبسم بشیر اویسی سجادہ نشین مرکز اویسیاں نارووال موبائل نمبر0300-6491308
اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ دین اسلام دینِ امن ہے اور یہ معاشرے میں رہنے والے تمام افراد کو ،خواہ ان کا تعلق کسی بھی مذہب اور رنگ و نسل سے ہو ، جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ کی ضمانت عطا کرتا ہے ۔ ایک اسلامی ریاست میں آباد غیر مسلم اقلیتوں کی عزت اور جان و مال کی حفاظت کرنا مسلمانوں پر بالعموم اور اسلامی ریاست پر بالخصوص فرض ہے ۔
اسلامی ریاست میں غیر مسلم شہریوں کو بھی وہی حقوق حاصل ہیں جو مسلمانوں کو حاصل ہیں ۔اُن حقوق میں سے پہلا حق جو اسلامی حکومت اور اسلامی معاشرہ کی طرف سے انہیں حاصل ہے وہ حقِ حفاظت ہے ،جو انہیں ہر قسم کے خارجی اور داخلی ظلم و زیادتی کے خلاف میسر ہو گا تا کہ وہ مکمل طور پر امن و سکون کی زندگی بسر کر سکیں۔حضور نبی اکرم ۖ نے خطبہ حجة الوداع کے موقع پر پوری نسل انسانی کو عزت ، جان اور مال کا تحفظ فراہم کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:”بے شک تمہارے خون اور تمہارے مال اور تمہاری عزتیں تم پر اسی طرح حرام ہیں جیسے تمہارے اس دن کی حرمت تمہارے اس مہینے میں اور تمہارے اس شہر میں (مقرر کی گئی) ہے ۔یہاں تک کہ تم اپنے رب سے ملو گے۔”(بخاری شریف)
لہٰذا کسی بھی انسان کو نا حق قتل کرنا ،اس کا مال لوٹنا اور اس کی عزت پر حملہ کرنا یا اس کی تذلیل کرنا دوسروں پر حرام ہے ۔
غیر مسلم شہریوں کے قتل کی ممانعت:اسلامی ریاست میں آباد غیر مسلم شہری کو قتل کرنا حرام ہے ۔کسی فرد کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی غیر مسلم شہری کو ناحق قتل کرے ۔قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔”جس نے کسی شخص کو بغیر قصاص کے یا زمین کے (ناحق)قتل کر دیا تو گویا اس نے (معاشرے کے ) تمام لوگوں کو قتل کر ڈالا۔”(المائدہ )اس آیہ کریمہ میں نفساً کا لفظ عام ہے ۔لہٰذا اس کا اطلاق بھی عموم پر ہو گا ۔ یعنی کسی ایک انسانی جان کے کسی بھی ملک یا علاقے کارہنے والا ہو قطعاً حرام ہے اور اس کا گناہ اتنا ہی ہے جیسے پوری انسانیت کو قتل کرنے کا ہے ۔لہٰذا مسلم ریاست میں آباد غیر مسلم شہریوں کا قتل بھی اسی زمرے میں آئے گا ۔
غیر مسلم شہری کے قاتل پر جنت حرام ہے :حضرت ابو بکر ہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ۖ نے ارشاد فرمایا :”جو مسلمان کسی غیر مسلم شہری (معاہد) کو نا حق قتل کرے گا اللہ تعالیٰ اُس پر جنت حرام فرما دے گا۔”(نسائی شریف)
حدیث میں معاہد کا لفظ استعمال کیا گیا جس سے مراد ایسے غیر مسلم شہری ہیں جو معاہدے کے تحت اسلامی ریاست کے باسی ہوں یا ایسے گروہ اور قوم کے افراد ہیں جنہوں نے اسلامی ریاست کے ساتھ معاہدۂ امن کیا ہو۔ اسی طرح جدید دور میں کسی بھی مسلم ریاست کے شہری جو اُس ریاست کے قانون کی پابندی کرتے ہوں اور آئین کو مانتے ہوں معاہد کے زمرے میں آئیں گے ۔ جیسے پاکستان کی غیر مسلم اقلتیں جو آئین پاکستان کے تحت با قاعدہ شہری اور رجسٹرڈ ووٹر ہیں ۔ پاکستان کے آئین و قانون کو پاکستان کی مسلم اکثریت کی طرح تسلیم کرتے ہیں یہ سب معاہد ہیں ۔پاکستان کے وقت سے ہی اس مملکت کے شہریوں کی طرح تقسیم ہند اور قیام پاکستان کے وقت سے ہی اس مملکت کے شہری تھے اور ہیں ۔اس لئے جدید تناظر میں معاہد کا ترجمہ ہم نے غیر مسلم شہری کیا ہے ۔ ( فیض القدیرللمناوی)
