ابو اسامہ
کبھی مسلمان بھی سپر پاور تھے ۔دنیا میں ان کی بہادری کا ڈنکا بجتا تھا ۔رستم کی گردن اتارنے والا کوئی سپہ سالار یا نامور کمانڈر نہیں تھا ۔ایک
معمولی سپاہی نے اس وقت یہ کارنامہ انجام دیا تھا جب رستم جان بچا کر بھاگ رہا تھا ۔مسلمانوں نے اپنے زمانے میں اپنے ٹوٹے پھوٹے
ہتھیاروں سے دنیا فتح کی تھی۔ان کے نزدیک تیر تلوار یا ہتھیار کی اہمیت نہیں تھی ۔اہمیت ان کی فکر ،جوش اور جذبے کی تھی۔اسی فکر جوش جذبے نے ان کے ہر فرد کو مرد آہنIron Man بنا رکھا تھا ۔ہماری تاریخ بتاتی ہے کہ اس زمانے کے معمولی مسلمان میں بھی موت کا خوف نہ تھا ۔مگر جب زوال آیا تو یہ حال بھی ہوا کہ ایک منگول عورت ۳۰؍۳۰ مسلمان سپاہیوں کو باندھ لیتی تھی۔ایسی ہی ایک تصویر آج صبح ٹی وی پر دیکھنے کو ملی ۔
ہم روزصبح ناشتہ کرتے ہوئے ٹی وی پر خبریں دیکھنے کے عادی ہیں۔حسب معمول آج بھی (۲۰ جولائی )۱۵۔۹بجے اے بی پی نیوز پر خبریں دیکھ رہے تھے ۔اے بی پی نیوز کی نامہ نگار محترمہ مدھو بھاٹیا جھا امریکہ کے کلیو لینڈ سے خبریں دے رہی تھیں۔اپنے خبر نامے کے دوران ایک خبر انھوں نے یہ دی کہ کلیو لینڈ کی پولس عوام سے یہ گذارش کر رہی ہے کہ وہ اپنے ہاتھ جیبوں میں نہ ڈالیں ۔اپنے ہاتھ جیبوں سے باہر ہی رکھیں (پس منظر میں پولس بھی کھڑی ہے)کیوں؟کہیں ایسا نہ ہو کہ جیب میں پستول ہو اور اچانک جیب میں ہاتھ ڈال کر پستول باہر نکال کر یا بغیر باہر نکالے ہی فائرنگ شروع کردیں ۔کتنی مضحکہ خیز ہے یہ بات خود اندازہ کر لیجئے۔یہ پیٹریاٹ ایکٹ سے بھی آگے کی چیز ہے ۔ بنیادی حقوق کی ایسی کی تیسی ۔انشاء اللہ بہت جلد وہ وقت بھی آئے گا جب کپڑے پہن کر گھر سے باہر نکلنے سے بھی منع کردیا جائے گا ۔ دہشت گردی کا کاروبار کرنے والوں کو یہ دن دیکھنے کے لئے تیار تو رہنا ہی چاہئے۔سپر پاور امریکہ اور اس کے حفاظتی دستے قانون نافذ کرنے والے ادارے کتنے بزدل ہیں تصورکیجئے۔امریکہ میں فائرنگ کے جتنے بھی واقعات ہوئے وہ متاثرین کے لئے تو اچانک تھے فائرنگ کرنے والے کے لئے اچانک نہیں تھے۔ایسا کوئی واقعہ نظر نہیں آتا کہ کوئی شخص سڑک پر چل رہا ہو یا ہوٹل میں بیٹھا ہو یا کلب میں ڈانس کر رہا ہو اور اچانک کوئی عجیب قسم کی لہر اس کے دماغ میں اٹھی ہو اور اس نے جیب سے پستول نکال کر کشتوں کے پشتے لگا دئے ہوں وہاں فائرنگ کے واقعات خوب سوچ سمجھ کر پلاننگ کرکے انجام دئے گئے ہیں۔پھر امریکی افغانی تو ہیں نہیں کہ اسلحہ رکھنا جن کے خمیر میں شامل ہو گیا ہو امریکہ میں تو اس پر پابندی کا بھی سوچا جا رہا ہے افغانستان میں تو اس کا تصور بھی نہیں ہے ۔یہی حال پاکستان کے صوبہ سرحد کا بھی ہے ۔مگر اس طرح کی کوئی گذارش یا وارننگ سننے میں نہیں آئی کہ کوئی شہری جیب میں ہاتھ نہ ڈالے یا اپنا ہاتھ اسلحے سے دور رکھے
