امریکہ کی جانب سے شام میں کردوں کی فوج قائم کرنے کے منصوبے پر ترک صدر رجب طیب اردوان شدید برہم ہوئے لیکن کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ بات اتنی آگے بڑھ جائے گی۔ انہوں نے سنگین نتائج کی دھمکی دی تھی اور تازہ ترین اطلاعات کے مطابق ترکی نے اس دھمکی پر عمل درآمد شروع کردیا ہے۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق ترک افواج نے شام کے شمال میں افرین ڈسٹرکٹ پر حملہ شروع کر دیا ہے، جس کا بنیادی مقصد اس علاقے سے کرد ملیشیا ’وائی پی جی‘ کا خاتمہ کرنا بتایا جارہا ہے۔
ویب سائٹ AL-SURA.COMکے مطابق حملے میں ترک سپیشل فورسز، ریگولر فورسز اور ائیرفورس بھی حصہ لے رہی ہے۔ ترکی کرد ملیشیا وائی پی جی کو اپنے امن کے لئے خطرہ قرار دیتا ہے اور اس کے مکمل خاتمے کے لئے پرعزم دکھائی دے رہا ہے۔ یہ گروپ کردستان ورکرز پارٹی کا مسلح ونگ ہے جو ترک حکام کے بیان کے مطابق ایک عرصے سے دہشتگردی کی کارروائیوں میں ملوث رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق ترک ائیرفورس نے 150 اہداف کی نشاندہی کی ہے جن پر حملے جاری ہیں۔ امریکی حمایت یافتہ سیرین ڈیموکریٹک فورسز، جس میں وائی پی جی کے جنگجوﺅں کی بڑی تعداد شامل ہے، نے اس حملے کا جواب دینے کا اعلان کیا ہے۔ دوسری جانب دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سیرین ڈیموکریٹک فورسز کے لئے یہ ایک مشکل کام ہوگا کیونکہ اس کوشش میں وہ اپنے زیر قبضہ علاقوں کو خطرے میں ڈال دیں گے۔ افرین کے دفاع کی کوشش میں جنگ کا رخ ان کے زیر کنٹرول باقی علاقوں کی جانب بھی ہوسکتاہے۔
ترکی کی جانب سے اس بات کو خفیہ رکھا گیا ہے کہ کل کتنی افواج اس آپریشن میں حصہ لے رہی ہیں اور نہ ہی آپریشن کے دورانیے کے بارے میں کچھ بتایا گیا ہے، تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ آپریشن زیادہ طویل نہیں ہوگا اور اگلے چند دن میں ہی اس حوالے سے کوئی بڑی پیشرفت سامنے آسکتی ہے۔