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ۖ نے فرمایا:جس نے کسی غیر مسلم شہری (معاہد ) کو قتل کیا تو وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں سونگھے گاحالانکہ جنت کی خوشبو چالیس برس کی مسافت تک محسوس ہوتی ہے ۔”(صحیح بخاری )
گویا کسی غیر مسلم کا نا حق قتل کرنے والا جنت کے قریب بھی نہیں جا سکے گا بلکہ اسے جنت سے چالیس برس کی مسافت سے بھی دور رکھا جائے گا۔
فیض الباری میں اس حدیث کی تشرح اس طرح بیان ہوئی ہے کہ:”آپ ۖ کا فرمان ہے ۔ جس نے کسی غیر مسلم شہری کو قتل کیا وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں سونگھے گا۔ اے مخاطب !حدیث کا لب لباب تجھے قتلِ مسلم کے گناہ کی سنگینی بتا رہا ہے کہ اس کی قباحت کفر تک پہنچا دیتی ہے جو جہنم میں دخول کا باعث بنتا ہے جبکہ غیر مسلم شہری کو قتل کرنا بھی کوئی معمولی گناہ نہیں ہے ۔اس طرح اس کا قاتل بھی جنت کی خوشبو تک نہیں پائے گا۔ (جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ جہنم میں ڈالا جائے گا۔ )”
غیر مسلم سفارت کاروں کے قتل کی ممانعت:اسلام قومی اور بین الاقوامی معاملات میں امن و رواداری کا درس دیتا ہے ۔قرآن و حدیث کی تعلیمات کے مطابق بد ترین دشمن قوم کا سفارت کار بھی اگر سفارت کاری کے لئے آئے تو اس کا قتل حرام ہے ۔حضور اکرم ۖ کے پاس کئی مواقع پر غیر مسلموں کے نمائندے آئے ،لیکن آپ ۖ نے ان سے ہمیشہ خود بھی حسنِ سلوک فرمایا اور صحابہ کرام کو بھی یہی تعلیم دی ۔حتیٰ کہ نبوت کے جھوٹے دعوئے دار مسیلمہ کذاب کے نمائندے آئے جنہوں نے صریحاً اعترافِ اِرتداد کیا تھا لیکن آپ ۖ ان کے سفارت کاروں سے بھی حسن سلوک سے پیش آئے ۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ”میں حضور اکرم ۖ کے پاس بیٹھا ہوا تھا جب یہ شخص (عبد اللہ بن نواحہ) اور ایک آدمی مسیلمہ(کذاب) کی طرف سے سفارت کار بن کر آئے تو انہیں حضور اکرم ۖ نے فرمایا:کیا تم دونوں اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں؟ انہوں نے (اپنے کفر و ارتداد پر اصرار کرتے ہوئے )کہا : ہم گواہی دیتے ہیں کہ مسیلمہ(معاذ اللہ ) اللہ کا رسول ہے ۔حضور نبی اکرم ۖ نے (کمال برداشت و تحمل کی مثال قائم فرماتے ہوئے ارشاد )فرمایا:میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں پر ایمان رکھتا ہوں۔اگر میں سفارت کاروں کو قتل کرنے والا ہوتا تو تم دونوں کو قتل کر دیتا۔ (مگر حضور اکرم ۖ نے ایسا نہ کیا اور انہیں جان کی سلامتی دی)۔”(دارمی )
غور کیجئے کہ بارگاہ رسالت ۖ میں مسیلمہ کذاب کے پیروکاروں کے اعلانیہ کفر و ارتداد کے باوجود تحمل سے کام لیا گیا ،کسی قسم کی سزا نہیں دی گئی ،نہ ہی انہیں قید کیا گیا اور نہ ہی انہیں قتل کرنے کا حکم فرمایا گیا ۔ صرف اس لیے کہ وہ سفارت کار (Diplomats)تھے مصنف عبد الرزاق اور مسند بزار میں رَسُوْلاً اور رُسُلًا کے الفاظ ہیں یعنی اکیلا سفارت کار ہو یا سفارتی عملہ ہو ،ہر دو صورتوں میں ان کا قتل جائز نہیں ہے ۔
