آخری چٹان اگلا حصہ

دل ٹوٹ جائے گا۔ اﷲ بخشے مرتے وقت شاہینہ کا ہاتھ کلیم کے ہاتھ میں ۔۔۔۔۔۔ دے گئی تھیں اور ان کے آخری الفاظ تھے:

’’ نعیمہ! شاہینہ کی شادی میرے ہی بچے سے ہوگی۔ لللّٰہ میرے اس کام میں دخل نہ دیجیے۔‘‘ ان کی آواز روندھ گئی اسکا ارتعاش بڑھ گیا۔ ’’ شاہینہ کلیم کے ساتھ زندگی بھر خوش رہے گی۔ گھر کا لڑکا ہے، دیکھا بھالاہے اتنا ہنس مکھ کہ بات بات پے ہنس دیتا ہے۔۔۔۔۔ اتنا سیدھا کہ آپ سے آپ محبت آئے‘‘۔
’’ لیکن بیگم اس کے لچھّن مجھے قطعاً پسند نہیں‘‘ ابّو کی آوازمدھّم
’’ اے ہے تو مولوی کون لڑکا ہوتا ہے۔۔۔۔۔کھیلنے ، کھانے کے دن ہیں۔ اتنا نیک، اتنا سیدھا۔ شاہینہ یقیناًاسے پسند کرتی ہوگی۔ہمیشہ اس کے نام پر خاموش ہوجاتی ہے اور پھر لڑکی کی پسند نا پسند کا کیا اُسے تو جس کھونٹے سے باند ھ دو ہنسی خوشی بند ھ جائے گی۔۔۔۔۔۔۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہم لوگوں میں شادی خاندان سے باہر ہوتی بھی کب ہے۔ اور فرض کیجیے میں غیر جگہ کر بھی دوں تو خاندان والے کیا کہیں گے یہی نا کہ غضب خدا کا غیر خاندان میں بیٹی دے دی، بچپن کی منگنی توڑدی ، مرحومہ بہن کی بات کا پاس نہ کیا۔ سوچیے تو سہی آپاجان کی روح کو کتنا صدمہ پہنچے گا۔‘‘ اپنی ماں کی آواز کی تھرتھراہٹ اس کو شدت سے محسوس ہوئی۔
’’ بیگم سچ پوچھوتو کلیم مجھ کو قطعاً پسند نہیں۔۔۔۔۔ اس کی حرکتیں بہت بچکانہ ہیں بڑی بے تکی اور سطحی باتیں کرتا ہے۔اس کے ذہن کی قطعاً تر بیت نہیں ہوئی ہے۔ تھوڑی سی بھی گنجائش ہوتی تو میں اس کی تعلیم و تربیت کرتا لیکن بڑی مایوسی ہوئی ہے سوچو کیا شاہینہ ساری عمر اس کی تربیت کرتی رہے گی۔ اس کی جہالت زدہ مردانگی کو برداشت کرتی رہے گی۔۔۔۔ اس کا بچکانہ مذاق۔۔۔۔‘‘
’’ بچکانہ مذاق۔۔۔۔۔ ذہنی تربیت۔۔۔۔۔ یہ سب باتیں تو میری سمجھ سے باہر ہیں۔لڑکا تندرست ہو صورت شکل، مزاج کا اچھا ہو بس کافی ہے۔ میں نے کیا آپ کو پسند کیا تھا پر شادی ہوگئی اور کیا غلط ہوا۔ اچھی گزرگئی۔ لڑکی کی شادی کے ذمہ دار ہم ہیں کہ وہ خود۔ آپ ہی سوچیں بھلا کون اپنی اولاد کو جان بوجھ کر کنویں میں ڈھکیلے گا۔بتائیے نوکری پیشہ لوگ کیا کمارہے ہیں۔ یہی کوئی دو ڈھائی ہزار روپلّی اور کلیم ماشاء اﷲ سے اس سے دو گنا کمالیتا ہے۔‘‘
