آرزو آبرو سے باہر ہے

شاعر: جلیل نظامی

—————————–

آرزو آبرو سے باہر ہے

زخم کار رفو سے باہر ہے

جی بہلتا نہیں ہے گلشن میں

مدعا رنگ و بو سے باہر ہے

دل کا آرام ذہن کی تسکین

محفل ہاؤ و ھو سے باہر ہے

ناؤ ٹوٹی ہوئی ہوا برہم

ناخدا آبجو سے باہر ہے

کیسے سمجھاؤں کون سمجھے گا

حال دل گفتگو سے باہر ہے

جانے کیا غم ہے اسکو اندر سے

ہر بشر اپنی خو سے باہر ہے

مرے دشمن  تجھے نہیں معلوم

موت دست عدو سے باہر ہے

آپ کی ریختی جناب میر

ان دنوں لکھنؤ سے باہر ہے

ابتدا ہی سے گھر جلیل اپنا

عالم کاخ و کو سے باہر ہے

اپنا تبصرہ لکھیں