کہتے ہیں کہ بندر کے ہاتھ استرا لگ جاتا ہے تو بڑا مسئلہ کھڑا ہوتا ہے ۔بلا شبہ امریکہ نے سائنسی ترقی میں تودنیاکو مات دے دی مگر انسانی ترقی میں پھسڈی رہا ۔جیسے اسلحے انھیں میسر ہیں اس کے حساب سے طاقتور دماغ انھیں میسر نہیں۔اس سے پہلے بھی خبریں آچکی ہیں کہ افغانستاں میں امریکی فوجی سینیٹری پیڈسSanitry Pads باندھے رہتے ہیں ۔کیا معلوم کب ان کی چڈی گیلی اور پیلی ہو جائے ۔یہ اللہ کا انتظام ہے۔سپر پاور کی قسمت میں کیسی بلندی اور کیسی پستی لکھی ہے ۔
امریکہ سپر پاور تو بن گیا مگر ویسے ہی جیسے بندر کے ہاتھ استرا لگ جاتا ہے ۔پوری دنیا میں اس کے مظاہر بکھرے پڑے ہیں ۔وہ اپنا استرا ہر اس طرف گھما دیتا ہے جدھر سے اسے ذرا سا بھی خوف محسوس ہوتا ہے ۔جس قوم سے اسے ڈر اور خوف کا وہم بھی ہوتا ہے تو اس پر جدید اسلحہ بنانے کی پابندی عائد کر دیتا ہے ۔حیرت کی بات ہے کہ دنیا کے کسی دانشور کو یہ سمجھ نہ آیا کہ امریکیوں کے دماغوں میں یہ کیسا خوف بیٹھا ہوا ہے ۔یہ مریضانہ خوف ہے اور اس کا علاج کیا جانا چاہئے ۔اس سے بھی زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ دنیا بجائے اس کے کہ امریکہ کا علاج کرتی اس نے امریکہ سے درآمد اسلاموفوبیا کو خود پر سوار کر لیا ۔دوسری طرف مسلم دور کو دیکھئے۔مسلمان اپنے دور سپر پاوری میں نہ خود کسی سے خوفزدہ ہوئے نہ کسی قسم کا مریضانہ خوف انھوں نے پھیلایا۔انھوں نے اپنے دشمنوں کو مقابلہ کرنے کے برابر کے مواقع دئے کبھی بھی کسی پر بھی جدید اسلحہ نہ تیار کرنے کی پابندی نہ لگائی۔بلکہ جدید اسلحہ کے کاریگر مسلم ممالک سے ہی غیروں کے یہاں گئے اور انھیں مسلمانوں کے برابر آنے میں مدد کی ۔کیا یہ دنیا پر مسلمانوں کا احسان نہیں ہے ؟
معمولی سپاہی نے اس وقت یہ کارنامہ انجام دیا تھا جب رستم جان بچا کر بھاگ رہا تھا ۔مسلمانوں نے اپنے زمانے میں اپنے ٹوٹے پھوٹے
ہتھیاروں سے دنیا فتح کی تھی۔ان کے نزدیک تیر تلوار یا ہتھیار کی اہمیت نہیں تھی ۔اہمیت ان کی فکر ،جوش اور جذبے کی تھی۔اسی فکر جوش جذبے نے ان کے ہر فرد کو مرد آہنIron Man بنا رکھا تھا ۔ہماری تاریخ بتاتی ہے کہ اس زمانے کے معمولی مسلمان میں بھی موت کا خوف نہ تھا ۔مگر جب زوال آیا تو یہ حال بھی ہوا کہ ایک منگول عورت ۳۰؍۳۰ مسلمان سپاہیوں کو باندھ لیتی تھی۔ایسی ہی ایک تصویر آج صبح ٹی وی پر دیکھنے کو ملی ۔
ہم روزصبح ناشتہ کرتے ہوئے ٹی وی پر خبریں دیکھنے کے عادی ہیں۔حسب معمول آج بھی (۲۰ جولائی )۱۵۔۹بجے اے بی پی نیوز پر خبریں دیکھ رہے تھے ۔اے بی پی نیوز کی نامہ نگار محترمہ مدھو بھاٹیا جھا امریکہ کے کلیو لینڈ سے خبریں دے رہی تھیں۔اپنے خبر نامے کے دوران ایک خبر انھوں نے یہ دی کہ کلیو لینڈ کی پولس عوام سے یہ گذارش کر رہی ہے کہ وہ اپنے ہاتھ جیبوں میں نہ ڈالیں ۔اپنے ہاتھ جیبوں سے باہر ہی رکھیں (پس منظر میں پولس بھی کھڑی ہے)کیوں؟کہیں ایسا نہ ہو کہ جیب میں پستول ہو اور اچانک جیب میں ہاتھ ڈال کر پستول باہر نکال کر یا بغیر باہر نکالے ہی فائرنگ شروع کردیں ۔کتنی مضحکہ خیز ہے یہ بات خود اندازہ کر لیجئے۔یہ پیٹریاٹ ایکٹ سے بھی آگے کی چیز ہے ۔ بنیادی حقوق کی ایسی کی تیسی ۔انشاء اللہ بہت جلد وہ وقت بھی آئے گا جب کپڑے پہن کر گھر سے باہر نکلنے سے بھی منع کردیا جائے گا ۔ دہشت گردی کا کاروبار کرنے والوں کو یہ دن دیکھنے کے لئے تیار تو رہنا ہی چاہئے۔سپر پاور امریکہ اور اس کے حفاظتی دستے قانون نافذ کرنے والے ادارے کتنے بزدل ہیں تصورکیجئے۔امریکہ میں فائرنگ کے جتنے بھی واقعات ہوئے وہ متاثرین کے لئے تو اچانک تھے فائرنگ کرنے والے کے لئے اچانک نہیں تھے۔ایسا کوئی واقعہ نظر نہیں آتا کہ کوئی شخص سڑک پر چل رہا ہو یا ہوٹل میں بیٹھا ہو یا کلب میں ڈانس کر رہا ہو اور اچانک کوئی عجیب قسم کی لہر اس کے دماغ میں اٹھی ہو اور اس نے جیب سے پستول نکال کر کشتوں کے پشتے لگا دئے ہوں وہاں فائرنگ کے واقعات خوب سوچ سمجھ کر پلاننگ کرکے انجام دئے گئے ہیں۔پھر امریکی افغانی تو ہیں نہیں کہ اسلحہ رکھنا جن کے خمیر میں شامل ہو گیا ہو امریکہ میں تو اس پر پابندی کا بھی سوچا جا رہا ہے افغانستان میں تو اس کا تصور بھی نہیں ہے ۔یہی حال پاکستان کے صوبہ سرحد کا بھی ہے ۔مگر اس طرح کی کوئی گذارش یا وارننگ سننے میں نہیں آئی کہ کوئی شہری جیب میں ہاتھ نہ ڈالے یا اپنا ہاتھ اسلحے سے دور رکھے
کہتے ہیں کہ بندر کے ہاتھ استرا لگ جاتا ہے تو بڑا مسئلہ کھڑا ہوتا ہے ۔بلا شبہ امریکہ نے سائنسی ترقی میں تودنیاکو مات دے دی مگر انسانی ترقی میں پھسڈی رہا ۔جیسے اسلحے انھیں میسر ہیں اس کے حساب سے طاقتور دماغ انھیں میسر نہیں۔اس سے پہلے بھی خبریں آچکی ہیں کہ افغانستاں میں امریکی فوجی سینیٹری پیڈسSanitry Pads باندھے رہتے ہیں ۔کیا معلوم کب ان کی چڈی گیلی اور پیلی ہو جائے ۔یہ اللہ کا انتظام ہے۔سپر پاور کی قسمت میں کیسی بلندی اور کیسی پستی لکھی ہے ۔
امریکہ سپر پاور تو بن گیا مگر ویسے ہی جیسے بندر کے ہاتھ استرا لگ جاتا ہے ۔پوری دنیا میں اس کے مظاہر بکھرے پڑے ہیں ۔وہ اپنا استرا ہر اس طرف گھما دیتا ہے جدھر سے اسے ذرا سا بھی خوف محسوس ہوتا ہے ۔جس قوم سے اسے ڈر اور خوف کا وہم بھی ہوتا ہے تو اس پر جدید اسلحہ بنانے کی پابندی عائد کر دیتا ہے ۔حیرت کی بات ہے کہ دنیا کے کسی دانشور کو یہ سمجھ نہ آیا کہ امریکیوں کے دماغوں میں یہ کیسا خوف بیٹھا ہوا ہے ۔یہ مریضانہ خوف ہے اور اس کا علاج کیا جانا چاہئے ۔اس سے بھی زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ دنیا بجائے اس کے کہ امریکہ کا علاج کرتی اس نے امریکہ سے درآمد اسلاموفوبیا کو خود پر سوار کر لیا ۔دوسری طرف مسلم دور کو دیکھئے۔مسلمان اپنے دور سپر پاوری میں نہ خود کسی سے خوفزدہ ہوئے نہ کسی قسم کا مریضانہ خوف انھوں نے پھیلایا۔انھوں نے اپنے دشمنوں کو مقابلہ کرنے کے برابر کے مواقع دئے کبھی بھی کسی پر بھی جدید اسلحہ نہ تیار کرنے کی پابندی نہ لگائی۔بلکہ جدید اسلحہ کے کاریگر مسلم ممالک سے ہی غیروں کے یہاں گئے اور انھیں مسلمانوں کے برابر آنے میں مدد کی ۔کیا یہ دنیا پر مسلمانوں کا احسان نہیں ہے ؟