پیسہ زندگی کا محور۔۔۔۔۔۔ عظیم ترین قدر۔۔۔۔ تو اس کی قربانی ضروری ہی دی جا ئے گی کہ وہ ایسے شخص کے پلّے باندھ دی جائے گی جو تا عمر اُسے سمجھ نہیں سکتا، اس کی رفاقت نہیں کرسکتا، اس کی روح کی اداسیوں کو دور نہیں کرسکتا۔۔۔۔ رات کے دس بج رہے تھے آوازیں تھم چکی تھیں۔ چاند کھڑکی سے باہر وسیع آسمان پر روشن و تابندہ تھا۔ زرد چاند۔۔۔۔اُسے تھکا تھکا ، اُداس، پژمردہ سا لگا۔ “Art thou pale for weariness”?شیلی کی یہ نظم جب سے اس نے پڑھی تھی چاند اسے کوئی جاندار سی چیز لگنے لگا تھا۔ ایسا انسان جو تھکان سے زرد ہوگیاہے اور تنہا ہی چلاجارہا ہے۔تنہا چاند۔۔۔۔۔ بغیر کسی ساتھی کے۔ اس کے ابّو جو لکھنؤ یونیورسٹی سے بی اے کئے ہوئے تھے اُس کے پہلے اور آخری استاد تھے۔ نوکری انہوں نے کی نہیں تھی کہ شرفاء کے شایانِ شان نہ سمجھی جاتی تھی۔ لیکن علم کاشوق بے حد تھا انگریزی ادب ، اردو ادب، مذہبیات، فقہ، تصوف وغیرہ پر ان کی گہری نظر تھی۔ اپنا علم انہوں نے بیٹی کو منتقل کردیا تھا۔
چانداُسے ہمیشہ اداس کردیتا۔۔۔۔۔زرد، تنہا چاند۔۔۔۔۔ اور خیالات کا ہجوم۔۔۔۔ کیوں نہ امّی سے کہہ دوں کہ یہ رشتہ مجھے قبول نہیں۔ حالانکہ خاندان میں آج تک ایسا نہیں ہواکہ لڑکی اپنی شادی کے سلسلہ میں زبان ہلائے۔ لیکن جو نہیں ہوا ہے وہ ضروری ہے کہ اب بھی نہ ہو۔ میں بہت بزدل ہوں۔ کیا اتنی بھی ہمت نہیں کرسکتی کہ امّی سے کہہ سکوں ۔ میری ماں ہیں میری بات ضرور سمجھیں گی۔ اس خیال سے اُسے سکون محسوس ہوا اور نیند آنے لگی اور آسمان پر تھا ایک تنہا مسافر جس کی زرد روشنی ہر سو بکھری ہوئی تھی، اس کی نظر سامنے کلنڈر میں ایستادہ چٹّان پر پڑی۔۔۔۔۔ دھیرے دھیرے وہ تصویر دھندلی ہوتی گئی۔ اُسے نیند آگئی تھی!
سویرے حسبِ معمول آنکھ جلد ہی کھُل گئی صبح کا سماں اسے بچپن سے ہی بے حد پسند تھا۔ فضائیں پرسکوت تھیں۔۔۔۔ پاس ہی کی ایک مسجد سے اذان کی آواز آرہی تھی۔۔۔۔۔ نسیمِ سحر، ہر سو پھیلی فرحت بخش تاریکی، دھندلکا، اور سامنے بھیگی بھیگی سڑک

