سچی باتیں۔۔۔ رمضان کی برکتوں سے محرومی۔۔۔
تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادی
1933-01-20
وَهُوَ شَهْرٌ أَوَّلُهُ رَحْمَةٌ، وَأَوْسَطُهُ مَغْفِرَةٌ، وَآخِرُهُ عِتْقٌ مِنَ النَّارِ، (حدیث نبوی)
یہ وہ ماہ مبارک ہے، جس کا ابتدائی حصہ اللہ کی رحمت ہے، درمیانی حصہ مغفرت ہے، اور آخری حصہ، آگ سے آزادی ہے۔
مبارک مہینہ ختم ہونے کو آیا، عشرۂ اول، رحمت کے لئے مخصوص تھا۔ آپ کے حصہ میں اس دولت میں سے کتنا حصہ آیا؟ عشرۂ دوم میں مغفرت ہی مغفرت تھی، آپ نے اس خزانہ سے کتنا کمایا؟ عشرۂ سوم میں آگ سے آزادی، اور عذاب سے نجات ہی نجات ہے، آپ اس حصہ کا استقبال کیونکر کررہے ہیں! اس کے انعام اور بخششوں سے کس حد تک فائدہ اُٹھارہے ہیں؟ اس لٹتی ہوئی دولت کو آپ کہاں تک سمیٹ رہے ہیں؟ دن نکلتا، آفتاب چمکتا، اور روشنی پھیلتی ہے، مگر کن کے لئے؟ اُن کے لئے جو آنکھیں رکھتے ہیں، اور آنکھوں سے کام لیتے ہیں۔ جو گھر کے کونے میں چھپ کر اپنی آنکھیں کَس کر بند کرلے، اُس کے لئے دوپہر کی کھڑی دھوپ ، اور رات کا اندھیرا گھُپ، دونوں برابر ہیں۔ رمضان آتاہے، مگر کن کے لئے؟ اُن کے لئے جو اُس کی طرف بڑھیں، لپکیں، دوڑیں اورقدرم اُٹھائیں۔ رمضان کی آمد کے وقت اگر خدانخواستہ آپ نے نہیں سوچا ، تواب ، خدا کے واسطے، اس کے چلتے چلاتے تو سوچ لیاجائے! دو چار راتیں یا دوچار دن بھی اگر اس پاک وپاکیزہ مہینہ کے، واقعۃً مل جائیں، تو بھی بہت غنیمت ہے۔
قال ان جبرائیل عرض لی فقال بَعُدَ من أدرک رمضان فلم یغفر لہ قلت امین۔ (حدیث نبوی)
حضور نے فرمایا، جبرائیل میرے سامنے آئے تھے، اور اُنھوں نے کہا ہلاکت ہو اُس شخص پر جس نے رمضان کا مبارک مہینہ پایا، اور پھر بھی اُس کی مغفرت نہ ہوئی۔ میں نے اس دعا پر کہا آمین۔
وعدے آپ اوپر سُن چکے تھے، اب وعید بھی سُن لی؟ اور واقعہ بھی یہی ہے، کہ اس سے بڑھ کر بدنصیبی اور محرومی اور کیا ہوسکتی ہے۔ آفتاب ٹھیک دوپہر کو پوری تیزی کے ساتھ چمک رہاہے، اور ہم اپنے کو اندھا بنائے ہوئے ہیں! کھیت عین دریا کے کنارے واقع ہیں، اور ہم نے پانی دینے کی قسم کھارکھی ہے! حرمان اور خسران جو کچھ بھی ہمارے حصہ میں آئے، کم ہے……اب آپ فرمائیں، کہ ان بیش بہا گھڑیوں سے آپ نے کہاں تک فائدہ اُٹھایا؟ توبہ واستغفار کے ان نادر موقعوں سے آپ نے کتنا کام لیا؟ راتوں کے کتنے گھنٹے بجائے بستر کے مصلے پر گزارے؟ اپنے گناہوں کو کتنی بار یاد کیا؟ کتنی بار اُنھیں یاد کرکے آنکھیں نہ سہی، دل رودیا؟ چھوٹے ہوئے فرائض کے کفارہ کی کیا کیا تدبیریں اختیار کیں؟ بندوں کے جو حقوق اپنے ذمہ واجب رہ گئے، اُن کی تلافی کی کیا کیا صورتیں سوچیں؟ ان صورتوں پر عمل کہاں تک کیا؟ کتنے روٹھے ہوؤں کو سنایا؟ کتنے اپنے توڑے ہوئے دلوں کو جوڑا؟ کتنے اپنے ستائے ہوؤں کی دلدہی کی؟ کتنوں کو معاف کیا؟ کتنوں نے خود معافی چاہی؟ زبان کو کن کن موقعوں پر غیبت سے، دل آزاری سے، جھوٹ سے روکا؟ کلام مجید کی کتنی دیر تلاوت کرکرکے اپنے رب سے ہمکلامی کا لطف حاصل کیا؟ ماں کے، باپ کے ، بزرگوں کے، ہمسایوں کے، دوستوں کے، برادری کے، محلہ کے، بستی والوں کے، قوم کے، کس کس کے حقوق کی ادائی پر توجہ فرمائی گئی؟ کتنے پچھلے قرضے اُتارنے کی نوبت آئی؟
یہ چند دن، اور چند راتیں جو باقی رہ گئی ہیں، سال بھر کے بہترین دن اور بہترین راتیں ہیں، آئندہ سال دیکھئے کس کس کو نصیب ہوں اور کس کس کو نہ ہوں۔ شب قدرکے، برتراز وہم وگمان، فضائل پر خود قرآن مجید ناطق ہے۔ وہ اسی آخری عشرہ میں ہے، اس کی تلاش سے کوئی شب اب خالی نہ گزرنی چاہئے، للہ اپنی خیر خواہی میں اپنے اوقات کی حفاظت کیجئے، اور للہ ان اوقات خاص میں اس تباہ کار ونامہ سیاہ بے عمل کو نہ بھول جائیے گا، جو دوسروں کو یہ سب کچھ سنارہاہے، اور خود کہیں عمل کے قریب بھی ہوکر نہیں گزرتا۔ مرض ظاہری ہو یا باطنی، جب حد سے گزرجاتاہے، تو دوسروں کی دعاؤں ہی کا سہارا رہ جاتاہے، اور بس۔