اردو کی اینگلو انڈین شاعرات


کراچی سے
راشد اشرف

اردو کی اینگلو انڈین شاعرات
بشکریہ سیف قاضی

( یہ مضمون میں ہما کے اردو نمبر سے نقل کر رہا ہوں جو اپریل 1972 میں منظرعام پر آیا تھا۔ مین نے پورا مضمون جوں کا توں نقل کرنے کی کوشش کی ہے کاتب کی غلطی سے اگر اشعار ساقط الوزن ہوں تو مجھے معذور سمجھا جائے۔) – سیف قاضی

اردو زبان کی ترقی وتریج میں ہندوں ، مسلمانوں اور سکھوں ہی کا نہیں بلکہ عیسائیوں کا بھی حصہ ہے اگرچہ اس دور میں اردو کے عیسائی شاعر اور ادیب بہت کم نظر آتے ہیں۔ مگر اب سے 70- 80 برس قبل نہ صرف عیسائی یا اینگلو انڈین یورپین مرد ہی ارد وشاعری کے میدان میں موجود تھے بلکہ خواتین بھی تھیں۔ چنانچہ ان میں سے بعض مشہور خواتین کا مطبوعہ کلام بھی ملتا ہے ان میں سے چند شاعرات کا حال درج ذیل ہے۔

ملکہ جان ملکہ

ملکہ جان ایک آرمینی خاتون تھی اپنے زمانہ کی ایک بہترین رقاصہ اور موسیقار ۔۔ کلکتہ میں مقیم تھی اور ” مخزن الفت ملکہ” کے نام سے اس نے اپنا دیوان بھی شائع کیا تھا ۔ یہ دیوان محمد وزیر ، مالک این پریس نے شائع کیا تھا۔ یہ دیوان 108 صفحات پر مشتمل ہے ار اس میں 106 غزلیں ہیں ، اس میں گیت ٹھمریاں وغیرہ بھی شامل ہیں۔ ملکہ شاعری میں حکیم بانو صاحب ہلال کی شاگرد تھیں۔ مشاعروں میں بھی شرکت کرتی تھیں اور اپنے یہاں بھی مشاعرے منعقد کرتی تھیں۔ چنانچہ اس سلسلے میں وہ کہتی ہیں

مملو ہے آج بزم سخن موج شعر سے
ملکہ ہے جش رحمت پرردگار کے
ملکہ و ہ مجمع شعرا اور لطف شعر
قربان میں عنایت پروردگار کے

ملکہ کے دیوان کی ایک جلد برطانیہ کے عجائب گھر میں رکھی ہوئی ہے۔ حمد میں کہتی ہیں
،
دیکھا جسے وہ شاغلِ حمدِ غفور ہے
نغمہ یہی سنا ہے چمن مین ہزار کا
ملکہ ہے جس کے ورد زبں نام کبریا
صدمہ نہ ہوگا اس کو لحد کے فشار کا
غزل کے چند مختلف اشعار یہ ہے
اپنی حیرت کی کوئی شکل بنالوں تو کہوں
سامنے آئینہ سازوں کو بٹھا لوں توکہوں
دلِ صد چاک پہ ائے جان جہاں فرقت میں
کیا گزرتی ہے ذرا ہوش میں آ لوں تو کہوں

مختلف اشعار

کیا جفا و ظلم کا ملکہ ترے شکوہ کریں
جو کیا جان جہاں بہتر کیا اچھا کیا
جگر ملکہ کا اور فرقت کے صدمے
خط تقدیر میں یونہی لکھا تھا
ملکہ اسی طرح جو تصور بندھا رہا
ہوگی نصیب ان کی زیارت تمام رات

اینی بلاکر ملکہ

اینی بلاکر کلکتہ کے سپرٹنڈنٹ مسٹر بلاکر کی لڑکی تھی ملکہ تخلص کرتی تھی ہندستانی موسیقی میں بھی مہارت رکھتی تھی بنگال کے ایک ڈپٹی کلکٹر عبدالغنی ناسخ شاعری میں اس کے استاد تھے
دو شعر یہ ہے
ہوگئی نیند بھی ہمسایہ کوتا صبح حرام
میں نے نالہ جو کسی رات سرِ شام کیا
آہ و زاری نہیں سنتا بخدا راتوں کو
اس صنم کو ملکہ نے ہی مگر رام کیا

مس سارہ پری:

مس سارہ پری کلکتہ کی ایک آرمینین خاتون تھی۔ پیشہ کے لحاظ سے رقاصہ تھی اردو ، فارسی ، انگریزی اور کسی قدر عربی بھی جانتی تھی۔
نمونہ کلام

عشق میں بیتاب کیوں ہیتجھ کو اے دل کیا ہوا ؟
کیوں تڑپتا ہے برنگ مرغ ِ بسمل کیا ہوا ؟
غیر سے ملنا بھی چھوڑا ہے نہ چھوڑیں گے کبھی
اے پری شکوہ کیا تونے تو یا حاصل ہوا؟

ہے رخِ غیرت قمر کی تلاش
شب گیسو کو ہے سحر کی تلاش
جو اذیت ہے دل کو راحت ہے
عشق میں دل کو ہے ضرر کی تلاش

مس بلیک خفی :

مس بلیک کا تخلص خفی تھا ۔ ہندوستانی نام بادشاہ بیگم تھا او ریوسف والی کے نام سے مشہورتھی اردو فارسی خوب جانتی تھی اور بہت زیادہ خوشنویس بھی تھی۔ شعر و شاعری میں بڑی مہارت رکھتی تھی اور وسروں کے اشعار کی اصلاح بھی دیا کرتی تھی۔

نمونہ کلام
خود شوق اسیری سیپھنسے دام میں صیاد
شرمندہ ترے ایک بھی دانے کے نہیں ہم

مس شریر
:
مس فلورا سارکس پورا نام تھا ، شریر تلص کرتی تھی۔ رام پور آئیں تو یہاں آکر اختر جہاں بیگم کے نام سے مشہور ہوئی۔ منا صاحب کی شاگرد تھی۔ رشک رامپوری کی ایک غزل پر تضمین ملتی ہے جس کا ایک بند یہاں دج کیاجا رہا ہے۔

یہ جو ہے ملنے میں عار، دیکھیے کب تک رہے
دشمن جاں وہ نگار، دیکھیے کب تک رہے
قلب میں اس کے غبار دیکھیے کب تک رہے
غیر کا یہ اعتبار دیکھیے کب تک رہے

مس ڈیر کانپور

نمونہ کلام
کٹی کب زندگی میں سختی، سردِ رواں میری
چڑھا کر دار پر تونے اتاریں چوڑیاں میری
مثال طائر رنگِ حنا ہوں اے ڈیر میں بھی
نہیں صیاد کو معلوم جائے آشیاں میری۔

اپنا تبصرہ لکھیں