عابدہ رحمانی
از
امریکہ میں پہلا مادر ڈے مغربی ورجینیا کےشہر گریفٹن میں اینا جاروس نے اپنی ماں کی یاد میں 1908 کو منا یا ، وہ اپنی ماں کے 1905 میں انتقال کے بعد اسکی کوشش کر رہی تھی کہ اس روز کو سرکاری سر پرستی حاصل ہو لیکن جب یہ دن ایک کاروباری حیثیت اختیار کر گیا تو اینا کافی دل برداشتہ ہوئی-
کاروباری حلقوں نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا اب ہر سال کمرشل بازاری سطح پر ہر طرف ہلچل مچ جاتی ہے – نہ چاہتے ہوئے بھی لوگ ماؤں کو یاد کر لیتے ہیں کوئی تحفہ،کارڈ، پھول یا کیک وغیرہ –اور بہت سارے سٹوروں میں مادرز ڈے کی خصوصی سیل لگ جاتی ہیں ۔ اب تو یہ رواج پایا ہے کہ ہر کوئی ایک دوسرے کو ہیپی مادرز ڈے کہتا ہے۔ماں کو بھی کم ازکم مغربی معاشرے میں احساس ہوتا ہے کہ اسکا بھی کوئی وجود ہے- خاصکر بوڑھی مائیں جنکا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا–حالانکہ انمیں سے بیشتر وہ ہوتی ہیں جنہوں نے تنہا اولاد کی پرورش کی ہوتی ہے –اللہ بھلا کرے ڈی این اے ٹیسٹ کا ورنہ بیشتر کو تو باپ کا معلوم ہی نہ ہو پاتا–
اب دنیا کے تمام ممالک مشرق ، مغرب ، شمال اور جنوب میں مادرز ڈے اپنے اپنے لحاظ سے منایا جاتا ہے- اور پاکستانی بھی کیوں پیچھے رہیں اب وہاں اور نہیں تو تعلیمی اداروں اور میڈیا کی برکت سے مادرز ڈے عروج پر ہے۔
ماں کی اہمیت تو آفرینش سے مجسم ہے ٍ-ماں کے وجود اور اسکی قربانیوں سے کون انکار کرسکتا ہے وہ نو ، دس مہینے حمل( جسکے معنی بوجھ کے ہیں) اٹھاتی ہے -درد زہ سے گزر کر بچے کوجنم دیتی ہے پھر پالنے پوسنے کا عمل شروع ہوتا ہے دودھ پلانے سے لیکر تمام پرورش کی بیشتر ذمہ واری ماؤں پر ہی عائد ہوتی ہے –دودھ چاہے اپنا ہو چاہے بوتل کا ہو- ایک کمزور محتاج بچہ ماں کی توجہ اور محبت سے ہی پلتا بڑھتا ہے-اسلئے ہمارے معاشرے میں دودھ کو جتلانا پرانی ماؤں کا ایک مؤثر ہتھیار ہوتا تھا “دودھ نہیں بخشونگی” وہ بات بے بات اپنی اولاد کو دھمکی دیتیں – ماں کی اہمئت ، محبت اور ایثار پوری دنیا اور تمام معاشروں میں مسلم ہے – جب ڈایپرز کا زمانہ نہیں تھا تو مائیں گیلے پر لیٹ کر بچے کو سوکھے پر ڈالدیتیں یہ تو چھوٹی چھوٹی باتیں تھیں کتنی ماؤں کو بے انتہا کھٹن قربانیوں اور آزمائشوں سے گزرنا پڑتاہے- یہ قربانیاں ہمیشہ مختلف صورتوں سے جاری رہتی ہیں چاہے بچے بڑی عمروں کے ہو جائیں– ماں بننا عورت کی ذات کی تکمیل اور ایک حسین ترین جذبہ ہے ,اسکی محرومی کا احساس بے اولاد ماؤں سے بہتر کون جان سکتا ہے-
اکثر مسلمان جو مشترکہ خاندان میں رہتے ہیں کہتےہیں ہمارے لئے تو ہر روز ہی مادر ڈے اور فادر ڈے ہے —
اسلام میں قرآن و حدیث میں ماں اور والدین کے حقوق کا پر زور تذکرہ ہے “وَقَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعْبُدُوْا اِلَّآ اِیَّاہُ وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا۔ اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَکَ الْکِبَرَ اَحَدَھُمَا اَوْ کِلٰھُمَا فَلَا تَقُلْ لَّھُمَا اُفٍّ وَّلَا تَنْھَرْھُمَا وَقُلْ لَّھُمَا قَوْلًا کَرِیْمًا۔ وَاخْفِضْ لَھُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْھُمَا کَمَا رَبَّیَانِیْ صَغِیْرًا۔” (بنی اسرائیل:۲۳، ۲۴)
