کالم نگار شاہد جمیل
اوسلو
کہا جاتاہے کہ سربراہان ملت عوام کے دلوں کی دھڑکن ان کی امنگوں کے ترجمان ہوا کرتے ہیں۔اوسلو میں چند روز قبل؛ پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف تین روزہ دورے پر تشریف لائے۔کہنے کو تو یہ تین روز کا تھا لیکن پاکستانی کمیونٹی کے لیے تین گھنٹے کا بھی نہیں تھا۔اس دورے کو نہ تو نارویجن میڈیا نے کسی طرح کوریج دی او رنہ ہی پاکستانی ایمبیسی نے ہی اسے عام پبلک کے لیے اوپن رکھا۔وزیر اعظم کا اس قدر مخفی دورہ عا م پاکستانیوں ک لیے کئی طرح کے سوال کھڑے کر گیا ہے۔میں نے متعدد صحافیوں سے اس دورے کے بارے میں بات چیت کی لیکن و ہ بھی کچھ نہ بتا سکے ۔اس دورے کو حقیقتاًٍ چھپا کر رکھا گیا تھا۔
وزیر اعظم کا اصل مقصد یہاں اوسلو میں ایجوکیشن کانفرنس میں شرکت تھی۔جو بچوں کی تعلیم کے لیے منعقد کی گئی تھی۔اس کانفرنس میں یو این او کی جنرل سیکرٹری بانکی مون اور ملالہ یوسف زئی کے نام قابل ذکر تھے۔جنہوں نے تعلیم اور اس سے متعلق امور پر کانفرنس کے مندوبین کو اپنے خیالات سے روشناس کیا۔
ہمارے وزیر اعظم کو اول تو خود تشریف لانے کے بجائے وزیر تعلیم کو بھیجنا چاہیے تھا یا پھر وہ ان کی ٹیم کا حصہ ہوتے۔تین روزہ دورے میں ناروے اور پاکستان کے درمیان سولر انرجی کی ایک یاد داشت پر دستخط کیے گئے۔جس کے ثمرات کہ یہ کس نسل کو مستفید کرے گا اورکب سے کا م شرو ع کرے گا یہ تو کوئی نجومی ہی بتا سکتا ہے۔
دورے کی ایک اوراہم بات وزیر اعظم کا خواتین کے کرکٹ میچ میں شرکت تھی۔اس بارے میں یہ خیال تھا کہ یہ میچ اوپن گرائونڈ میں اور ملک کی بہترین ٹیموں کے کھلاڑیوں کے درمیان کھیلا جائے گا۔لیکن موصوف یہاں بھی اس تاریخی نعرے کی کی بازگشت سے گھبرا گئے۔آپ سمجھ تو گئے ہوں گے۔۔۔
خواتین کا یہ میچ نہ تو شیڈول کا حصہ تھا اور نہ ہی اس طرح ہونا تھا۔لیکن پھر بھی خواتین کو انتہائی قلیل وقت میں یہ میچ ترتیب دینا پڑا۔جس میں وہ خود ہی کھلاڑی اور خود ہی تماشائی تھے۔
وزیر اعظم نے نارویجن وزیراعظم کے ساتھ کرکٹ کھیل کر پاک ناروے دوستی کا ثبوت تو دیا۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ ناروے میں کرکٹ کے قابل تحسین ناموںاور انکی قربانیوں کو فراموش کردیا۔
ناروے میں کرکٹ کے شیدائیوں نے ا سکی کھیل کی حفاظت کسی مقدس شے کی طرح کی ہے۔ان کو ا س طرح کھڈے لائن لگا
میچ میں اکا دکا افراد کی شرکت سے وزیر اعظم نے ان کی سالہا سال کی قربانیوں پر پانی پھیر دیا ہے۔
آخر میں رہی سہی کثر ہماری ایمبیسی نے پوری کر دی۔جو عوام کو مدعو کرنا تو درکنار ان کو متعلقہ معلومات فراہم کرنے سے بھی گریز کرتے رہے۔وزیر اعظم کا اتنا مہنگا دورہ کیا گل کھلاتا ہے اسکا جوابتو شائید آنے والی نسلیں ہی دیںگی۔
میری اس تحریر کا مقصددوسرے جرنلسٹوں کے ملے جلے جذبات عوام کے علم میں لانا ہے۔اگر اس مضمون سے کسی کے جذبات مجروح ہوتے ہیں تو میں معافی کا طلبگار ہوں۔
امید ہے کہ آئندہ آنے والے سربراہان مملکت ایسی کوتاہیوں کو پیس نظر رکھ کر اپنے غیر ملکی دورے ترتیب دیں گے۔