تحریر: انجنیئر افتخار چودھری

ادب کے افق پر ایسے کئی نام ابھرے جو وقتی چمک دکھا کر ماند پڑ گئے، مگر کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں جن کا چراغ وقت کے گزرنے کے باوجود دھندلا نہیں ہوتا۔ مستنصر حسین تارڑ انہی میں سے ایک ہیں — ایک ایسا نام جس نے اردو نثر کو نہ صرف نئی جہت عطا کی بلکہ سفر، تجربے، احساس اور فکر کے سنگم سے اردو ادب میں ایک نئی صنف کو روح بخشی۔ یہ کہنا کہ تارڑ صاحب نے کوئی عالمی معیار کا کام نہیں کیا، دراصل ادب کو کسی ایک پیمانے پر ناپنے کی کوشش ہے — اور ادب کبھی بھی ایک ہی پیمانے پر نہیں تولا جا سکتا۔ ادب وہ آئینہ ہے جس میں ایک قوم، ایک تہذیب اور ایک عہد کی روح جھلکتی ہے۔ اگر یہ پیمانہ مان لیا جائے تو تارڑ صاحب کی تحریریں صرف سفرنامے نہیں بلکہ پاکستانی معاشرے کی اجتماعی نفسیات کا آئینہ ہیں۔ اکثر ناقدین یہ کہہ کر دامن چھڑا لیتے ہیں کہ تارڑ صاحب نے خود کو “سفرنامہ نگار” کہا، لہٰذا وہ ادیب نہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ادب صرف ناول یا افسانے تک محدود ہے؟ کیا وہ تحریریں جو زمین، فضا، انسان اور وقت کے بیچ تعلق کو دریافت کرتی ہیں، ادب نہیں ہوتیں؟ تارڑ صاحب کے سفرنامے دراصل انسان کی اندرونی مسافت کے بیانیے ہیں۔ “نکلے تیری تلاش میں”، “نردبان”، “خس و خاشاک زمانے”، “پیار کا پہلا شہر” اور “راکھ” صرف کہانیاں نہیں بلکہ زندگی کے مختلف رنگوں اور انسانی تجربات کے استعارے ہیں۔ ان کے ہاں قاری صرف راستوں، پہاڑوں اور دریاؤں کا سفر نہیں کرتا بلکہ اپنے اندر کے اجاڑ، اپنی یادوں اور اپنے ماضی کا بھی سفر کرتا ہے۔ یہی تو ادب ہے — لفظوں میں احساس کی وہ گہرائی پیدا کرنا جس سے انسان خود سے مکالمہ کرے۔
تارڑ صاحب کی تحریروں میں سب سے نمایاں وصف زندگی کی اصل صورت ہے۔ وہ مصنوعی منظر کشی نہیں کرتے۔ ان کے ہاں کردار سانس لیتے ہیں، راستے بولتے ہیں، اور فضا میں ایک مخصوص جذب کی خوشبو پائی جاتی ہے۔ لاہور کی گوال منڈی ہو یا یورپ کی برف پوش وادیاں، ان کے قلم نے ہر منظر کو اس طرح زندہ کیا کہ قاری خود کو اس فضا میں محسوس کرتا ہے۔ یہ کہنا کہ وہ گوال منڈی سے باہر نہیں نکلے، دراصل حقیقت کے برعکس ہے۔ انہوں نے گوال منڈی کو چھوڑا نہیں، بلکہ اسے اپنے اندر لے کر دنیا کے ہر کونے میں گئے۔ یہی تو ادیب کا اصل کمال ہے — جہاں جائے، اپنی مٹی کو ساتھ لے جائے۔ کسی بھی نوبل انعام یافتہ ادیب کو دیکھ لیجیے — مارکز، نادین گورڈمر، ٹونی موریسن، یا ناگئی کیشگو — سب نے اپنے اپنے معاشروں کی کہانیاں لکھیں، اپنے لوگوں کی بولی، اپنے دکھ اور اپنے خواب۔ اگر عالمی معیار کی شرط انگریزی میں لکھنا ہے تو پھر یہ معیار خود متنازع ہے۔ تارڑ صاحب نے اردو میں رہ کر عالمی انسانیت کی کہانیاں سنائیں۔ وہ زبان جس میں انہوں نے لکھا، شاید عالمی منڈی میں فروخت نہ ہو، مگر اس کے قاری کے دل میں وہ جگہ رکھتے ہیں جو کسی ترجمے سے ممکن نہیں۔ جب انہوں نے کہا کہ “میں پہلے سفرنامہ نگار ہوں اور بعد میں ادیب”، تو اس میں خودسپردگی تھی، غرور نہیں۔ وہ جانتے تھے کہ سفر ہی زندگی ہے — اور ہر انسان اپنے وجود کے سفر پر ہے۔ تارڑ صاحب کے نزدیک سفرنامہ صرف جغرافیائی سفر نہیں بلکہ روحانی و فکری ارتقاء کا استعارہ ہے۔ اسی لیے ان کے سفرنامے پڑھ کر قاری صرف معلومات نہیں لیتا بلکہ خود ایک تجربے سے گزرتا ہے۔
