ادشاہ کی نیند

بادشاہ کی نیند
abrar ahmed

<abrarahmed.chow@gmail.com>

18. des.

بادشاہ کی نینداعتبار ساجدبادشاہ سلامت کو نیند نہیں آتی تھی۔ کئی حکیموں، جوتشیوں اور سنیاسیوں سے رجوع کیا لیکن افاقہ نہ ہوا۔ نیند نہ آتی، بیٹھے ایک ٹک درودیوار کو گھورتے رہتے۔ آنکھیں لال، چہرہ ویران، جسم نڈھال۔ کبھی چھینک رہے ، کبھی کھانس رہے ، کبھی بڑبڑا رہے اور کبھی دانت کچکچا رہے ہیں۔ محل کے ملازمین، امرا ، رسا اور صاحبانِ دربار کی شامت آئی ہوئی تھی۔ سب بادشاہ سلامت کے ساتھ جاگنے پر مجبور تھے جبکہ ملکہ الگ پریشان تھی۔ شاہی حکیم الگ پریشان تھے۔ چہرے فق اور رنگ اڑے ہوئے۔ جسے دیکھو تصویرِیاس بنا چلا آرہا ہے۔ بادشاہ جاگ رہا تھا لیکن رعایا سو رہی تھی۔ بے خوابی نے بادشاہ سلامت کا مزاج حددرجے چڑچڑا بنا دیا تھا، چنانچہ لوگ اپنے لٹنے کی فریاد لے کر دربار کا رخ نہ کرتے۔ آپس ہی میں مل بیٹھ کے سینہ کوبی کر لیتے، وہ بھی دھیمی آواز سے۔صاحبانِ دربار پر بھی بادشاہ کی شب بیداریوں کا بھرپور عکس پڑا۔ سب خوخیاتے اور دھاڑتے پھرتے تھے۔ ذرا سی بات پر تیغ و شمشیر نکلا لیتے لیکن بادشاہ سلامت کے پاس جاتے تو بھیگی بلی بن کر۔ منہ سے میائوں کی آواز بھی نہ نکالتے کہ مبادا شاہِ وقت جائیداد اور منصب کی ضبطی اور زن و بچہ کوہلو میں پلوانے کا فرمان جاری کر دے۔ امورِسلطنت کے معاملے میں بادشاہ پہلے نرم دل مشہور تھا۔ نیند اڑی تو رحم دلی اور کشادہ ظرفی بھی ہوا ہوئی۔ جو بات کرتا، تلخ لہجے میں، جو فرمان لکھواتا، سنگین زبان میں۔ کسی کے منصب و مرتبے کی پروا نہ کرتا، کسی سے میٹھے بول نہ بولتا۔ حد تو یہ ہے کہ ملکہ کو بھی ملک عالیہ کے بجائے نی کاکے دی ماں، نی چھیداں کہہ کر پکارتا۔ مقربینِ خاص یعنی قریبی خوشامدیوں کو اوئے توئے اور توں تڑاک سے مخاظب کرتا۔ صاف ان کے منہ پر کہہ دیتا اوئے تم سے تو میرے گھوڑے اچھے۔ خوشامدی مصاحب کھسیانی ہنسی ہنستے تو اور جھنجھلا اٹھتا۔ مٹھیاں بھینچ کر کہتا بندے کے پتر بنو اوئے، ورنہ بتیسی نکلوا کر ہاتھ پر رکھوا دوں گا۔سب سے زیادہ افتاد مگس رانی اور مورچھل برداری کرنے والی خادمائوں پر پڑی۔ بے چاری اپنی جگہ سے ہل نہیں سکتی تھیں۔ مورچھل ہلانا اور مگس رانی کرنا ان کا ہمہ وقت فرض تھا۔ ذرا سی بھی غفلت موت کو دعوت دینے کے مترادف تھی۔ ایک دن کرنا خدا کا کیا ہوا کہ جاگتے جاگتے بادشاہ کو محل کی چھت پر سیر کرنے کی سوجھی۔ جملہ لائو لشکر کے ساتھ چھت پر پہنچا تو کیا دیکھتا ہے کہ محل تو خوب جگمگ جگمگ کر رہا ہے البتہ شہر تاریک پڑا ہے۔ کہیں کہیں دھندلی روشنی نظر آتی ہے، وہ بھی ڈوبتی اور معدوم ہوتی ہوئی۔ گویا سارا شہر بادشاہ کی بے خوابی سے بے نیاز مزے سے سو رہا ہے۔یہ دیکھ کر پیشانی پر بل پڑ گئے۔ کوتوال شہر کی گردن پر تلوار لگا کر بولا کیوں اوئے بجر بٹو، دیکھ رہا ہے شہر کا حال دیکھ رہا ہوں عالی جاہ، غریب پرور، بندہ نواز کوتوال ضربِ شدید سے کراہتے ہوئے بولا۔ حد ہو گئی نمک حرامی کی۔ بادشاہ نے دانت پیس کر کہا۔ شاہِ وقت تو ساری ساری رات جاگ کر گزار دے اور یہ کمبخت رعایا پائوں پھیلا کر آرام سے سوتی رہے۔کوتوال اور داروغہ کو تھر تھر کانپتے دیکھ کر بادشاہ مزید جلال میں آگیا۔ دنادن ان کی کھوپڑیوں پر عصائے شاہی سے وار کیے اور اسی وقت فرمان جاری کردیا کہ آج سے رعایا کا سونا موقوف۔ جب تک بادشاہ کو نیند نہ آئے کوئی شخص سو نہیں سکتا، اپنے گھر کا دیا نہیں بجھا سکتا۔ ہر طرف روشنی رہنی چاہیے خلاف ورزی کی سزا موت ہے۔ساتھ ہی شاہی کارندوں کو حکم ملا کہ وہ غروبِ آفتاب سے طلوعِ آفتاب تک ہر گلی اور ہر کوچے میں ڈھول بجاتے رہیں۔شہنائیاں اور توتنیاں بجائیں تاکہ کسی کو نیند نہ آنے پائے۔ مخبروں کی تنخواہوں میں اضافہ کرکے انھیں اس کام پر لگا دیا کہ اونٹ یا ہاتھی پر سوار ہو کر گلی کوچوں میں پھریں۔ مختلف گھروں میں جھانک کر دریافت کریں کہ گھر میں کل کتنے افراد ہیں۔ کتنے سو اور کتنے جاگ رہے ہیں۔ جاگ رہے تو کیا کر رہے ہیں۔عبادت کر رہے ہیں کہ سازش۔ باتیں کر رہے ہیں تو کس موضوع پر اور بات کہاں تک پہنچی ہے۔یہ سلسلہ شروع ہوا تو رعایا بلبلا اٹھی۔ مگر فریاد کس سے کرتی، یہ سب کچھ تو بادشاہ کے فرمان کے عین مطابق تھا اور زمان قدیم سے یہ دستور چلا آتا ہے کہ بادشاہ فرمان تو جاری کر سکتے ہیں، منسوخ نہیں، کیونکہ اس میں ان کی سبکی ہوتی ہے۔ ان کی معاملہ نافہمی اور بدانتظامی کا پول کھلتا ہے۔ بادشاہ اپنا پول کھلوانا پسند نہیں کرتے لہذا دوسروں کے سر کھلوا دیتے ہیں۔ پرچہ نویسوں نے بادشاہ سلامت کو اطلاع دی کہ رعایا شاہی فرمان کے مطابق جاگ تو رہی ہے مگر بڑی بیزاری اور بے دلی کے ساتھ۔ لوگ سہمے انداز میں باتیں کرتے ہیں۔ ان کے پاس گفتگو کے موضوعات ختم ہو چکے لہذا بات آگے بڑھانے اور وقت گزارنے کے لیے آپس میں اس طرح بات چیت کرتے ہیں:اور سنائو کیا حال ہے؟اللہ کا فضل ہے۔ تم سنائو۔اِدھر بھی اللہ کا فضل ہے۔ تم سنائو۔اللہ کا لاکھ کرم ہے۔ تم سنائو۔اللہ کا احسان ہے۔ تم سنائو۔یہ سلسلہ گھنٹوں جاری رہتا ہے اور بسا اوقات تم سنائو، تم سنائو میں رات بیت جاتی ہے۔ دن بھر لوگ جمائیاں لیتے ہیں۔ ان حالات سے بادشاہ اور برہم ہوا۔ فرمانِ شاہی جاری ہوا کہ لوگ دن کو کسی کام میں بیزاری یا بے دلی کا مظاہرہ نہ کریں۔ حکم عدولی کی سزا موت ہے۔اس فرمان کی تکمیل میں لوگ دن کے چین سے بھی گئے۔ لیکن فرمان بہرحال حکم شاہی تھا، سر جھکاتے ہی بنی۔ اس قسم کے فرمان کے جہاں نقصانات وہاں فائدے بھی ہوتے ہیں۔ سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ لوگ چوروں، ڈاکوئوں سے محفوظ ہو گئے۔ سب جاگ رہے ہوں تو کسی کی کیا مجال کہ گھر میں نقب لگا جائے؟ چوروں، ڈاکوئوں اور نقب زنوں کے گلشن کا کاروبار ٹھپ ہوگیا۔ اب تو وہ ڈاکو حضرات بھی بہت پریشان ہوئے ۔ چپکے چپکے آپس میں صلاح مشورے شروع کیے ۔آخر مجرمین کی سب سے بڑی تنظیم نے ایک ویران علاقے میں آدھی رات کو اپنا اجلاس منعقد کیا۔ سلطنت کی صورتِ حال اور رعایا کے بر وقت بیدار رہنے پر تشویش کا اظہار ہوا۔بڑے غوروخوص کے بعد طے پایا کہ مسئلہ کا واحد حل یہ ہے کہ کسی طرح بادشاہ کو نیند آجائے۔ اسے جب بھی سکون کی نیند ملی، تو آہستہ آہستہ اس کے اعصاب معتدل ہوجائیں گے۔ عوام بھی سکھ کا سانس لیں گے، شاہی فرامین بھی خودبخود غیرمثر ہو جائیں گے۔ تین بڑے چوروں نے اس کام کے لیے خود کو رضاکارانہ طور پر پیش کیا۔ لائحہ عمل یہ طے پایا کہ وہ جوگیوں اور سنیاسیوں کے روپ میں دربار تک رسائی حاصل کریں اور بادشاہ کو خواب آور دوائوں کا عادی بنائیں۔ تاکہ بادشاہ زندہ بھی رہے، کھائے پیئے، تاج پہنے، تخت پر بیٹھے اور امورِسلطنت سے غافل بھی ر ہے۔قصیدہ گو شاعروں، جھوٹے سنیاسیوں، جعلساز نجومیوں اور سفیدپوش ڈاکوئوں کے لیے کسی بادشاہ کے دربار تک رسائی حاصل کرنا کچھ مشکل نہیں۔ بادشاہ تک پہنچنے کے جتنے مراحل آتے ہیں، ان سب کو عبور کرنا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے کیونکہ دایاں ہاتھ یہ ہمیشہ اپنی جیب میں رکھتے ہیں۔ چنانچہ تینوں بڑے چور مختلف رکاوٹیں عبور کرتے، مختلف مراحل و منازل سے گزرتے ایک مقربِ خاص کی معرفت بادشاہ تک پہنچے۔بادشاہ اس وقت اپنی خواب گاہ میں تھا اور حسبِ مزاج و منصب برہم۔ اردگرد خاص عملے کا ہجوم تھا۔ ملکہ بھی ایک تخت پر متمکن تھی۔ مقربِ خاص نے انھیں بادشاہ کی خدمت  میں پیش کیا۔ اس وقت بادشاہ طیش کے عالم میں دانت نکوسے، مٹھیاں بھینچے شاہی کاتب کا یہ فرمان لکھوا رہا تھا: ہم دیکھ رہے ہیں کہ مابدولت کی بے خوابی کا سلسلہ دراز ہوتا جا رہا ہے اور رعایا بدبخت کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ ہمارے علم میں نہیں کہ اب تک ہماری پرسکون نیند کے لیے کوئی اجتماع منعقد کیا گیا ہو یا اجتماعی دعائیں مانگی گئی ہوں۔ عوام کی اس بے حسی، کٹھوردلی اور لاپروائی پر مابدولت کے علاوہ ملک عالیہ بھی برہم ہیں۔ لہذا حکم دیا جاتا ہے کہ اگر ہماری بے خوابی کا سلسلہ مزید دراز ہوا تو کل سے پچاس مردوزن کو پھانسی دی جائے گی۔ پھانسی پانے والے ناموں کا فیصلہ بذریعہ قرعہ اندازی ہوگا۔تھرتھر کانپتا ہوا شاہی کاتب لکھ رہا تھا، پسینہ بھی پونچھ رہا تھا۔ پسینے کا ایک قطرہ ٹپ سے فرمانِ شاہی پر بھی گرا۔ بادشاہ نے دیکھ لیا۔ اسی وقت حکم صادر ہوا۔ اس پانی کے بلے کو لے جا کر نہر میں غوطے دیے جائیں اور پھر شاہِ مگرمچھوں کی ضیافت کا اہتمام کیا جائے۔ اس پر واہ واہ اور سبحان اللہ کا شور مچ گیا۔ سب نے فرطِ مسرت سے نتھنے پھلا اور ہاتھ لہرا کر بادشاہ کے عدل کی داد دی کہ انسانوں کے علاوہ انھیں حیوانوں کی خوراک کا بھی کتنا خیال رہتا ہے۔بادشاہ اس دادوتحسین کے غلغلے سے بباطن حددرجے خوش ہوامگر بظاہر سوکھا منہ بنا کر بولا اوئے چمچو، کڑچھو، باز آجائو۔ اسی وقت مقربِ خاص نے تینوں جعلسازوں کو بادشاہ کی خدمت میں دھکیلا کہ حضور عالی جاہ، یہ تین سنیاسی کوہ ہمالیہ سے عالی جاہ کے علاج کے لیے حاضر ہوئے ہیں۔  تینوں چور کورنش بجا لائے۔بادشاہ نے تینوں کو سر سے پائوں تک گھور کر دیکھا۔ غضب ناک لہجے میں بولا ہمارا علاج کیا مطلب۔ ہم بیمار کب ہیں۔ اس قسم کی افواہیں اڑانے پر مقربِ خاص کی مناسب گوشمالی کی جائے۔ سپاہی مقربِ خاص کی گردن ناپنے آگے بڑھے ہی تھے کہ ایک چور نے ہمت سے کام لے کر کھنکھار کر گلا صاف کیا اور پھر خشک ہونٹوں پر زبان پھیر کر بولا عالی جاہ، حضور، انصاف پرور، بیمار ہوں آپ کے دشمن۔ ہم تو صرف سلام کرنے حاضر ہوئے تھے۔ تحفے کے طور پر ایک عرقِ خاص لائے ہیں۔عرقِ خاص پیش کیا جائے۔ بادشاہ نے کچھ توقف کے بعد حکم دیا۔ تینوں چوروں نے جلدی سے ایک بقچی کھولی۔ چاندی کا ایک پیمانہ اور لبالب بھری شیشے کی ایک نازک سی صراحی نکالی۔ ایک چور نے پیمانہ بھر کر دونوں ہاتھوں پہ رکھ کر سر جھکا بادشاہ کی خدمت میں پیش کیا۔