اخبار مبارک

باعث افتخار

انجینئر افتخار چودھری
ایشین نیوز کو پاکستانی اخبارات کے ہجوم میں خوش آمدید۔سردار الیاس خان،سردار تنویر الیاس سے ایک مدت سے یاد اللہ ہے۔اس فیملی نے پاکستان کے دل اسلام کو ایک اور دل بھی دیا سینٹوریس اسلام آباد کی پہچان بن گیا ہے۔پاک سعودی دوستی کی مثال اس عمارت سے کشمیریوں کی اسلامی جمہوریہ پاکستان سے محبت جھلکتی ہے۔میں ایک اور خوشبو کو خوش آمدید کہتا ہوں۔برادر عبدالودود قریشی کی خواہش تھی کہ میں ایشین نیوز کے دفاتر کو دیکھنے آؤں۔دوست کوئی بلاوا بھیجے تو کچے دھاگے سے بندھے چلے آنا تو ایک رسم ہے ہم دل سے دل کے اشاروں کو سمجھتے ہیں۔خوبصورت عمارت کے ایک فلور پر قائم ایشین نیوز کے عملے کو کام کرتے دیکھا بہت سے چہرے آشنا تھے۔بے جی کہا کرتی تھیں کہ جوان اور گھوڑے کا کوئی دیس نہیں ہوتا لیکن آج کے دور میں ثابت ہوا کہ صحافی کا کوئی مستقل ٹھکانہ نہیں ہوتا میں نے گزشتہ بارہ سالوں میں صحافیوں کو ایک سے دوسری جگہ جاتے دیکھا ہے۔اللہ کرے دوستوں کا یہ بہتر ٹھکانہ ہو۔آج ربیعہ بھی میرے ساتھ تھیں ۔میں نے اپنی بیٹی سے پوچھا کہ بتائیں اگر آپ کو کالم لکھنا پڑ جائے تو کیا موضوع چنیں گی۔اس نے برملا کہا کہ میں نوجوان لوگوں کے لئے نوکریوں پر لکھوں گی میں لکھوں گی کہ نوجوانوں کو ان کی تعلیم کے مطابق نوکری کیوں نہیں ملتی۔یہ ادارے خرکار کیمپ کیوں بن جاتے ہیں ۔کسی زمانے میں ورکشاپوں میں لگے چھوٹو ہوا کرتے تھے جو مفت کام سیکھنے جایا کرتے تھے انہیں سوائے روٹی کے کچھ نہیں ملتا تھا۔ربیعہ کی طرح بے شمار نوجوان بچیاں اور بچے یہی گلہ کرتے نظر آتے ہیں۔سولہ سال پہلے جب سعودی عرب سے واپس پاکستان آیا تو تو وکیشنل انسٹی ٹیوٹ سے فارغ ہونے والے لڑکوں کا اڑھائی ہزار روپے دیئے گئے۔میں حیران تھا ایک لڑکے نے جب یہ کہا کہ سر آپ اڑھائی ہزار روپے رکھ لیں مجھے صرف ویگن کا کرایہ اور دوپہر کی روٹی دے دیں مالکان کا بس نہیں چلتا وہ تو اس نوجوان کا خون بھی پی جاتے۔ایک دوسری کمپنی میں گیا وہاں ان لڑکوں کو مناسب تنخواہ کھانا دیا۔یہ سب کچھ ہے کیا؟انسانی حقوق کی پامالی اس سے بڑھ کر کیا ہو گی کہ ینگ ڈاکٹرز روڈوں پر رلتے ہیں۔ان سے خرکاروں جیسا سلوک ہوتا ہے۔میں نے اپنی بہو کو خون کے آنسو روتے دیکھا ارتالیس گھنٹے ڈیوٹی لی جاتی ہے۔تنخواہ نامی چیز ملتی ہی نہیں اگر ملتی بھی ہے تو اس سے کٹوتیاں کرنے والے بیٹھے ہوتے ہیں۔جگے ٹیکس دینا پڑتے ہیں۔