حضور نبی اکرم ۖ کے مندرجہ بالا ارشاداور آپ ۖ کے عمل مبارک سے یہ امر پایۂ ثبوت کو پہنچ گیا کہ غیر ملکی نمائندوں اور سفارت کاروں کی جان کی حفاظت کرنا سنت نبوی ۖ ہے ۔حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:”(اس عمل سے)سنت جاری ہو گئی کہ سفارت کار کو قتل نہ کیا جائے ۔”(امام احمد بن حنبل، نسائی شریف)
گویا حضور نبی اکرم ۖ کے اس جملے نے سفارت کاروں کے احترام کا بین الاقوامی قانون وضع فرما دیا ۔اس حکم سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ وہ تمام عملہ جو کسی Embassyمیں سفارت کاری پر تعینات ہو اِسی حسن سلوک کا حق دار ہے اور اس کا قتل بھی از روئے حدیث حرام ہے ۔گزشتہ کئی سالوں سے پاکستان کے شورش زدہ علاقوں میں غیر ملکی سفارت کاروں اور انجینئرز کے اغوا اور قتل کے متعدد واقعات رُونما ہو چکے ہیں جن کی ذمہ داری دہشت گرد قبول کرتے رہے ہیں ۔کتنے افسوس کی بات ہے کہ اسلام کے نام پر دہشت گردی کرنے والے حضور نبی اکرم ۖ کی ان تعلیمات سے صریحاً انحراف برتنے کے باوجود خود کو ”مجاہدین اسلام” سمجھتے ہیں۔
غیر مسلم مذہبی رہنمائوں کے قتل کی ممانعت:جس طرح غیر مسلم سفارت کاروں کے قتل کو حرام قرار دیا گیا ہے اسی طرح غیر مسلموں کے مذہبی رہنمائوں کے قتل کی بھی ممانعت کی گئی ہے ۔حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے :”حضور نبی اکرم ۖ جب اپنے لشکروں کو روانہ کرتے تو حکم فرماتے :غداری نہ کرنا ،دھوکا نہ دینا ،نعشوں کی بے حرمتی نہ کرنا اور بچوں اور پادریوں کو قتل نہ کرنا۔”(احمد بن حنبل )
مندرجہ بالا حدیث مبارکہ سے واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ کسی بھی قوم کے مذہبی رہنمائوں کا قتل عام حالات کے علاوہ دورانِ جنگ بھی جائز نہیں ہے ۔
ایک غیر مسلم کے ظلم کا بدلہ دوسروں سے لینے کی ممانعت:قرآن و حدیث کے مطابق ہر شخص اپنے اعمال کا خود ذمہ دار ہے ۔جس نے ظلم کیا حسبِ دستور بدلہ اور سزا کا وہی مستحق ہے ،اس کے بدلے میں کوئی دوسرا نہیں ۔اس کے جرم کی سزا اس کے اہل و عیال ،دوستوں یا اس کی قوم کے دیگر افراد کو نہیں دی جا سکتی ۔ ارشادِ ربانی ہے :”اور ہر شخص جو بھی (گناہ ) کرتا ہے (اس کا وبال) اسی پر ہوتا ہے اور کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ پھر تمہیں اپنے رب ہی کی طرف لوٹنا ہے پھر وہ تمہیں ان (باتوں کی حقیقت سے آگاہ فرما دے گا جن میں اختلاف کیا کرتے تھے۔)”(الانعام)
اسلام اس امر کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ پر امن شہریوں کو دوسرے ظالم افراد کے ظلم کے عوض سزا دے حضور اکرم ۖ کا ارشاد گرامی ہے :”کسی امن پسند غیر مسلم شہری کو دوسرے غیر مسلم افراد کے ظلم کے عوض سزا نہیں دی جائے گی۔”(ابو یوسف الخراج)
لہٰذا ایسے دہشت گرد افراد جو انتقاماً دوسری مخالف قوم بے گناہ افراد کو قتل کریں ،ان کا مال لوٹیں اور ان کی املاک تباہ کریں وہ صریحاً قرآنی آیات اور ارشاداتِ نبوی ۖ کی مخالفت کرنے والے ہیں۔اُن کا عمل پھر کس طرح اسلام ہو سکتا ہے ۔۔۔۔؟
