آفت تازہ ……

… فیصل حنیف

“مرزا صاحب، دسمبر ختم ہوا چاہتا ہے، آغاز قصۂ آرزو بہ شکل سال نو ٢٠١٩ شروع ہونے کو ہے- اہل دوحہ، جگر فگار، آپ کے التفات کے امیدوار، بہ مثل قیس ناشاد آمادہ تلف جاں جادۂ لیلیٰ، آپ کی راہ تکتے ہیں- آپ کی صحبت سے حظ اٹھانے، آپ کی باریک بینی سے لطف بینی کشید کرنے، دل و دیدہ دونوں صبح و شام عالم معدوم تک کار جنوں کھینچتے ہیں- آپ جان شیریں کو تلخی مقصود ہے نہ اب کوہکن سرگشتۂ خمارِ قیود ہے- حضور، دبیر الملک مرزا اسداللہ خان غالب….

وعدہ آنے کا وفا کیجے ، یہ کیا انداز ہے؟

تم نے کیوں سونپی ہے میرے گھر کی دربانی مجھے؟ ”

“میاں لڑکے فیصل حنیف، غور سے سنو، وحشت سے جو مجھ کو ربط تھا، تمام ہوا، میں کیونکر تمہاری بات مانوں، دل کو پتھر کر دوحہ کا قصد کروں اور گرفتار رنج و اذیت ہو جاؤں- پچھلے سفر کو دیکھتا ہوں تو آنکھوں سے لہو بہتا ہے- اہل دوحہ کو، تم کو، مجھ سے اور مجھ کو عزیزان دوحہ سے تعلق ہے، انکار فقیر کی عادت نہیں، اور…

میں ہوں مشتاقِ جفا، مجھ پہ جفا اور سہی

تم ہو بیداد سے خوش، اس سے سوا اور سہی

چلو دوحہ- دیکھیے دکھلائیں گے کیا ”

“مرزا صاحب، آپ کا رتبہ معین ہے، حکم ہو تو دیدہ و دل آپ کے قدم تلے رکھیں-”

“برخوردار، دوحہ کا موسم دسمبر میں عجب ہوس خیز ہوتا ہے…….. ٹھہرو ! یہ کیا ہو رہا ہے؟ بھائی یہ کیا ہو رہا ہے؟ یہ کیا ہنگامہ ہے؟”

“مرزا نوشہ، میں اس سے واقف نہیں، آپ میرے دوست سانول عباسی سے پوچھیے، یہ تصویر ان نے چھاپی ہے- سانول میاں، مرزا صاحب کچھ پوچھ رہے ہیں- ”

“جی قبلہ، ایوارڈز چل رہے ہیں-”

“میں خطاوار، ہنوز بے خبر ہوں، ایوارڈز، کمپنی بہادر کے کوئی افسر ہیں؟- تصویر میں تو بیٹھے بھی دکھائی نہیں دیتے-”

“مرزا صاحب، ایوارڈز کو آپ خلعت جان لیجیے- شعراء کو نوازا جا رہا ہے-”

“میرے صاحب، کیا خوب وقت مجھ کو دوحہ لائے، میرا جی کھنچا جاتا ہے، اب مجھ سے صبر ہو نہیں سکتا- قصیدہ فقیر کو ازبر ہے، پیش کرتا ہوں..

ستّر برس کی عمر میں یہ داغِ جاں گداز

جس نے جلا کے راکھ مجھے کر دیا تمام

ہے بندہ کو اعادۂ عزت کی آرزو

چاہیں اگر حضور تو مشکل نہیں یہ کام”

“اے شاعر اعظم، کمپنی بہادر کب کی مرحوم ہوئی- ایوارڈز دیئے جا چکے، ستّر برس کی عمر میں آپ نے جو داغ اٹھایا تھا، ٢٢١ برس کی عمر میں بھی وہی آپ کا مقدر ہے-”

“میاں لڑکے، تم طعنہ زنی کی تیغ تیز کو سنبھالو ، آزردہ دل رہنا میری عادت ہے- خلعت کو اب بہ نظر حسرت نہیں دیکھتا- مجھ کو اپنی عزت مقدم ہے- ضعف سے چپ ہوں، تم جانتے ہو ورنہ کیا بات کر نہیں آتی- ”

“مرزا صاحب، اگر معاملہ یوں ہے تو، آپ کو کیا فکر، آپ افسردہ کیوں ہوتے ہیں؟آپ کو خدا سمجھے،آپ بھی چلتی ہوا سے لڑتے ہیں- چلتی گاڑی میں روڑا اٹکانا آپ کی عادت ہے- ایوارڈز چل رہے ہیں، ان کو چلنے دیجیے- زور سے کچھ کام نہیں نکلتا – ”

“برخوردار ، تمہارا کہنا غضب ہے کہ “ایوارڈز چل رہے ہیں”- ہم نے تو چکی چلنا سنا تھا، ایوارڈ کے چلنے پر میں تم کو ایک ایوارڈ دینا چاہتا ہوں-”

” حضور، میں بھی سوچتا ہوں کہ ایوارڈ دے کون رہا ہے اور لے کون رہا ہے؟ ایوارڈ دینے کا اختیار اور ایوارڈ لینے کی اہلیت، جمع ہوں تو بات بنے-”

” لڑکے، تم نے بھی اذیتیں دیکھیں اور میں نے بھی قیامتیں دیکھیں، میں رنج رسیدہ اور تم ستم دیدہ- خلعت کا نہ ملنا آفت جاں تھا ، اب ایوارڈ کا نہ ملنا آفت تازہ ہے، ہے کوئی علاج ؟-”