ایک اور محکمے کا حال سن لیجئے اس میں لوگوں کو چارٹرڈ اکاؤنٹینٹ بنایا جاتا ہے چار یا چھ سال ان کو جوتا جاتا ہے۔ڈاکٹر انجینئر اکاؤنٹینٹس،بی بی اے،ڈی اے ای،ایم بی بی ایس سب کو چار چھ سالہ رگڑا لگایا جاتا ہے۔ہم در اصل خونخوار بھیڑئے تیار کر رہے ہوتے ہیں ۔ڈاکٹر ایم بی بی ایس کرنے کے بعد دس سال تنگدستی کی زندگی گزارتا ہے ۔بعد میں جب اس کے سر کے بال سفید ہونا شروع ہوتے ہیں تو وہ ایک بے رحم قصاب کی شکل اختیار کرتا ہے۔انجینئر رشوت خور سنپولیا بن جاتا ہے،اکاؤنٹینٹ جب آٹھ دس سال چکی میں پس کر سامنے آتا ہے تو کھابے کھاتا ہے وکیل کا بھی یہی حال ہے کسی بھی چیمبر کے ساتھ منسلک ہونا کتابیں اٹھانا اور رات گئے تک بیل کی طرح مشقت کرنے کے بعد اس کی فیس آسمان کو چھوتی ہے۔
در اصل یہ بدلہ لیا جاتا ہے ۔انجینئر،ڈاکٹر اور یہ سب لوگ اس سماج سے بدلا لیتے ہیں۔ان کے ماں باپ اس تلاش میں رہتے ہیں اس آس پر جیتے ہیں کہ اب ہماری مشکلات ختم ہوں گی۔اپنے بچوں کی جانب للچائی آنکھوں سے دیکھنے والے باپ اور ان کی مائیں اس سماج میں پھیلی اس بد لحاظی اور بے انصافی کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔
پہلے غم یہ ہوتا ہے کہ کب ان کی تعلیم مکمل ہو گی کب ان کی نوکری لگے گی نوکری کے ساتھ ہی ان کو دیساں کا راجہ بنایا جاتا ہے ۔اور یہ راجے رانیوں کے ہو کر ماں باپ کو خیرات بانٹتے ہیں۔
معاشرے میں پھیلے اس ظلم کو ختم کرنا ہو گا۔نئے لوگوں کو اچھا سلوک دو تا کہ وہ جب خود پرانے ہو جائیں تو معاشرے کو کچھ بہتر دے سکیں۔
ورکشاپ کے چھوٹے جب استاد بنتے ہیں تو وہ بیگار لیتے ہیں۔اس ملک میں اگر مزدور کی کم از کم تنخواہ پندرہ ہزار روپے ہے تو کسی بی بی اے کی تنخواہ پینتالیس ہزار سے کم نہیں ہونا چاہئے۔کسی کو باوقار زندگی کا حق دیجئے کوئی ویگنوں بسوں پر لٹکنے کی بجائے آپ کے پاس کسی گاڑی میں معززز طریقے سے آنا چاہتا ہے تو اسے پٹرول کا خرچ دیجئے ڈراؤر کی تنخواہ دیجئے۔ان بیگار کیمپوں سے نکلنے والے محروم لوگ اس معاشرے کا کار آمد شخص کیسے بن سکتے ہیں۔
اس کی تنخواہ سات ہزار روپے تھی گھر میں ماں بیمار اور بہن بھائی سکول جایا کرتے تھے وہ ایک معمولی چوری میں پکڑا گیا۔اس کی ماں مالک کے قدموں میں گر گئی اسے معاف کر دیں اس نے میری دوائی خریدنی تھی پیسے نہیں تھے اس نے چوری کر لی۔میں کسی صورت چوری کو جائز نہیں قرار دینا چاہتا لیکن کبھی آپ نے سوچا ہے کہ اپنی تجوریاں بھرنے والے حرام خور ہر سال ٹمی نکالے سات بچوں کے ساتھ واپسی پر عجوہ بانٹتا ہے تو لوگ سوال کرتے ہیں کہ یہ بخشا گیا جو اپنے ملازم کو صبح شام گالیوں سے نوازتا ہے۔
معاشرتی اتار چڑھاؤ کمی بیشی کو دور کیجئے۔اپنی پریشانیاں تو تقسیم کرتے ہو اپنی خوشیاں بھی بانٹو۔
ستائش باتوں سے نہ کریں غریب کو شاباش دینے کی بجائے اس کی جیب میں سو دوسو ڈالو۔اس کی تنخواہ بھی بڑھاؤ جس نے تمہارے بینک اکاؤنٹ بڑھائے ہیں۔
آج کا کالم ایشین نیوز کے لئے خصوصی کالم تو تھا ہی اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے دل کی بھڑاس نکالی ہے۔سردار فیملی نے اب صحافتی دنیا میں قدم رکھا ہے۔مجھے پوری امید ہے اپنے ساتھ جڑی ہوئی عزت اور شرافت کی پاسداری کرتے ہوئے اپنے ساتھ منسلک لوگوں کی زندگیاں بھی بدلیں۔عرب کے شیخوں نے جہاں محنت کش سردار الیاس کی زندگی کی بدلی ہے۔میری دعا ہے یہ التمیمی گروپ کے پارس پتھر سے مس ہونے کے بعد سونا بنے ہیں تو ان سے جڑے ہوئے لوگ بھی منفعت پائیں گے۔میں نے تمام عمر نوکری کی جس دن مالک یا مینجر ہنس کے دیکھ لیتا وہ دن عید کا بن جاتا تھا۔مزدور کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اگر انہیں مزدوری مل جائے تو کاروبار حصول جنت کا ذریعہ بن جاتا ہے۔اخباری دنیا میں بد قسمتی یہ ہے کہ لوگ اجرتوں کے لئے در بدر ہو جاتے ہیں ۔اللہ تعالی اس ادارے کے کارکنان اور مالکان کو سلامت رکھے۔ایک بار پھر مبارک باد بلکہ اخبار مبارک۔

اپنا تبصرہ لکھیں