غیر مسلم شہریوں کا مال لوٹنے کی ممانعت:اسلام نے دوسروں کا مال لوٹنا بھی حرام قرار دیا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے :”اور تم ایک دوسرے کے مال آپس میں نا حق نہ کھایا کرو اور نہ مال کو (بطورِرشوت ”حاکموں تک پہنچایا کرو کہ یوں لوگوں کے مال کا کچھ حصہ تم(بھی) ناجائز طریقے سے کھا سکو حالانکہ تمہارے علم میں ہو (کہ یہ گناہ ہے)۔” (البقرہ)حضور نبی اکرم ۖ نے بھی دوسروں کے مال کو لوٹنا حرام قرار دیا ہے ۔”بے شک تمہارے خون اور تمہارے مال تم پر حرام ہیں۔”(بخاری شریف)
غیر مسلم شہریوں کی جانوں کی طرح ان کے اموال کی حفاظت بھی اسلامی ریاست پر لازم ہے ۔ہر دور میں جمیع مسلمانوں کا اس پر اجماع رہا ہے ۔حضرت امام ابن سعد اور امام ابو یوسف نے نجران کے عیسائیوں کے ساتھ حضور نبی اکرم ۖ کے معاہدے کی یہ شق نقل کی ہے :”اللہ اور اللہ کے رسول محمد ۖ اہل نجران اور ان کے حلیفوں کے لئے ان کے مالوں ،ان کی جانوں ،ان کی زمینوں ،ان کے دین ،ان کے غیر موجود و موجود افراد ،ان کے خاندان کے افراد ،ان کی عبادت گاہوں اور جو کچھ بھی ان کے ہاتھوں میں ہے ،تھوڑا یا زیادہ ،ہر شے کی حفاظت کے ضامن اور ذمہ دار ہیں۔”(ابو یوسف کتاب الخراج)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے شام کے گورنر حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کو جو فرمان لکھا تھا اس میں منجملہ دیگر احکام کے یہ بھی درج تھا:”(تم بحیثیت گورنر شام)مسلمانوں کو ان غیر مسلم شہریوں پر ظلم کرنے ،انہیں ضرر پہنچانے اور ناجائز طریقہ سے ان کا مال کھانے سے سختی کے ساتھ منع کرو۔”(ابو یوسف کتاب الخراج)حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا کہ ”غیر مسلم شہری ٹیکس اس لئے ادا کرتے ہیں کہ ان کے خون ہمارے خون کی طرح اور ان کے مال ہمارے اموال کے برابر محفوظ ہو جائیں۔”(ابن قدامہ ،المغنی)
اسلامی ریاست میں غیر مسلم شہریوں کے جان و مال کی حفاظت کا اس قدر اہتمام کیا گیا ہے کہ ان کے اموال کی حفاظت اتنی ہی ضروری ہے جتنی مسلمانوں کے اموال کی حتیٰ کہ اگر کوئی مسلمان ان کی شراب یا خنزیر کو تلف کر دے تو اس پر بھی جرمانہ لازم آئے گا۔فقہ حنفی کی مشہور کتاب ”الدر المختار” میں ہے :”غیر مسلم شہری کی شراب اور اس کے خنزیر کو تلف کرنے کی صورت میں مسلمان اس کی قیمت بطور تاوان ادا کریگا۔”چہ جائیکہ ان کے گھروں کو جلا دیا جائے ۔ایسے عمل سے اسلام کی بد نامی ہوتی ہے ۔
غیر مسلم شہری کا مال چرانے والے پر بھی اسلامی حد کا نفاذ ہو گا:اسلام نے مال کی چوری کو حرام قرار دیا ہے اور ا س پر نہایت سزا مقرر کی ہے ۔حضور نبی اکرم ۖ کے زمانے میں قریش کی ایک مخزومی عورت نے چوری کی تو آپ ۖ نے اس پر حد جاری کرنے کا حکم فرمایا ۔ لوگوں نے آپ ۖ سے اس کی سفارش کرنا چاہی تو آپ ۖ نے ارشاد فرمایا کہ اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو اُس پر بھی حد جاری کی جاتی ۔(بخاری شریف)