ترجمہ:… “اور تیرے رَبّ نے حکم کردیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت مت کرو اور اپنے ماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک کیا کرو، اگر تیرے پاس ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کو کبھی “اُف” (ہوں) بھی مت کرنا اور نہ ان کو جھڑکنا، اور ان سے خوب ادب سے بات کرنا اور ان کے سامنے شفقت سے اِنکساری کے ساتھ جھکے رہنا، اور یوں دُعا کرتے رہنا کہ اے میرے پروردگار! ان دونوں پر رحمت فرمائیے جیسا انہوں نے مجھے بچپن میں پالا ہے۔”
ایک حدیث میں ہے:
“عن أبی أمامة رضی الله عنہ أن رجلًا قال: یا رسول الله! ما حق الوالدین علٰی ولدھما؟ قال: ھما جنتک أو نارک۔” (ابنِ ماجہ ص:۲۶۰)
ترجمہ:… “حضرت ابو اُمامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ: ایک شخص نے پوچھا: یا رسول اللہ! والدین کا اولاد کے ذمے کیا حق ہے؟ فرمایا: وہ تیری جنت یا دوزخ ہیں (یعنی ان کی خدمت کروگے تو جنت میں جاوٴگے، ان کی نافرمانی کروگے تو دوزخ خریدوگے)۔”
ایک اور حدیث میں ہے:
“عن ابن عباس رضی الله عنہما قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: من أصبح مطیعًا لله فی والدیہ أصبح لہ بابان مفتوحان من الجنّة وان کان واحدًا فواحدًا ومن أصبح عاصیًا لله فی والدیہ أصبح لہ بابان مفتوحان من النّار ان کان واحدًا فواحدًا۔ قال رجل: وان ظلماہ؟ قال: وان ظلماہ وان ظلماہ وان ظلماہ۔”
ترجمہ:… “حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: جو شخص والدین کا فرمانبردار ہو اس کے لئے جنت کے دو دروازے کھل جاتے ہیں اور اگر ان میں سے ایک ہو تو ایک، اور جو شخص والدین کا نافرمان ہو اس کے لئے جہنم کے دو دروازے کھل جاتے ہیں، اور اگر ان میں سے ایک ہو تو ایک۔ ایک شخص نے عرض کیا کہ: خواہ والدین اس پر ظلم کرتے ہوں؟ فرمایا: خواہ اس پر ظلم کرتے ہوں، خواہ اس پر ظلم کرتے ہوں، خواہ اس پر ظلم کرتے ہوں۔”
حضرت ابوہریرہؓ سے مروی صحیح حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضرہوکر عرض کیا:
مَنْ أَحَقُّ النَّاسِ بِحُسْنِ صَحَابَتِي قَالَ أُمُّكَ قَالَ ثُمَّ مَنْ قَالَ ثُمَّ أُمُّكَ قَالَ ثُمَّ مَنْ قَالَ ثُمَّ أُمُّكَ قَالَ ثُمَّ مَنْ قَالَ ثُمَّ أَبُوكَ(صحیح بخاری:5971صحیح مسلم:2548)
’’میرے حسن صحبت کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے؟ آپ نے فرمایا:تیری ماں۔اس نے عرض کیا :پھر کون؟ آپ نے فرمایا:تیری ماں۔ اس نے عرض کیا :پھر کون؟ آپ نے فرمایا:تیری ماں۔اس نے عرض کیا:پھر کون؟ آپ نے فرمایا: تیرا باپ۔‘‘
ایک روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا:
أُمُّكَ ثُمَّ أُمُّكَ ثُمَّ أُمُّكَ ثُمَّ أَبُوكَ ثُمَّ أَدْنَاكَ أَدْنَاكَ(صحیح مسلم:2548)
’’تیری ماں ،پھر تیری ماں، پھر تیری ماں، پھر تیرا باپ،پھر جوشخص زیادہ قریب ہے ، وہ اسی قدر زیادہ مستحق ہے۔‘‘
مذکورہ احادیث سے ثابت ہوا کہ ماں کا حق باپ سے بڑھ کر ہے کہ آپ ﷺ نے ماں کے حق کو تین بار قرار دیا اور اس کا سبب یہ ہے کہ ماں نے حمل ، وضع حمل، دودھ پلانے ، دودھ چھڑاے اور پرورش و تربیت کے سلسلہ میں بہت سی صعوبتوں اور مشقتوں کو برداشت کیا ہوتا ہے اورباپ نے جو نفقہ اور تعلیم و تربیت کے فرائض سرانجام دیے ، ان کی وجہ سے اس کا ایک حق مانا گیا ہے۔
ایک اور حیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تماری ماں کے قدموں کے نیچے جنت ہے –دنیا کے کسی اور مذہب میں ماں باپ کے حقوق اسطرح اجاگر نہیں کئے گئے اسطرح اسلامی لحاظ سے تو جسکی ماں زندہ ہےاور ساتھ ہی رہایش پذیرہے اسکے لۓ ہر روز مادرز ڈے ہے – لیکن جو اپنی ماں سے دور ہیں تو اسکو یاد کرنیسے اسکی خوشیوں میں اضافہ تو ضرور ہوگا لیکن اسکا حق اس سے کہیں زیادہ ہے–
دنیا کی تمام ماؤں کو ماں کا دن مبارک ہو-