احادیث نبوی۔ ایک نازک معاملہ عارف محمود کسانہ

arif kisana 1
احادیث نبوی۔ ایک نازک معاملہ عارف محمود کسانہ

ایک بہت ہی اہم اور نازک معاملہ پر لکھنے کی جسارت کررہا ہوں۔ اسے ایک علمی معاملہ کے تناطر میں ہی دیکھنا چاہیے۔ آج کل سوشل میڈیا پر رسول اللہۖ سے منسوب بہت سی روایات پیش کی جاتی ہیں جن پر کئی احباب سوالات بھی اٹھاتے ہیں۔
احادیث کے بارے میں مسلم علماء میں تین قسم کی آرا ء موجود ہیں۔ ان تینوں کا جائیزہ لینا بہت ضروری ہے۔
١۔حدیث کی کتابوں میں موجود تمام احادیث باکل درست ہیں اور وہ واقعی ہی حضورۖ کے الفاظ ہیں اور اُن سب کا ماننا لازمی ہے اور ان میں سے ایک کا بھی انکارکفر ہے اس لیے کسی ایک حدیث کا بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔ حدیث بھی وحی خدا کے برابر ہیں کیونکہ حضورۖ نے جو بھی فرمایا ہے وہ سب وحی ہے۔ حضورۖ کی پیروی انہی احادیث پر عمل کرکے ہی ہوسکتی ہے۔ اس لیے مجموعہ احادیث میں جو بھی حدیثیں لکھ دی گئیں ہیں وہ سب کی سب درست ہیں اور کسی ایک حدیث بھی کو بھی ترک نہیں کیا جاسکتا اور سکی ایک حدیث کو بھی نہ ماننے والے کو منکر حدیث کہا جائے گا۔حدیث کا منکر در اصل قرآن کا بھی منکر ہے اور ایسا شخص مسلمان نہیں ہوسکتا۔احادیث کے بغیر ہم نماز اور دوسری عبادات بھی نہیں کر سکتے۔ حدیثیں مرتب کرنے والوں نے بہت محنت سے یہ کام کیا تھا۔
٢۔ ہمیں کسی بھی حدیث کی کوئی ضرورت نہیں۔ اگر احادیث اتنی ہی ضروری ہوتیں تو حضور ۖ انہیں اپنی زندگی میں ضرور لکھوا جاتے لیکن رسول اللہ نے اپنے دور میں احادیث نہیں لکھوائیں بلکہ لکھنے سے منع کیا تھا اور کہا کہ کیا قرآن کے ساتھ ایک اور قرآن لکھا جائے گا۔ خلفاء راشدین نے بھی یہ کام نہیں کیا بلکہ انہوں نے لکھی ہوئی احادیث کو جلانے کا حکم دیا۔رسول اللہ ۖ کے دو ڈھائی سو سال بعد زبانی روایات کی مدد سے مرتب ہونے والی کتابوں کو کسیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ حضورۖ نے کہا ہوگا۔ احادیث سے مسلمانوں میں انتشار بڑھا ہے اور اسی کی بنیاد پر ہر فرقہ اپنے آپ کو سچا اور دوسرے کو جہنمی قرار دیاتا ہے۔ایک فرقہ ایک حدیث کو مانتا ہے تو دوسرا اس کا انکار کرتا ہے۔ تحریری صورت میں حضورۖ صرف قرآن امت کے لیے چھوڑ کرگئے اس لیے ہیں قرآن کے علاوہ کسی بھی اور چیز یا احادیث کی ضرورت نہیں۔حضورۖ نے اپنی زبان مبارک سے اپنے آخری خطبہ میں امت پر واضع کردیا اور فرمایا کہ میں تمہارے درمیان ایک ایسی چیز چھوڑے جا رہا ہوں کہ تم کبھی گمراہ نہیں ہوں گے، اگر اُس پر قائم رہے۔ وہ ہے کتاب اللہ یعنی قرآن مجید۔
٣۔ احادیث کے مجموعہ میں دونوں طرح کی یعنی غلط اور صحیح روایات موجود ہیں۔ ان کتابوں میںبہت سی احادیث درست ہیں اور بہت سی ایسی بھی ہیں جنہیں پڑھ کر لگتا ہے کہ رسول اللہۖ یہ نہیں کہہ سکتے اور یہ حدیث نہیں ہوسکتی۔ لہذا احادیث کی تمام کتابوں میں نہ تو سب حدیثیں غلط ہیں اور نہ ہی سب درست ہیں۔ چونکہ احادیث کی کتابیں رسول اللہ کے بعد دو ڈھائی سو سال کے عرصہ کے بعد لکھی گئیں اس لیے یہ ممکن ہے کہ کہنے سُننے اور لکھنے میں کچھ بھول چوک ہوگئی ہو اس لیے احادیث کی کتابوں میں ایسی روایات کا ہونا ممکن ہے جو رسول اللہ نے نہ کہی ہوں۔ احادیث بیان کرنے والے جب بھی کوئی حدیث بیان کرتے ہیں تو پہلے یہ الفاظ کہتے ہیں کہ قال رسول اللہ او کما قال رسول اللہ یعنی رسول اللہ نے فرمایا یا جیسے انہوں نے فرمایا۔ مطلب یہ کہ روایت کرنے والے کو خود یقین نہیں ہے کہ یہ الفاظ رسول اللہ ۖنے کہے تھے۔یہ اوایات د ر اصل اقوال منسوب الی الرسول یعنی حضور ۖ کی طرف منسوب الفاظ ہیں۔ علماء اور محدثین کسی بھی حدیث کو ایسے ہی نہیں قبول کرلیتے بلکہ اس پر پہلے بحث ہوتی ہے۔ اس کے لیے حدیث کو دو حصوں روایت اور متن میں تقسیم کرتے ہیں۔ اسماء الرجال کا فن وجود میں آیا جس کے ذریعہ حدیث کے راوی پر بحث ہوتی ہے اور حدیث کی درجہ بندی مرفوع، موقوف ، مقطوع ، وغیرہ کی جاتی ہے۔ پھر حدیث کے متن پر بحث کرکے حدیث کو صحیح حدیث، حسن، ضعیف، شاذ، معلل، منکر، مضطرب، مقلوب، مصحف، موضوع وضیرہ کہا جاتا ہے۔اگرتمام روایات درست ہیں تو پھر حدیثوں کی درجہ بندی اور ان پر بحث کی کیا ضرورت تھی۔ متن کے جانچنے کااصول خود رسول اللہ ۖ نے بتایا تھا جو حدیث کی کتاب مسلم میںہے کہ آپۖ نے فرمایا جب بھی مجھ سے منسوب کوئی بھی بات تمھارے سامنے آئے تو اُسے قرآن پر پرکھ لو۔ اگر وہ قرآن کے مطابق ہوگی تو میں نے کہی ہوگی اور اگر قرآن کے مطابق نہیں ہوگی تو میں نے نہیں کہی ہوگی۔ اس لیے جو حدیث قرآن کے مطابق ہو اُسے لازمی قبول کرنا ہو گا اور قرآن کی تعلیمات سے مطابقت نہ رکھتی ہو اُسے رہنے دینا چاہیے کیونکہ حضورۖایسی کوئی بات کہہ ہی نہیں سکتے تھے جو قرآن کے خلاف ہو۔ کوئی بھی ایسی روایت جس سے رسول اللہۖ یا صحابہ اکرام کی ذات پر کوئی حرف آتا ہو ، یا مسلمہ اصولوں کے خلاف ہو توہم کہہ سکتے ہیں کہ رسول اللہۖ نے ایسا نہیں کہا ہوگا یہ اُن کی طرف غلط طور پر منسوب ہے۔اگر واقعی حضورۖ نے فرمایا ہے تو کس مسلمان میں یہ جرات ہے کہ وہ یہ کہے کہ میںا سے نہیںمانتا۔
سارا مسئلہ یہ ہے کیا واقعی ہی حضورۖ نے ایسا کہا ہے ۔ ساری بحث اس پر ہوتی ہے۔
لہذا یہ کہا جاسکتا ہے کہ حدیث کی کتابوں میں جہاں بہت سے صحیح احادیث موجود ہیں وہاںغلط روایات بھی موجود ہیں
ہمارے نزدیک یہی تھرڈ آپشن ہی درست ہے۔ اور اس حوالے سے علامہ اقبال نے بہت اچھی وضاحت کردی ہے۔
حکیم محمد حسین عرشی لکھتے ہیں کہ ١٢ اپریل١٩٣٥ء کو میں علامہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا کہ اسلام بتمامہ قرآن میں مھصور ہے یا نہیں؟
علامہ اقبال نے فرمایا مفصل پوچھو
کیا خارج از قرآن ذخیرہ حدیث و روایات اور کتب فقہ کو شامل کرکے اسلام مکمل ہوتا ہے یا صرف قرآن اس باب میں مکمل کفایت کرتا ہے؟
آپ نے فرمایا ۔ یہ چیزیں تاریخ اور معاملات پر مشتمل ہیں۔ ان کی بھی ضرورت ہے ، ان سے پتہ چلتا ہے کہ یہ کن ضروریات کے ماتحت وضع کی گئیں لیکن نفس اسلام ، قرآن مجید میں بکمال و تمام آچکا ہے۔ خداتعالٰی کا منشا دریافت کرنے کے لیے ہمیں قرآن سے باہر جانے کی ضرورت نہیں۔
آخیر میں گذارش ہے کہ بہت سے احباب فیس بک اور ای میل کے ذریعہ بعض اوقات ایسی روایات، واقعات، اذکار اور دوسری ایسی کئی باتیں دوسروں کو ارسال کرتے ہیں یا احباب کے ساتھ شئیر کرتے ہیں جن کے درست ہونے پر کئی سوالیہ نشانات ہوتے ہیں۔
اس لیے بہت احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے اور جانچ پڑتال کے بعد ہی دوسروں کو معلومات آگے پہنچانی چاہیے۔ ان میں احادیث کا معاملہ بہت نازک ہے اگر غلط بات حضورۖ سے منسوب کردی جائے تو سخت گناہ ہے اسی طرح کچھ ضعیف احادیث بھی ہوتی ہیںجو نہ پیش کی جائیں تو بہتر ہے۔ لہذا اس ضمن میں بہت احتیاط لازم ہے۔ ایسی احادیث پیش کی جائیں جو صحیح احادیث ہوں، حدیث قدسی (ایسی حدیث جس میں حضورۖ نے فرمایا ہوکہ اللہ تعالٰی نے یہ کہاہے) یا متفقہ علیہ ہو اور انہیں مکمل حوالے اور تصدیق کے ساتھ پیش کریں۔ قرآن حکیم کی آیات کو پیش کرنا اور شئیر کرنا آسان ہے جو سورہ اور آیت کے حوالے کے ساتھ پیش کرسکتے ہیں۔ قرآن حکیم کو خود سمجھنا ، عمل کرنا اور دوسروں تک پہنچانا بہت اچھا عمل ہے۔ اللہ تعالٰی ہمیں اس کی توفیق دے۔ امین

اپنا تبصرہ لکھیں