امام نووی شرح صحیح مسلم میں لکھتے ہیں:”یقینا غیر مسلم شہری ،معاہد اور مرتد کا مال بھی اس اعتبار سے مسلمان کے مال ہی کی طرح ہے ۔”( الدرالمختار)امام ابن قدامہ حنبلی نے کہا ہے کہ غیر مسلم شہری کا مال چوری کرنے والے پر اُسی طرح حد سے عائد ہو گی جس طرح مسلمان کا مال چوری کرنے والے پر ہوتی ہے ۔ (ابن قدامہ ،المغنی)آج کل تو احتجاج کرنے والے اس کا پاس بھی نہیں رکھتے ۔افسوس
غیر مسلم شہریوں کی تذلیل کی ممانعت:اسلام میں جیسے مسلمان کی عزت و آبرو کی تذلیل حرام ہے ویسے ہی غیر مسلم شہری کی عزت کو پامال کرنا بھی جائز نہیں ہے ۔کسی مسلمان کو اجاز ت نہیں کہ وہ کسی غیر مسلم شہری کو گالی گلوچ کرے ۔اس پر تہمت لگائے ،اس کی طرف جھوٹی بات منسوب کرے یا اس کی غیبت کرے ۔اسلام کسی مسلمان کو اس امر کی بھی اجازت نہیں دیتا کہ وہ کسی غیر مسلم شہری کے ایسے عیب کا تذکرہ کرے جس کا تعلق اس کی ذات ،اس کے حسب و نسب یا اس کے جسمانی و اخلاقی عیب سے ہو۔
ایک دفعہ گورنر مصر حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے بیٹے نے ایک غیر مسلم کو نا حق سزا دی ۔ خلیفہ وقت امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس جب اس کی شکایت کی گئی تو اُنہوں نے سر عام گورنر مصر کے بیٹے کو اس غیر مسلم مصری سے سزا دلوائی اور ساتھ ہی وہ تاریخی جملہ ادا فرمایا جو بعض محققین کے نزدیک انقلابِ فرانس کی جدو جہد میں روحِ رواں بنا۔ آپ نے گورنر مصر حضرت عمرو بن العاص کے بیٹے سے فرمایا:”تم نے کب سے لوگوں کو اپنا غلام سمجھ لیا ہے حالانکہ ان کی مائوں نے انہیں آزاد جنا تھا۔؟”(کنز العمال)
غیر مسلم شہری کو زبان یا ہاتھ پائوں سے تکلیف پہنچانا، اس کو گالی دینا ،مارنا ،پیٹنا یا اس کی غیبت کرنا اسی طرح ناجائز اور حرام ہے جس طرح مسلمان کے حق میں ناجائز اور حرام ہے ۔”الدرالمختار”میں یہ اصول بیان ہوا ہے کہ :”غیر مسلم کو اذیت سے محفوظ رکھنا واجب ہے اور اس کی غیبت کرنا بھی اسی طرح حرام ہے جس طرح مسلمان کی غیبت کرنا ۔”(الدرالمختار)
حضور اکرم ۖ کی طرف سے مظلوم غیر مسلم شہری کی وکالت کا اعلان:حضور سرورِ کائنات ۖ نے غیر مسلم شہریوں کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیا ہے ۔اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ غیر مسلم شہریوں کو ظلم و زیادتی سے تحفظ کی ضمانت دے ۔ اگر اسلامی ریاست میں کسی غیر مسلم شہری پر ظلم ہو اور ریاست اسے انصاف نہ دلا سکے تو آپ ۖ نے قیامت کے روز ایسے مظلوم لوگوں کا وکیل بن کر انہیں ان کا حق دلوانے کا اعلان فرمایا ہے ۔حضور اکرم ۖ نے ارشاد فرمایا:”خبردار! جس نے کسی غیر مسلم شہری پر ظلم کیا یا اُس کا حق مارا یا اس پر اس کی طاقت سے بڑھ کر بوجھ ڈالا یا اُس کی دلی رضا مندی کے بغیر کوئی چیز اُس سے چھین لی تو قیامت کے دن میں اُس کی طرف سے جھگڑا کرو ں گا۔”(ابو دائود )
فرمانِ رسالت مآب ۖ کا مقصد یہ تھا کہ مسلمان معاشرہ غیر مسلم شہریوں کے حقوق کے تحفظ کا ضامن بن جائے اور اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں ہر گز تساہل نہ کرے۔