“مرزا نوشہ، آپ مجھے اپنے دستخط کے ساتھ ایک مستند مصور ہونے کا ایوارڈ دے دیجیے، زندگی میں میں نے کوئی تصویر نہیں بنائی، لیکن مجھے مصور بننے کا بچپن سے شوق ہے-”

“فیصل میاں ، تم بھی کس قدر بھولے ہو- مصوری سے مجھ کو کیا علاقہ- میں اس صنعت گری سے واقف نہیں- یہ سوچ کر مجھ کو ہنسی آتی ہے، تم بھی کیا سادہ ہو، تم کو شاید اس شعر نے دھوکہ میں مبتلا کیا

سیکھے ہیں مہ رخوں کے لیے ہم مصوّری

تقریب کچھ تو بہرِ ملاقات چاہیے

میں نا تجربہ کار کار مصوری ہوں، شعر کہا ہے مصوری نہیں سیکھی-”

“مرزا صاحب، اس زمانۂ کج باز میں ایوارڈ لینا ہنر ہے، اور دینا اس سے بڑا ہنر -ایوارڈ دینے سے آپ کا نام ہو گا اور آپ ایک ادارہ بن جائیں گے -کئی ایوارڈ مند مصور آپ کے دروازے پر کھڑے ہوں گے آپ کے قصیدے پڑھتے ہوئے – اگلے برس میں آپ کو ایک مستند و معروف مصور ہونے کا ایوارڈ دوں گا- آخر میں آپ اور میں دونوں ایوارڈ یافتہ مصور بن جائیں گے، اور اس کے ساتھ مصور گر بھی- ہے نہ اچھوتی پر لطف بات؟ اس سے اگلے برس شاعر کا ایوارڈ چلے گے- ”

” مرزا صاحب، آپ خاموش ہیں اور، سانول عباسی کہتے ہیں: کمال کرتے ہیں قبلہ- ”

“جناب، سانول عباسی صاحب، مرزا خان داغ نے کہا تھا کہ

ہزار کام مزے کے ہیں داغ الفت میں

‏‎جو لوگ کچھ نہیں کرتے کمال کرتے ہیں

استاد اگر آج ہوتے تو کہتے کہ

جو لوگ کچھ نہیں کرتے ایوارڈ کرتے ہیں

“ایوارڈ کرنا”پہ “کرنے”کی زبان کے چٹخارے کی داد تو بنتی ہے حضور-دل چاہے تو ایوارڈ دے دیجیے-”

” سنو میاں فیصل، تمہاری بات سن مجھ کو غش آتا ہے- میرے ہمدم دیرینہ ذوق کا کہا کہ تم بھی چلے چلو یونہی جب تک چلی چلے- کا میں قائل نہیں- تم ٹھنڈے ٹھنڈے چلتے بنو – یہ کام ہی چل بچل ہوا – سانول میاں، اب ایسی جگہ چل جہاں ایوارڈز نہ چلتے ہوں- ہے کوئی ایسی جگہ؟”-

مرزا صاحب، “ایسی کوئی جگہ نہیں، ایسے ایسے ہزار پھریں ہیں ہر جگہ، آپ خفا ہو گئے- یونہی چل دیے،

کچھ یاد گارِ شہر ستمگر ہی لے چلیں

آئے ہیں اس گلی میں تو پتھر ہی لے چلیں”

“واہ میاں لڑکے، تم نے خوب دل جوئی کی- فرومایہ لوگ ایوارڈ لے چلیں اور نجم الدولہ دبیر الملک نظام جنگ نواب مرزا اسداللہ خان غالب پتھر لے چلیں- تمہاری انصاف پروری کی داد دیتا ہوں-”

“حضورعزت مآب نواب مرزا اسداللہ خان غالب، انصاف پروری کی داد نہیں ایوارڈ دیجیے- کیا کیجیے جو نہ کیجیے ایسی بات کہ ایوارڈ دینے والے بھی پتھر کے اور لینے والے بھی- دینے والے شعر و ادب سے واقف نہ لینے والے- لینے والوں نے شعر کہہ پتھر دے مارے، دینے والوں نے ایوارڈ کہہ پتھر تھما دیے- ان میں شکار پیشہ کون اور شکار خستہ کون، آپ بتلائیے ؟ ”

“برخوردار، تو یہ صورت ہے-

کہاں تک روؤں اُس کے خیمے کے پیچھے، قیامت ہے!

مری قسمت میں یا رب کیا نہ تھی دیوار پتھّر کی؟”

“میاں لڑکے، تمہاری کرامات کا میں قائل ہوا، ہجوم غم سے سودائی ہو جاؤں تو کچھ حیرانی کی بات نہیں- غم مرگ، غم عمر، غم وظیفہ، غم فراق، غم رزق، غم عزت، غم الفت، غم روزگار، غم سخن کیا کم تھے کہ تم نے ایک اور غم، غم ایوارڈ، چپکا دیا-

کوئی ایوارڈ گر ملے تو دعا کہنا اور اس بندہ گنہگار شرمسار کی سفارش کرنا-”

“مرزا صاحب، حیراں ہوں، دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو مَیں،

مقدور ہوں ساتھ رکھوں ایوارڈ گر کو مَیں؟؟؟ ”

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~

اپنا تبصرہ لکھیں