آگے پڑہیے
دوسرا حصہ

سویرے حسبِ معمول آنکھ جلد ہی کھُل گئی صبح کا سماں اسے بچپن سے ہی بے حد پسند تھا۔ فضائیں پرسکوت تھیں۔۔۔۔ پاس ہی کی ایک مسجد سے اذان کی آواز آرہی تھی۔۔۔۔۔ نسیمِ سحر، ہر سو پھیلی فرحت بخش تاریکی، دھندلکا، اور سامنے بھیگی بھیگی سڑک

جیسے رات بارش ہوئی ہو۔۔۔۔۔۔ آج سلمہ اور رحیمہ آئیں گی۔ ۔۔۔۔ کتنا بور کرتی ہیں دونوں۔۔۔۔ ان کے بھائی صاحب بھی تشریف لائیں گے۔ خدا کی پناہ۔۔۔۔ بچپن کے منگیتر۔۔۔۔۔۔خدا نہ کرے ۔۔۔۔۔ وہ کانپ سی گئی۔ پھر اس کی نظر دیوار پر لگی ہوئی تصویر پر مرکوز ہوئی۔ تنہاچٹّان۔۔۔۔تاریکی کم ہورہی تھی۔ ۔۔۔۔۔ اس نے کھڑکی سے باہر دیکھا سرسبز وشاداب آم کا باغ اور بھیگی سڑک۔۔۔۔۔ جس پر آزادی سے چلنے کی آرزوہی رہی اُسے، کہ صرف چھ سال کی عمر میں ہی اس کا پردہ ہوگیا تھا۔ تب سے ہی وہ گھر کی چہاردیواری میں سانس لینے کو مجبور تھی۔ خاندان میں سخت پردہ ہوتا تھا۔ ڈولیوں پر بیٹھ کر ایک گھر سے دوسرے گھر جانے کی اجازت تھی بس۔بھیگی سڑک جو مسافروں کو ملیح آباد سے لکھنؤ لے جاتی تھی۔
اسی وقت اس نے سورج کو افق میں نمودار ہوتے دیکھا۔ اس کا پسندیدہ منظر۔۔۔ قدرت کے پاس کتنے خزانے ہیں۔ خدا ان مناظر کے ذریعے خود کو ظاہر کرتا ہے ۔
’’ بیٹاچلیے ناشتے کھاتن۔۔۔۔۔۔‘‘ رحمت بوا کمرے میں آکر بولیں۔
’’ بیٹا اتنا سوچا نہ کرو۔ بیٹن کا سوچا نہ چہئے‘‘۔۔۔۔ وہ متحیر سی رہ گئی۔ کیا سوچنے پر بھی پابندی لگ سکتی ہے۔ اس کی آنکھیں نم ہو گئیں اسے خیال آیا کہ جب وہ لکھ رہی ہوتی ہے تو اس کی امی نے اکثر کہا کہ بیٹی لکھا مت کرو لڑکیوں کو لکھنا نہیں چاہئے۔ ابوّ نہ پڑھاتے تو وہ جاہل رہ جاتی۔۔۔۔ انہوں نے اس کے لکھنے پر کبھی پابندی نہیں لگائی!
ناشتے پر وہ ابّو سے مختلف موضوعات پر بات کرتی رہی، شاعری، ادب، سیاست، مذہبیات، ۔۔۔۔۔ فِقہ۔۔۔ اس کی بیشتر تدریس احمد حسین صاحب گفتگو کے ذریعہ کرتے تھے۔ نعیمہ بیگم خاموشی سے دونوں کی گفتگو سُن رہی تھیں جو کبھی بھی ان کے پلّے نہ پڑتی تھی انہیں الجھن سی ہوتی تھی جوکہ فطری بھی تھی۔ اس طرح کی ذہنی رفاقت ان کی شوہر کے ساتھ ہونی چاہئے تھی یہ انھیں اکثر محسوس ہوتا تھا۔ وہ اٹھ کر باورچی خانے کے طرف چل دیں رحمت بوا کو کچھ ہدایات دینے کہ یہ محاذ اہم ترین محاذ تھا کہ اس پر زندگی کا دارومدار تھا۔ غیر اہم جس کی اہمیت کے قائل سب، معترف گنے

