آمدِ ماہ مبارک

afkare taza

افکار تازہ
آمدِ ماہ مبارک ڈاکٹرعارف محمود کسانہ۔ سویڈن
جس ماہ مبارک میں ختم المرسلین اورپوری کائنات کے لیے رحمت، پیغمبر آخر و اعظم ۖ کی ولادت باسعادت اس کا آغاز ہوچکا ہے ۔
جس سہانی گھڑی چمکا طیبہ کا چاند اُس دل افراز ساعت پر لاکھوں سلام
دنیا کی تمام اقوام اور مذاہب کو ماننے والے اپنے، قومی دنِ، اہم ایام اور تہوارپورے جوش و خروش سے مناتے ہیں جس سے اُن کی قومی وحدت ، اپنے نظریہ سے لگن اور اُس کے ساتھ اپنی وابستگی کا بھر پور اظہارہوتا ہے۔ اس طرح کی تقریبات ایک طرح سے اُن کے ملی اور قومی جذبہ کا مظہر ہوتی ہیں۔ حضورۖ کی دنیا میں تشریف آوری پر جشن مسرت منانے کے حوالے سے سورہ یونس کی آیت ٥٨ میں اہلِ ایمان کو حکم دیا گیا کہ قرآنِ حکیم جیسی عظیم نعمت جو بعثِ محمدیۖ سے ممکن ہوئی، اس کے ملنے پر جشنِ مسرت منائو۔ قرآن صاحبِ قرآن سے تو الگ ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ آپۖ نے اپنی تئیس سال کی زندگی میں قرآن کو عملاََ متشکل کر کے دیکھایا نیزاُم المومنین حضرت عائشہ کا ارشاد ہے کہ حضورۖ کا خلق قرآن تھا یعنی آپ مجسمِ قرآن تھے۔ اِس لیے نزولِ قرآن پر جشنِ مسرت تو عیدالفطر کی صورت میں منایا جاتا ہے اور مجسمِ قرآن کے لیے جشن ربیع الاول میں ہوتا ہے۔ سورہ مائدہ کی آیت تین میں دینِ اسلام کو نعمت کہا گیا ہے اورجب دینِ اسلام نعمت ہے تو حضورۖ بھی تو نعمت ہیں جن کی وجہ سے ہمیں دین ملا ۔ بلکہ قرآنِ حکیم نے متعدد مقامات پر حضورۖ کو واضع طور پر اللہ کی نعمت قرار دیا ہے جس کی تفصیل قرآن کے اِن مقامات پر دیکھی جاسکتی ہے( ٥٢، ١٩٥٨ ، ٤٨٢، ٤٩٨ ، ٢٩٥٢ اور ٦٨٢)۔ نعمت کا ذکر کرنے کے بعدیہ بھی ارشاد فرمادیا کہ نعمت ملنے پر اُس کا چرچا کرو(٩٣١١)،اور نعمت کا شکرکرنے ِ کو اللہ کی عبدیت قرار دیا(١٦١١٤)، نعمت ملنے پر اُس کا شکر ادا کرنے کے بارے میں تو قرآنِ حکیم میں بہت زیادہ آیات ہیں۔ جب اللہ تعالٰی نے رسولِ اکرمۖ کو نعمت قرار دیاہے بلکہ آپ نعمتِ کبرٰی ہیں توآپۖ کی ولادت پر خوشی در حقیت انہی قرآنی تعلیمات پر عمل کرناہے۔ اللہ نے آپۖ کی بعث کو مومنین پر احسان قرار دیاہے(٣١٦٤) ۔ اب اِن تمام آیاتِ قرآنی کی روشنی میں حضورۖ کی ولادت پر خوشی کرنا درحقیت اللہ کا حکم بجا لانا ہے اور جشنِ مسرت نہ مانا اللہ تعالٰی کی حکم عدولی ہے۔ جب خود خدا اُن کی تعریف کرتا ہے( ٤٧۔٣٣٤٥) اورحضور کوخود بہت محبت سے مخاطب کرتا ہے( ٢٠١، ٣٦١، ٧٣١، ٧٤١) تو پھر بندہ مومن کیوں نہ حکمِ ربانی کو بجا لاتے ہوئے ذکرِ مصطفےۖ کی محافل کا انعقاد کرے۔ قرآن کی سپریم حیثیت کا تقاضا ہے کہ،مزید کوئی اور دلیل طلب کیے بغیر حکمِ خداوندی پر عمل کیا جائے۔جب قرآن واضع طور پر کہہ رہا ہے کہ نعمتِ الہی کا شکر ادا کرو اور جشنِ مسرت منائو پھر کون ہے جو انکار کی جرات کرے۔ یہ محافل حضور سے اپنی محبت اور وابستگی کا اظہارہوتی ہیں۔ آپۖ نے ارشاد فرمایا ہے تم میںسے کوئی اُس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک وہ مجھ سے سب زیادہ محبت نہ کرے۔جس سے محبت ہو اُس کا تو اکثر ذکر ہوتا ہے اور جس کا عملی مظاہرہ قول و فعل سے نظر آتا ہے۔
