میری بندھن پراجیکٹ پاکستانی خاندانوں کی آسانی

میری بندھن پراجیکٹ اردو فلک کے صفحات پر ان پاکستانیوں کے لیے شروع کیا جا رہا ہے جو اپنے بیٹے یا بیٹی کے لیے جیون ساتھی یا ہمسفر کی تلاش میں ہیں۔اس سے پہلے بھی کچھ برس قبل اردو فلک ڈاٹ نیٹ کے فورم سے انٹر کلچرل وومن گروپ کی جانب سے کامیابی کے ساتھ ایک سال کے لیے چلایا گیا تھا۔پراجیکٹ کے تحت پاکستانی ماؤں اور ان کے بچوں کے تعلیمی اور تربیتی مسائل ناروے میں بسنے والے پاکستانی خاندانوں کے مسائل اور انکی رہنمائی اور حل
کے لیے سیمینار کانفرنسز اور مختلف کورسز منعقد کیے گئے تھے۔جس کی وجہ سے یہاں کئی شادیاں کامیابی سے سرانجام پائی گئی تھیں۔ تاہم ناروے میں پچھلے دس سالوں کے دوران پاکستانی کمیونٹی کی ترجیحات میں کافی تبدیلیاں آ چکی ہیں۔جس کی وجہ بعض ایسے رویے ہیں جن کی وجہ سے نارویجن حکومت کو ایشیائی اور بالخصوص پاکستانی اور انڈین کمیونٹیز کے لیے خاص قوانین بنانے پڑیجن میں س دو قوانین ایسے ہیں جن پرعوامی حلقوں میں بہت ذیادہ بے چینی پائی گئی۔اس سلسلے میں ناروے میں بسنے والی سکھ برادری نے بھی کئی احتجاجی مظاہرے کیے۔جبکہ پاکستانی کمیونٹی نے حسب سابق تھوڑا سا شور مچایا اور پھر سب چپ چاپ ہو کر بیٹھ رہے۔فلاحی تنظیمیں البتہ کمر کس کر میدان میں اتر آئیں ان مسائل کے حل کے لیے جبکہ دوسری جانب نارویجن حکومت نے ان کی مدد سے ایسے پراجیکٹ لانچ کیے جن کی وجہ سے یہاں بسنے والی ایشیائی اقوام کے رویوں میں لچک اور ترجیحات میں بہتری آئی۔وہ قانون یہ تھا کہ کوئی بھی ایشیائی خاندان اپنے وطن سے چوبیس برس سے کم عمر کے لڑکے یا لڑکی کی شادی کر کے نہیں لائے گا۔ناروے میں شادی کرنے پر البتہ یہ پابندی نہیں تھی۔اس کے علاوہ والدین اپنے بچوں کی شادی کے سلسلے میں اپنی مرضی نہیں ٹھونس سکتے۔یعنی جبری شادی پر پابندی لگا دی گئی۔اس مقصد کے لیے کئی شکایات سیل قائم کیے گئے جہاں جبری شادی کا شکار ہونے والے لڑکے اور لڑکیاں شکایات درج کروا سکتے تھے اور ایسے کئی واقعات بھی ہوئے کہ والدین موسم گرماء میں چھٹیاں انڈیا یا پاکستان میں گزارنے کے بہانے جاتے اور بچوں کی جبری شادی کر آتے۔
چنانچہ نارویجن حکومتی حکام نے اس بات پر بھی کڑی نظر رکھنی شروع کر دی کہ جیسے ہی موسم گرماء شروع ہو ایشیائی خاندانوں پر اور انکے ارادوں پہ نظر رکھی جائے۔یہ سب باقدامات حکومت نے ان واقعات اور جرائم کی وجہ سے کیے جو کہ جبری شادی کی نتیجے میں پیش آئے اور جن کی وجہ سے ایشیائی بالخصوص انڈین پاکستانی والدین کاامیج کراب ہو گیا۔
اس کے بعد کئی فلاحی تنظیموں نے گھر بسانے کے لیے خاندانوں کی رہنمائی اور کونسلنگ شروع کر دی۔ناروے میں چونکہ پاکستانیوں کی اکثریت کا تعلق دیہی علاقوں سے ہے اس لیے وہ ہمیشہ شادی کے لیے اپنی ذات برادری کو ہی ترجیح دیتے۔اس وجہ سے بھی شادیوں میں مشکلات پیش آ رہی تھیں۔اس مسلہء کو سلجھانے کے لیے انٹر کلچرل وومن کی سربراہ غزالہ نسیم نے کئی پروگرام،کانفرنسیں اور سیمینار کیے۔ان میں مقامی مساجد کی عالمہ خواتین نارویجن ماہر خندانی امور اور ماہرین نفسیات کو مدعو کیا گیا۔جنہوں نے خواتین کو دلائل سئے سمجھایا کہ کسی گھر یا خاندان کو کامیاب بنانے کے لیے ایک جیسی زات کی نہیں بلکہ ایک جیسی سوچ برداشت اورتحمل کی جرورت ہوتی ہے۔
تنظیم نے اپنے پروگرام وائس آف اوسلو پہ بھی نشر کیے جس کا بہت اچھا نتیجہ نکلا اور کئی خاندانوں نے کامیابی سے ذات برادری کے جھنجٹ میں پڑے بغیر شادیاں کیں۔موجودہ حالات یں جہاں دیگر کاروبار زندگی وبائی مرض کی وجہ سے تعطل کا شکار ہوئے ہیں وہیں فلاحی تنظیموں پر بھی اسکا اثر پڑا ہے۔لہٰٰذا وقت کی ضرورت کو دیکھتے ہوئے اردو فلک ڈاٹ نیٹایک مرتبہ پھر میری بندھن پراجیکٹ سال 2020-21 شرو ع کر رہا ہے۔اسکی انچارج مریم چوھدری ہیں۔
تمام تنظیمیں اردو فلک ڈاٹ نیٹ فورم کو حالات نارمل ہونے تک استعمال کر سکتی ہیں۔
اس سائٹ میں ہر روز باقائدگی سے بڑی تعداد میں قارئین پچھلے آٹھ برس سے مستقل فائدہ اٹھا رہے ہیں اس لیے آپ خود بھی اس پراجیکٹ سے فائدہ اٹھائیں اور اپنے جاننے والوں کو بھی بتائیں۔
یہ جاننے کے لیے کہ اس میں آپ کیسے حصہ لے سکتے ہیں؟
یہ پراجیکٹ کن لوگوں کے لیے خاص طور سے فائدہ مند ہے؟
آخر میری بندھن پراجیکٹ کی کیا خاص بات ہے؟
یہ سب جاننے کے لیے اور
مزید تفصیلات کے لیے ہمارے ساتھ رہیں۔۔۔۔جاری ہے
جاری ہے۔۔

اپنا تبصرہ لکھیں