چنے۔۔۔۔ اپنے ماں باپ کا ذہنی تفاوت ہمیشہ شاہینہ نے محسوس کیا تھا۔یہی دوری خود اس کے اور امّی کے بیچ تھی اس کے باوجود کہ ماں بیٹی ایک دوسرے سے بے حد محبت کرتی تھیں!
’’ ابّو جو ناول کل آپ لائے ہیں نا بہت دلچسپ ہے اس وقت اُسی کو پڑھونگی۔ آپ اخبار پڑھئے‘‘
’’ ہاں ہاں جاؤ پڑھو‘‘۔۔۔۔اس کے اٹھنے کے بعد احمد حسین خاں نے سوچا اپنی بیٹی کی ذہانت ، اور علم دوستی کے بارے میں ۔ ماں کی بے جا ضد اس کی مٹی نہ پلید کردے۔ کیسے سمجھاؤں نعیمہ کو۔ ۔۔۔۔ اسی وقت کلیم اندر داخل ہوا۔
’’ آداب عرض خالو جان‘‘
’’ جیتے رہو ۔۔۔۔۔۔ آؤ آؤ ۔۔۔۔۔۔خیریت سے تو ہو؟‘‘
’’ جی بالکل ٹھیک ہوں آپ کی دعا سے۔۔۔۔‘‘
’’ بیگم ذرا چائے بنوایئے۔ ۔۔۔۔ہاں کلیم۔۔۔۔کہو بھئی کاروبار کیسا چل رہا ہے تمہارا۔۔۔۔؟
’’ کیا کہتے ہیں بہت اچھا چل رہا ہے۔۔۔۔۔ مال ادھار تو دیتا نہیں۔ دام لے کر ہی چھوڑتا ہوں۔‘‘
اسی وقت نعیمہ بیگم آگئیں
’’ بیٹے بہنوں کو لے آئے؟
’’ جی وہ شاہینہ کے کمرے میں ہیں‘‘اس نے کھیسیں نکال دیں۔ نعیمہ بیگم خوش ہوگئیں۔ بھانجے سے انہیں بے حد محبت تھی مرحومہ آپاجان کی نشانی۔۔۔۔۔؟
’’ اے ہے کلیم تم اُس دن شکار پر گئے تھے کیسا رہا۔۔۔۔۔۔؟
’’ ہاں خالہ جان نیل گائے کے شکارپر گیا تھا کچھ دوستوں کے ساتھ۔ مجھ پر گولی لگتے لگتے رہ گئی۔‘‘
کلیم ہنسا۔۔۔۔، وہی بے تکی ہنسی۔۔۔۔ یہ ’’ تو چلتاہی رہتا ہے خالہ اور پھر جب سے ’ ہنٹنگ‘ میرا مطلب شکار شروع کیا ہے چھوٹے موٹے حادثے تو ہوہی

جاتے ہیں۔ کسی طرف سے کوئی دوسرا بھی نشانہ سادھ رہا تھا نیل گائے کا۔ جب گولی سنسناتی میرے پاس سے گزری تو سر سے پیر تلک کانپ گیا ۔ خدا کاشکر ہے کہ زندہ بیٹھا ہوں۔ اُس دن شکار کھیلتے کھیلتے کنول ہار سے آگے نکل گئے۔ اُدھر گھنا جنگل۔۔۔۔ بال بال بچا۔ فوراً واپس۔‘‘
اور اس کے خالو احمد حسین خاں اپنی بیٹی کے سلسلہ میں متفکر۔
’’کلیم بیٹے تم پرائیویٹ طور سے ہائی اسکول کیوں نہیں کر لیتے‘‘؟۔ انہوں نے کلیم سے غیر متوقع سوال کیا۔‘‘
’’ارے خالو پرائیویٹ بڑا مشکل ہے بہت لڑکے فیل ہوتے ہیں ویسے انگریزی تو تھوڑی بہت پڑھنا شروع ہی کر دی ہے ماشٹر لگا لیا ہے۔ نیوز پیپر چلانے لگا ہوں۔ آج کل تو بس انگریزی کا ہی زمانہ ہے۔‘‘
اُسی وقت احمد حسین خاں سے ملنے کوئی آگیا وہ اُٹھ کر بیٹھک میں چلے گئے۔ نعیمہ بیگم کسی کام سے اندر کے دالان میں جا چکی تھیں۔ کلیم نے شاہینہ کے کمرے کا رخ کیا آخِر کووہ اس کی منگیتر تھی اور جلدہی ہمیشہ کے لئے اس کی ہونے والی تھی اور وہ اسکا پورا حقدار اور دعوے دار ہوجائے گا۔ خوشی کی لہر اس کے وجود میں دوڑی۔ میں اس کا مالکِ کُل۔۔۔۔ مجازی خدا۔۔۔۔۔
’’ میں اندر آجاؤں۔۔۔؟‘‘ اور پھر جواب کا انتظار کئے بغیر کمرے کے اندر ۔ سلمہ کھڑکی کے پاس والی کرسی پر، رحیمہ پڑھنے والی میز کے پاس والی کرسی پر پیر اوپر رکھے۔۔۔شاہینہ مسہری پر، ہاتھ میں ناول۔ کبھی کبھی ہلکے پھلکے ناول پڑھنے میں اسے بے حد لطف آتاتھا۔۔۔۔ اُسے احساس ہی نہ رہتا کہ وہ اکیلی ہے۔ کلیم اس کے پاس والی کرسی پر آبیٹھا۔ آخرِ کو وہ اس کی منگیتر تھی۔ شاہینہ کووحشت سی ہونے لگی۔۔۔
’’ شاید میرے آنے سے خلل پڑا تو میں چلوں؟‘‘
اُسے الجھن ہوئی ’’ اونھ کوئی بات نہیں ہورہی تھی ویسے آپ جاسکتے ہیں۔‘‘ وہ بد اخلاقی پر اُتر آئی۔