غیر مسلم شہریوں کا اندرونی و بیرونی جارحیت سے تحفظ:اسلامی قوانین کے مطابق ریاست کے فرائض میں سے ہے کہ وہ تمام غیر مسلم شہریوں کو ہر قسم کا تحفظ فراہم کرے ۔کوئی بھی فرد خواہ کسی قوم ،مذہب یا ریاست سے تعلق رکھتا ہو اگر وہ کسی غیر مسلم شہری پر جارحیت کرے اور اس پر ظلم و تعدی کا مرتکب ہو تو ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ بلا امتیازِ مذہب اپنے شہری کو تحفظ فراہم کرے ، چاہے اس سلسلے میں اسے جارحیت کرنے والے سے جنگ کرنی پڑے۔قرآن مجید دوسروں پر ظلم کرنے پر سخت عذاب کی وعید سناتا ہے جبکہ حرام کا ارتکاب کرنے پر سخت ترین عذاب کی وعید سناتا ہے ۔پس دوسروں پر ظلم حرام ہے اگر چہ وہ اہل ذمہ یا ان کے علاوہ دوسرے لوگ ہی کیوں نہ ہوں۔
غیر مسلم شہریوں کی اندرونی ظلم و تعدی سے حفاظت:غیر مسلم شہریوں کی اندرونی ظلم و زیادتی سے حفاظت کو بھی اسلام بڑی تاکید کے ساتھ لازم اور واجب قرار دیتا ہے ۔اسلام کسی مسلمان کے ہاتھوں غیر مسلم شہریوں کے ساتھ کسی قسم کی ظلم و زیادتی کو ہر گز برداشت نہیں کرتا خواہ اس ظلم و اذیت کا تعلق ہاتھ سے ہو یا زبان سے۔
ظلم کی قباحت و حرمت پر اور دنیا و آخرت میں اس کے درد ناک انجام پر کثرت کے ساتھ آیات اور احادیث موجود ہیں ،خاص طور پر غیر مسلم شہریوں کے ساتھ ظلم و زیادتی کی ممانعت پر تو خصوصی ارشادات گرامی وارد ہوئے ہیں۔
اسی مضمون کی ایک حدیث حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے جس میں آپ ۖ نے ارشاد فرمایا:”جس نے کسی غیر مسلم شہری کو تکلیف پہنچائی تو میں اس کا وکیل ہوں گا اور جس کا میں فریق ہوں گا تو قیامت کے دن اس پر غالب آجائوں گا۔”(کتب احادیث)
غیر مسلم شہریوں کی بیرونی جارحیت سے بچانے کے حوالے سے حکومتِ وقت پر وہ سب کچھ واجب ہے جو مسلمانوں کے لئے اس پر لازم ہے ۔چونکہ حکومت کے پاس قانونی و سیاسی طور پر غلبہ و اقتدار بھی ہوتا ہے اور عسکری و فوجی قوت بھی ،اس لئے اس پر لازم ہے کہ وہ ان کی مکمل حفاظت کا اہتمام کرے ۔
اگر اسلامی ریاست میں موجود غیر مسلم شہریوں پر کوئی باہر سے حملہ آور ہو اور انہیں پکڑنے ،مارنے یا اذیت دینے کی کوشش کرے تو اس صورت میں اسلامی ریاست پر لازم ہے کہ ان کا تحفظ کرے ۔
آیات قرآنی ،احادیث مقدسہ اور فقہائے اُمت کے اقوال کی روشنی میں یہ واضح ہوتا ہے کہ کسی مسلمان کو یہ حق نہیں کہ کسی غیر مسلم شہری کو محض اس کے غیر مسلم ہونے کی بنا پر قتل کر دے یا اس کا مال لوٹے یا اس کی عزت پامال کرے ۔اسلام غیر مسلم شہریوں کو نہ صرف ان کی جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے بلکہ ان کی عبادت گاہوں کو بھی تحفظ فراہم کرتا ہے ۔
مگر ہمارے جذبات تو اسلامی تعلیمات کی طرف رُخ ہی نہیں کرتے ۔ ایک غیر مسلم کے فعل بد کی وجہ سے پوری غیر مسلم بستی کو آگ لگا دینا ،غیر مسلم افراد پر تشدد کرنا اور اُن پر عرصۂ حیات تنگ کر دینا کون سی مسلمانی ہے ۔۔۔۔؟کیا یورپ کے ظلم کا بدلہ ہم پاکستان مظلوم غیر مسلموں سے لے کر اپنے ضمیر کو مطمئن کر سکیں گے ۔۔۔؟ ہر گز نہیں ۔ہم پاکستانی ہیں اور ہمیں اپنے دین ،وطن اور قوم کی عزت ووقار کا پاس رکھتے ہوئے ۔غیر مسلم افراد سے حسنِ سلوک کرنا چاہیے جس کی بدولت اسلام کا با وقار اور اخلاق حسنہ اُن لوگوں کو اسلام کے قریب کردے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں تعلیماتِ اسلام سمجھنے کی توفیق دے ۔آمین!

اپنا تبصرہ لکھیں