اسلام جمع فرقہ برابر صفر

اسلام  جمع فرقہ برابر صفر

کالم نگار شیخ احسان اوسلو

 

پاکستان عوامی لیگ کے سربراہ شیخ رشید گذشتہ دنوں پاکستانی کمیونٹی ناروے کے زیر اہتمام یوم پاکستان کے تحت منعقد ہونے والی تقریب میں شرکت کے لیے اوسلو آئے۔اسلامک کلچر سنٹرکے ہفتہ وار درس کے موقع پر مختصر خطاب میں اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں  دنیا میںیورپ  اور افریقہ  اور ایشیاکے مختلف ملکوں میں دوروں کے دوران مشاہدہ کیا ہے  کہ جس قدر دین اسلام سے محبت اور قربت ان ممالک میں ہے پاکستان میں نہیں ہے۔ہم نے شیخ صاحب سے سوال کیا کہ ہمارا وطن عزیز اسلام اور دو قومی نظریات کی وجہ سے وجود میں آیا ہے۔آج جبکہ پاکستان میں بیشمار دینی جماعتیں اور اسلامی ادارے کام کر رہے ہیں ہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ  بیشتر اداروں میں ہزاروں کی تعدادد میں لوگ  اسلامی تعلیمات کےحصول کے لیے بھی رجوع کر رہے ہیں۔لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ ان اداروں کے مختلف نظریات فرقہ واریت کو ہوا دیتے ہوئے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون نہیں کرتے۔نتیجتاً وہاں پر وہ صورتحال پیدا نہیں ہوتی جس کا تصور ہمارے نبی اور دین نے دیاشیخ رشید کی باتیں سن کر ہمیں واصف علی واصف کا تحریر کردہ مضمون اسلام جمع تفرقہ برابر زیرو  یاد آگیا۔وہ لکھتے ہیں اسلام مسلمانوں کی وحدت  اور فکر وعمل کا نام ہے۔شارحین اسلام کی طویل اور معقول وضاحتوں نے فرقے تخلیق کیے ہیں۔فقہائ،علماء  اور فقراء کی نیتوں پر شک نہیں کیا جاسکتا۔ان کا تدبّر درست انکے ارشادات صحیح مگر مسلمانوں کی وحدت اور انکی تعمیر و ترقی کے لیے  اتنے فرقے کس حد تک موزوں ہیں ؟ہمارے پیارے نبی نے اللہ کے  تصور وحدانیت کو مسلمان ہونے کی بنیادی شرط اور قرآن کو نسخہء کیمیاء کہتے ہوئے اسکی رسی کو مضبوطی سے پکڑنے کی تلقین کی۔آپ صلعم نے مسلمانوں کو ایک  دوسرے کا بھائی کہتے ہوئے حضرت علی کرم اللہ وجہ کو اپنا بھائی کہا اور امت مسلمہ کی بنیاد رکھی۔آپ صلعم کا پیغام مسلمانوں کے کسی خاص گروہ یا قبیلے کے لیے نہیں تھا بلکہ وہ تما انسانوں  اورخصوصاً مسلمانوں کے لیے تھا۔آپ صلعم نے تمام انسانوں کے ساتھ بلا تفریق محبت کی۔اور سب کو ایک ہی پیغام اور راستہ دکھایا۔وہ راستہ امن اخوت اور بھائی چارے کا راستہ تھا۔آج تمام مساجد میں ایک اللہ اور ایک ہی قرآن کی بات کی جاتی ہے۔سب مسلمانوں کے ایک ہی نبی ہیں۔تمام مسلمان اپنے پیارے نبی کے ساتھ عقیدت و الفت کا دم بھرتے ہیں تو پھر  جانے یہ فرقے اور ایک دوسرے کے ساتھ ناراضگیاں کیوں رکھتے ہیں؟؟کیوں ہم ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر ایک ایسی مضبوط زنجیر نہیں بن جاتے۔جس کو دشمن اسلام چھونے کی بھی جرآت نہ کر سکے۔آپس کے نفاق نے ہمیں کمزوری کی ان حدوں تک پہنچا دیا ہے جہاں غیروں کے بجائے ہم خود ہی اپنے دشمن بن کر  اجتماعی طور پراسلام کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔نفرت اور اخلاص کی کمی کے باعث پاکستان مین آج بھی وہ ماحول پیدا نہیں ہو سکا جس کے لیے یہ خطہ معرض وجود میں آیا۔اللہ اور اللہ کے نبی سے محبت کا درس دینے والے دینی ادارے اتنا عرصہ گزر جانے کے باوجود بھی نہ جانے لوگوں کی ایسی تربیت کرنے میں کیوں کامیاب نہیں ہو پائے جس کو بنیاد بنا کر لوگ نظریاتی نہیں بلکہ عملی طور پرقرآن اور اسویٰء حسنیٰ پر عمل کر کے اللہ اور اللہ کے رسول سے اپنی محبت کا اظہار کر سکیں صرف باتیں کر کے اور اختلافی نظریات پیدا کر کے ہم اللہ اور اللہ کے رسول کے دوست ہونے کا دعویٰ کیسے کر سکتے ہیں۔جبکہ ہمارے درمیان اخوت اور بھائی چارہ سرے سے موجود ہی نہ ہو۔ شیخ رشید احمد نے ایک نہائیت اہم بات کی  نشاندہی کی ہے جسے ہم پس پشت نہیں ڈال سکتے۔آج پاکستان پر جن قوتوں کا قبضہ ہے میرے  ان کے بارے میں یہاں لکھنے کی ضرورت نہیں۔   1971کے انتخابات میں ذولفقار علی بھٹو کی پارٹی صرف  سینتیس فیصدووٹ لے کر کامیاب ہو گئی جبکہدینی جماعتیں   63 فیصد ووٹ  لیکر آپس میں اتحاد نہ ہونے کے باعث کھسیانی بلیاں بنی رہیں۔آج کے حالات ان کے لیے لمحہء فکریہ ہیںاگر انہوں نے بھی ماضی سے سبق نہ سیکھا تو تاریخ خود کو دہرائے گی۔سو پھر وہ منہ دیکھتے رہ جائیں گے۔خدا را وقت کی نزاکت کو سمجھیں یکجان ہو کر  ملک اور قوم کے ساتھ انصاف کیجیے۔اگر خدا نے سچائی کا راستہ دکھاتے ہوئے آپکو وہ مقام دیا ہے جہاںسے آ  پ دوسروں کی تربیت کرتے ہوئے انہیں وہ راستہ دکھا سکیں  تو اپنی حیثیت کو پہچانیے۔لوگوں کی رہبری کرتے ہوئے ان کے اخلاق کی تربیت کیجیے کہ جس نبی پاک کے اخلاق کا ذکر کرتے ہوئے ہماری زبانیں نہیں تھکتیںانہوں نے اپنے اخلاق سے ہی دنیا فتح کی تھی۔اپنا وقت ایک دوسرے کو فتح کرنے کے بجائے اپنے عمل سے لوگوں کو وہ طریقہ سکھایئے جس کے زریعے سرور کائنات  نے دنیا تسخیر کی تھی۔خدا وند تعالیٰ ہم سب کو ان باتوں کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔

اپنا تبصرہ لکھیں