جماتے ہوئے کہا۔’’ وہ مزے دار میرا مطلب ہے’ انٹرسٹنگ‘ کتاب ہے کہ کیا بتاؤں اتنا ہنسایا ہے لکھنے والے نے ہا۔۔۔ ہا۔۔۔۔۔ ہا۔۔۔۔۔ پیٹ میں بل پڑ گئے‘‘۔ کلیم کہے جارہاتھا۔ ۔۔۔۔ اور وہ ناول پڑھے جارہی تھی۔ باہر سڑک پر جمعرات والا فقیر چلّارہا تھا۔
’’ ایک آٹا ۔۔۔۔۔ پیالی بھر آٹا ۔۔۔۔ اﷲ کی راہ پے‘۔۔۔۔یہ آواز وہ ننھی سی عمر سے سنتی آئی تھی۔ اک یہ بھی زندگی ہے۔۔۔۔۔اﷲ کی راہ پے‘۔۔۔۔۔۔
اُسی وقت کلیم کی نظر شیلف پر رکھے ہوئے دیوان غالب پر گئی ایک دم اٹھ کھڑا ہوا دیوان غالب نکا ل کر الٹ پلٹ کر دیکھا بولا۔
’’ غالب بھی واﷲ کمال کا پوئٹ تھا وہ معرکے کے شعر کہہ گیاہے کہ چھوٹے تو کیا بڑے بڑے عش عش کر اٹھتے ہیں۔ میں نے تو بھئی جب سے فلم ’’مرزا غالب‘‘ دیکھی ہے اس کا قائل ہوگیا ہوں‘‘ پھر وہ کرسی پر آبیٹھا۔ شاہینہ خاموش تھی اسے گھٹن سی ہورہی تھی۔ کلیم سوچ رہا تھا یہ مجھ سے بولتی کیوں نہیں شرماتی ہے شاید۔اب جب کہ میں شعرو شاعری اور انگلش میں اتنی دلچسپی لینے لگا ہوں تو اسے مجھ سے کچھ توبات کرنی چاہئے۔۔۔۔۔۔۔
’’ اور بھئی اب تو میں سوچتاہوں کہ اپنی انگلش اور امپرووٗ کروں اِدھر اخبار وخبار بھی انگلش کا پڑ ھنے لگا ہوں آج کل تو وہ زمانہ ہے کہ انگلش پڑھے بغیر کام ہی نہیں چلتا ۔سوچتا ہوں انگلش ٹو انگلش ڈکشنری خرِید لوں۔ شاہینہ کے لبوں پر تلخ مسکراہٹ پھیل گئی۔ انگریزی سے انتہا درجہ کی جاہلانہ مرعوبیت۔۔۔۔اس کی مسکراہٹ کے کلیم نے سیکڑوں مطلب نکال لیے۔
’’ ہاں بھئی اُس دن جمعرا۔۔۔۔۔۔ مطلب ہے’ تھرس ڈے‘ کو انگریزی اخبار میں آیا تھا کہ بھٹّو کو پھانسی دیدی گئی ویسے انگلش اخبار سے فائدہ بہت ہوتا ہے یعنی ورلڈ بھر کی نیوز معلوم کرلیوایں۔۔۔۔‘‘؟ وہ انتہائی بے تکی ہنسی ہنسا۔ شاہینہ خون کے گھونٹ پی کر رہ گئی اس ’انکشاف‘ پر۔

جاری ہے

اپنا تبصرہ لکھیں