بادشاہ نے وہ پیمانہ نہیں لیا، اپنا خاص شاہی پیمانہ منگوایا۔ بولا زمان قدیم سے بادشاہوں کو زہر دینے کا فیشن چلا آتا ہے۔ ہم نہیں چاہتے کہ ہمارے ملک میں بھی یہ فیشن فروغ پائے۔ لہذا آزمائش اور احتیاط لازم ہے۔ یہ کہہ کر تینوں چوروں کو حکم دیا کہ سب سے پہلے وہ باری باری اپنا کشیدکردہ عرق نوش کریں، اس کے بعد بادشاہ کوئی فیصلہ کریں گے۔ چوروں نے دزدیدہ نظروں سے مقربِ خاص کو دیکھا جو دیوار کی طرف دیکھتے ہوئے کان کھجا رہا تھا۔ پھر ہائے ظالما، مروادِتا کہہ کر طوہاوکرہا باری باری عرقِ خاص نوشِ جان کیا۔ کچھ دیر تک تو وہ دیدے پٹپٹاتے، پلکیں جھپکتے، عجیب عجیب سے منہ بناتے رہے۔ پھر شاہی قالین پر لم لیٹ ہوگئے اور جلد ہی خراٹے لینے لگے۔بادشاہ نے تینوں کو شاہی مہمان خانے میں بھجوا کر تخلیہ طلب کیا اور پھر شاہی پیمانے میں عرق نوش فرمایا۔ اس سے پہلے احتیاطا ملک عالیہ سے کہہ دیا اگر خدانخواستہ ہمیں کچھ ہو جائے تو فورا امورِ سلطنت سنبھال لینا اور اپنی تخت نشینی کا اعلان کردینا۔ غم میں آنسو بہانا اور شادی ذرا دیکھ بھال کر کرنا۔ عشق و واشقی سے بھی پرہیز لازم ہے کہ اس میں جاہ و منصب کی مٹی پلید ہوتی ہے۔یہ کہہ کر عرقِ خاص نوش فرمایا اور یہ کہتے ہوئے بسترِشاہی پر دراز ہوگیا۔اب تو جاتے ہیں میکدے سے میر پھر ملیں گے اگر خدا لایاچند لمحوں بعد بادشاہ کے خراٹے سے خواب گاہِ شاہی کے درودیوار گونجنے لگے۔ بادشاہ کو اتنے دنوں بعد نیند آئی تھی اور وہ بھی ایسی جس کے خراٹے فلک شگاف ہوتے ہیں۔ مارے خوشی کے ملکہ نے شہر بھر میں منادی کرادی کہ بادشاہ سلامت کو بالآخر نیند آگئی ہے۔ اب رعایا کے سونے جاگنے پر کوئی پابندی عائد نہیں۔ جس کا جی چاہے جاگے، جس کا جی چاہے سوئے۔لیکن اس اعلان کا رعایا پر کوئی خاص اثر نہیں ہوا۔ سب اس ڈر سے جاگتے رہے کہ نجانے کب بادشاہ کی آنکھ کھل جائے اور ایک مرتبہ پھر اس پر شب بیداری کا دورہ پڑ جائے۔ ایسے لمحوں میں اگر رعایا سو گئی تو معلوم نہیں جاگنے والا بادشاہ ان کے ساتھ کیا سلوک کرے۔ کیونکہ بادشاہوں کا سلوک ان کے موڈ پر منحصر ہوتا ہے۔اسی خوف سے رعایا نے پلکیں تک نہیں جھپکیں۔اب تک رعایا جاگ رہی ہے اور بادشاہ سو رہا ہے  کیونکہ زمان قدیم سے یہ دستور چلا آتا ہے کہ تخت و تاج کے مالک کا چین و آرام ہر شخص کے آرام و سکون پر مقدم ہے۔ کوئی بددماغ یا سر پھرا اس

اپنا تبصرہ لکھیں