سوہنیا ربا پاکستان دی خیر ہوے
تحریر عارف کسانہ سویڈن
ایک برطانوی جریدے نے اسکینڈینیویا کے تینوں ممالک یعنی سویڈن ناروے اور ڈنمارک کو بلند معیار زندگی اور معاشی استحکام میں دنیا میں پہلی پوزیشن پر قرار دیا ہے۔مگر ان تینوں ممالک کی قومی فضائی کمپنی ایس اے ایس دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ گئی ہے۔ان تینوں ممالک کے ان میں پچاس فیصد حصص ہیں۔ جبکہ باقی پچاس فیصد نجی اداروں اور عوام کے ہیں۔سویڈن کی طرف سے کثیر مالی اعانت سے بھی فضائی کمپنی کی حالت نہیں سدھر سکی۔اب چھہ ہزار سے ذائد مالازموں کو نکالنے ،تنخواہیں اور پنشنیں کم کرنے اور دیگر اخراجاتک کم کر کے اسے بچانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔سویڈن کی نسل پرست جماعت سویڈش ڈیموکریٹس کے پارلیمانی اور معاشی امور کے ترجمان ایرک المقوسٹ کی ایک وڈیو سامنے آنے پر انہیں اپنے عہدے سے ہاتھ دھونے پڑے ہیں۔ مذکورہ وڈیو میں انہوں نے نسل پرستانہ اور انتہائی غیر مہذب الفاظ استعمال کیے تھے۔ اس معاملے کو سویڈش پریس نے بہت ذیادہ اہمیت دی ۔نتیجہ میں ایک نسل پرست سیاسی پارٹی اپنے رہنماء سے محروم ہو گئی۔ دوسری جانب پاکستان کے حالات ملاحظہ کریں۔پاکستان کے سپریم کورٹ نے دوہری شہریت کے حامل افراد پر آئینی صورتحال واضع کر کے ایسے افراد پر جو پاکستان کے علاوہ کسی اور ملک کی بھی شہریت رکھتے ہیں کو عوامی نمائندگی کے لیے نااہل قرار دے دیا ہے۔یورپ کے ممالک کی غالب پاکستانی اکثریت انہی ممالک کی شہریت رکھتی ہے جہاں وہ مقیم ہیں۔اس کے ساتھ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو بھی ووٹ کا حق نہیں ہے۔قرائن بتاتے ہیں کہ اگلے سال کے الیکشن میں انہیں ووٹ ڈالنے کا حق نہیں ملے گا۔حکمران جماعتوں کو شک ہے کہ اگر انہیں ووٹ کا حق دیا گیا تو اکثریت اقتدار کے مزے لینے والی جماعتوں کو ووٹ نہیں ملیں گے۔ اس کے بجائے بیرون ملک رہنے والے پاکستانیوں بالخصوص یورپ کے پاکستانیوں کو اپنی توانائیاں پاکستانی سیاست اور سیاستدانوں پر ضائع نہیں کرنی چاہیں ۔اس کے بجائے جہاں وہ رہتے ہیں وہاں کی سیاست اور اداروں میں سرگرم ہونا چاہیے۔تاکہ وہ اور ان کی آنے والی نسلیں بہتر حالات میں رہ سکیں اور اپنے ہاں کے مسائل حل کر سکیں۔بیرون ملک پاکستانی سیاسی جماعتیں بنانے کے بجائے پاکستان میں اپنے عزیزوں او رشتہ داروں کی فکری تربیت کی جائے۔انہیں باور کرایا جائے کہ وہ اہل افراد اور بے داغ قیادت کو منتخب کریں۔لاکھوں کی تعداد میں بیرون ملک مقیم پاکستانی اگر یہ مہم شروع کریں تو بہتری کی امید کی جا سکتی ہے۔یہ ذیادہ موثر کردار ہو گا۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو اگر چہ ووٹ کا حق حاصل نہ بھی ہومگر پھر بھی ان کے دلوں میں پاکستان کا دل دھڑکتا ہے۔اویس قادری جو ایک عرصہ سے امریکہ میں مقیم ہیں وہ مسلم یونیورسٹی ،علی گڑھ پنجاب یونیورسٹی لاہور اور واشنگٹن یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ ہیں۔وہ امریکہ میں کئی سماجی دینی اور بین المذہبی تنظیموں سے وابسطہ ہیں کئی ادبی جرائد سئے منسلک ہیں۔اور علامہ اقبال کے شیدائی ہیں وہ بتاتے ہیں کہ حج کے موقع پر وہ کعبہ کے ایک ستون کے ساتھ کھڑے ہو کر دعا مانگنے والے تھے کہ مجھے پیچھے سے ایک پاکستانی دیہاتی کی انتہائی دکھ بھرے اور التجا ء والے لہجے میں دعاکی آواز سنائی دی۔سوہنے ربّا پاکستان دی خیر ہوے ۔سوہنے ربّا اس ملک دی حفاظت فرما۔