یہ تاثر دینا کہ انہوں نے سفرنامے صرف پیسے کمانے کے لیے لکھے، ایک سطحی سوچ ہے۔ اگر پیسہ ہی مقصود ہوتا تو وہ سیاست، ٹی وی یا اشتہار کی دنیا میں رہتے، جہاں ان کا چہرہ اور نام پہلے ہی ایک برانڈ بن چکا تھا۔ مگر انہوں نے کمر بستہ ہو کر برف میں، ریگستانوں میں، پہاڑوں میں، اور اجنبی شہروں میں خود کو داؤ پر لگا دیا تاکہ قاری کو ایک نئے جہان کی جھلک دکھا سکیں۔ یہ کوئی تجارتی کوشش نہیں بلکہ لفظوں کی عبادت تھی۔ اکثر ناقدین ان کا موازنہ انتظار حسین سے کرتے ہیں، مگر یہ موازنہ غیرمنصفانہ ہے۔ انتظار حسین کے ہاں داستانی روایت کا تسلسل ہے، جب کہ تارڑ کے ہاں جدید انسان کی نفسیاتی، معاشرتی اور جغرافیائی مسافت۔ دونوں اپنی جگہ اہم ہیں، مگر تارڑ صاحب کی مقبولیت نے اردو ادب کو عوامی سطح پر زندہ رکھا۔ ان کی تحریریں صرف ادبی حلقوں تک محدود نہیں بلکہ عام قاری کے دل تک پہنچتی ہیں۔ یہی تو بڑا ادیب ہوتا ہے — جو کتاب کو علم سے نکال کر زندگی میں لے آئے۔ تارڑ صاحب کے جملوں میں منظر نگاری کی حیرت انگیز قوت ہے۔ ان کے پاس الفاظ کا خزانہ ہے جو نہ صرف تصویری تاثر پیدا کرتا ہے بلکہ قاری کے ذہن میں ایک نغمگی پیدا کر دیتا ہے۔ ان کے ہاں طنز بھی ہے، مزاح بھی، اور وہ رومان بھی جو پاکستانی نثر میں بہت کم نظر آتا ہے۔ ان کی تحریر میں زندگی دوڑتی ہے، سانس لیتی ہے، محسوس ہوتی ہے۔
تارڑ صاحب کے کردار حقیقت سے جڑے ہیں۔ وہ انسان کو اس کی پوری کمزوری، اس کے تضاد، اس کی خواہش اور خوف کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ “پیار کا پہلا شہر” میں وہ محبت کو ایک سماجی اور نفسیاتی عمل کے طور پر دکھاتے ہیں۔ “خس و خاشاک زمانے” میں وقت کی گرد میں اٹھی انسانیت کا نوحہ ہے۔ اور “راکھ” میں وہ قوم، سیاست اور شناخت کے ایسے سوال اٹھاتے ہیں جو آج بھی تازہ محسوس ہوتے ہیں۔ نوبل انعام ایک علامت ضرور ہے، مگر کسی فنکار کی اصل عظمت اس کے قاری کے دل میں ہوتی ہے۔ تارڑ صاحب کے قاری صرف پاکستان میں نہیں بلکہ دنیا بھر میں ہیں۔ ان کے الفاظ نے ہزاروں نوجوانوں کو کتاب کی طرف واپس لایا۔ انہوں نے ٹی وی، اخبارات اور ادبی دنیا میں اردو کو زندہ زبان بنا کر دکھایا۔ ان کے بغیر اردو ادب کا منظرنامہ ادھورا ہے۔ اگر عالمی ادارے انہیں انعام نہ دیں، تو کیا ہوا — قوم نے انہیں اپنے دلوں کا انعام پہلے ہی دے دیا ہے۔ مستنصر حسین تارڑ کی تحریروں میں پاکستان کی دھڑکن سنائی دیتی ہے۔ وہ لاہور کے کوچوں سے لے کر یورپ کے پہاڑوں تک، اور گوجر خان سے لے کر گلگت بلتستان کے درّوں تک، اپنی شناخت اور اپنی مٹی کے رنگ ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ وہ ایک ایسا ادیب ہے جو خود کو بار بار نیا کرتا ہے، جو سفر میں ہے، مگر منزل کے بغیر نہیں۔ ادب صرف بڑے انعام جیتنے والوں کا نہیں ہوتا — ادب ان لوگوں کا ہوتا ہے جو لفظوں سے محبت کرتے ہیں، انسان سے جڑے رہتے ہیں، اور اپنے قاری کے دل میں روشنی جگاتے ہیں۔ تارڑ صاحب انہی میں سے ہیں — ایک ایسا ادیب جو شاید نوبل نہ جیت سکا، مگر اپنی قوم کا دل ضرور جیت گیا۔

Recent Comments