یہ دِن حضورۖ کی ولادت کا ہو یا اِس دنیا سے تشریف لے جانے کا، دین کی ابتدا کا دِن ہو یا تکمیلِ دین کی خوشی میں یا پھر ہجرت کے واقعہ کی یاد میں ، اِس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کیونکہ مقصد ایک ہی ہوتا ہے اور وہ یہ کہ قرآن حکیم اور احادیث مبارکہ کی روشنی میں ختم المرسلینۖ کا مقام و مرتبہ، اُن کی شان بیان کرکے اُن کے ساتھ اپنی محبت کا اظہار کیا جاتا ہے اور اپنی زندگی کو اُن کے اُسوہ حسنہ پر چلنے کا عزم کیا جاتا ہے۔ جہاں تک صحابہ اکرام کا میلاد منانے کا تعلق ہے تو ممکن ہے کہ وہ اِس انداز میں نہ مناتے ہوں جس طرح آج منایا جاتا ہے۔لیکن بہت سی روایات ایسی موجود ہیں جن میں حضورۖ نے اپنی ولادت کا تذکرہ کیا ہے اور آپۖ اپنی ولادت کے دِن یعنی پیر کو روزہ رکھا کرتے تھے یہ بھی ایک طرح سے منانا ہی ہے۔ حضرت حسان بن ثابت، حضرت کعب بن زہیر ، چاروں خلفاء راشدین، حضرت فاطمہ، حضرت عائشہ اور کم از کم ٣٤صحابہ اکرام کی آپۖ کی شان میں نعتیں بھی تو اِسی سلسلہ کی کڑی ہیں۔ تقریبات کو منانے کے لیے ضروری نہیں کہ ہر کوئی ایک سا طریقہ اپنائے۔ اب بھی مختلف ممالک میں میں مختلف انداز میںیہ دِن منایا جاتا ہے اور تقریبات منعقد ہوتی ہیں۔اصل مقصد قرآن کی روشنی میں رسالت کا مقام اور آپۖ کے بارے میں قرآنی آیات کا مفہوم پیش کرنا ہے جس سے کسی کو بھی اختلاف نہیںہو سکتا۔ کچھ مسالک سے تعلق رکھنے والے احباب عید میلادالنبی ۖ کی تقریبات کے بارے میں اختلافی نظریہ رکھتے تھے مگر اب وہ خود یوم صدیق اکبر، یوم شہادت حضرت عمر اور یوم شہادت حضرت عثمان پر جلوس بھی نکالتے ہیں، ان ایام کو مناتے ہیں اور کانفرسیں منعقد کرتے ہیں بلکہ اسی طرح اگر عید میلادالنبیۖ کی اصطلاح اگرپسند نہیں تو اسے یوم رسول اکرمۖ کے حوالے سے منا لیا جائے جہاں تک میلاد کی محافل کا تعلق ہے تو مجھے تویہ کہنا ہے کہ ہم نے اِن محافل کو صرف مسلمانوں تک کیوں محدود کردیا ہے۔ حضور ۖ تو پوری کائنات کے لیے رحمت ہیں(٢١١٠٨) جن میں غیر مسلمان بھی شامل ہیں تو پھر حضورۖ کی محافل میں غیر مسلمانوں کو کیوں شریک نہیں کیا جاتا۔ ہمیں پوری دنیا کو بتانے کی ضرورت ہے کہ آپۖ پوری انسانیت کے رحمت تھے اور سب سے بڑے سوشل ریفارمر تھے جن کی تعلیمات کا ثمر آج کی تمام انسانیت لے رہی ہے۔ دنیا بھر میں مسلم ممالک کے سفارت خانوں اور بالخصوص اقوامِ متحدہ میں اِس دِن کی مناسبت سے تقریبات منعقد کرکے دنیا کو انسانی حقوق کے بارے میں رحمتِ عالم کی تعلیمات خصوصاََ آپۖ کے آخری خطبہ کو پیش کرنا چاہیے جو کہ حقوقِ انسانی کا عالمی چارٹرہے ۔ وہاں سب کو بتایا جائے کہ حضورۖ نے غیر مسلموں، عورتوں، بچوں، زیر دستوں، جنگی قیدیوں اور جانوروں کے حقوق کا جوچارٹردیا تھا اُسی سے روشنی لیکراقوامِ متحدہ نے اپنا دستور بنایا ہے۔ اِس سے دنیا کو حضورۖ کی شخصیت اور اسلام کی اصل تعلیمات سے آگاہی ہوگی۔ مقامی تقریبات میں بھی دوسرے مذاہب کے لوگوں کو دعوت دینی چاہیے۔
ذکرِرسولۖ کی محافل سے اگر قلوب میں عشقِ مصطفٰے کی شمع روشن ہوتی ہے اور حضور سے محبت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے تو یہ قابلِ تحسین ہے اِس لیے اَن کے انعقاد کی ترغیب دینی چاہیے۔ جب دِلوں میں محبت ہوگی تو پھرہی آپ ۖ کی پیروی اور اتباع ممکن ہوگی ۔ حضورۖ کی اطاعت سے ہی اللہ کی محبت مشروط ہے (٣٣١)۔ میلاد کی محافل کے انعقاد ہی کافی نہیں بلکہ محبت کے دعویٰ کا ثبوت عمل سے دینا ہوگا ۔ قرآنِ حکیم صرف ایمان لانے کو کافی نہیں قرار دیتا بلکہ اس کے ساتھ عملِ صالح کی شرط عائد کرتا ہے(٤١٧٣، ١٠٣٣)۔ حضورۖ سے محبت کا تقاضا ہے کہ قرآن کو اپنی زندگی کا محور بنایا جائے اور یہ بات ملحوظِ نظر رہنی چاہیے کہ قیامت کے روز رسولِ پاکۖ اللہ کے حضور اپنی امت کی شکایت کریں گے کہ میری اُمت نے قرآن کو چھوڑ دیا تھا(٢٥٣٠) لہذا ہمیں گفتار کی بجائے کردار کا غازی بننا چاہیے ۔ اللہ کرے کہ آج جس امن و سکون کی انسانیت کو ضرورت ہے وہ اس ماہ مبارک کی بدولت نصیب ہو اور ہمیں محبت رسول ۖ کا دعویٰ قرآن حکیم پر عمل کی صورت میں کرنے کی توفیق ملے۔

اپنا تبصرہ لکھیں