اویس جعفری کہتے ہیں میں اپنی دعا بھول گیا اور اس دیہاتی کی دعا کے ساتھ آمین کہتا گیا۔اور آنسوئوں کی برسات شروع ہو گئی۔اس دیہاتی کی دعا اٹھارہ کروڑ عوام کے دل کی صدا ہے۔اور ملک کے حالات پر ہر ایک آنکھ خون کے آنسو بہا رہی ہے تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ہر ایک اس سے آگاہ ہے مگر صدر صاحب شگوفے چھوڑ رہے ہیں کہ ہمارا سنہری دور عوام اہمیشہ یاد رکھیں گے اور انکی پارٹی اگلا الیکشن کارکردگی کی بناء پر جیتے گی۔کون سا سنہری دور عوام کیا یاد رکھیں گے ؟؟کہ انکے دور میں کراچی میں ہر روز موت کا کھیل کھیلا جارہاتھا۔بلوچستان میں قانون نام کی کوئی چیز نہیں کرپشن کا گراف اوپر جا رہا ہے۔غریب عوام کی امانت قومی خزانے کو شیر مادر کی طرح لوٹا جا رہا ہے تمام قومی ادارے تباہی کے دہانے پر ہیں۔کیا بد ترین لوڈ شیڈنگ،گیس کی بندش اور امن و امان نہ ہونے کو یاد رکھیں گے۔اگر یہ سنہری دور ہے تو پھر تاریک دور کیا ہو گا۔بد ترین جمہوریت اگرچہ بہترین آمریت سے بہتر ہے مگرپاکستان کے حوالے سے یہ بھی بہتر ہے کہ وہاںحقیقی جمہوریت صرف آمرانہ دور میں تھی۔اور جمہوری دور میں بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے گئے حالانکہ عوام کی اکثریت کے مسائل کا تعلق عوامی حالات سے ہوتا ہے۔اسی طرح آمرانہ دور میں تعلیمی ترقی ذیادہ رہی ہے۔گذشتہ مشرف دور میں جس طرح ڈاکٹر عطاالرحمٰن کی قیادت میں تعلیمی کمشن ملک میں اعلیٰ تعلیم کے لیے کوشاں تھا اور نو بین الاقوامی یو نیورسٹیوں کے قیام کی کوششیں ہو رہی تھیں۔موجودہ حکومت نے نہ صرف اسے ختم کیا بلکہ تعلیم کے لیے جی ڈی پی کم کر کے صرف ایک اعشاریہ آٹھ فیصد کر دیا۔ اس طرح پاکستان دنیا میں سب سے کم تعلیم بجٹ والے ملکوں میں ساتویں نمبر پر ہے۔پاکستان کے مقابلے میںبرصغیر سمیت دوسرے غریب ممالک بھی تعلیم پر ذیادہ بجٹ خرچ کرتے ہیں۔بھارت کا مقابلہ فوجی سطح پر کرنے کے بجائے تعلیمی سطح پر کیا جانا چاہیے۔کشمیر سویڈن کمیٹی نے پاکستان کے وزیر داخلہ کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا حصہ اور وہاں کی جدوجہد آزادی کو شورش قرار دینے پر حیرت اور افسوس کا اظہار کیا اور حیرت کی بات یہ ہے کہ اٹارنی جنرل نے بھی ویسے ہی عدالت کے سامنے پیش کیا۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سپریم کورٹ اس پر سخت نوٹس لیتا اور متعلقہ سیکرٹری کے خلاف تادیبی کاروائی کی جاتی۔مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ ماضی میں بھی اس قسم کے واقعات اعلی ٰ عدالتوں میں پیش آتے رہے ہیں۔گنگا طیاروں کو اغوا کر کے پاکستان لانے والے حریت پسندوں ہاشم قریشی اوراشرف قریشی کو مقبوضہ کشمیر سے بغیر سفری دستاویزات کے پاکستان آنے پر سزا دی گئی۔اسی طرح انیس سو چھیتر میں حریت پسند رہنماء عبدلحمید دیوانی اور اس کے چھہ ساتھیوں پر بھارتی طیارہ اغوا کرنے کے جرم میں مقدمہ چلایا جا رہا تھا تو جج نے کہا کہ وہ اس کشمیر سے تعلق رکھتے ہیں جو بھارت کے پاس ہے۔لہٰذا وہ بھارتی شہری ہیں اس پر حریت پسندوں نے کہا کہ ہم کشمیری ضرور ہیں مگر بھارتی شہری نہیں ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ عدالت میں ہم نہیں کھڑے بلکہ پاکستان کی کشمیر پالیسی کھڑی ہے۔اعلیٰ حکومتی اہلکاروں کو پاکستان کی پالیسیوں پر بہت سوچ بچار کے بعد بیان جاری کرنا چاہیے۔اور جہاں کوتاہی ہو رہی ہے اسکا سد باب بھی ضروری ہے۔