زرد صحافت کا نیا روپ
شاہنواز فاروقی
صحافت ایک ایسا آلہ ہے جو ڈاکٹر کے ہاتھ میں ہو تو نشتر ہے، رہزن کے ہاتھ میں ہو تو چاقو ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل چیز صحافت نہیں، انسان ہے۔ کہنے کو ڈاکٹر بھی انسان ہے ارہزن بھی انسان ہے۔ مگر ڈاکٹر چاقو کو نشتر بنادیتا ہے اور رہزن نشتر کو بھی چاقو میں تبدیل کردیتا ہے۔ اس کی وجہ ڈاکٹر اور رہزن کے مقاصدِ حیات کا فرق ہے۔ ڈاکٹر مریض کو شفایاب کرنا چاہتا ہے، اور رہزن ایک صحت مند انسان کو لوٹ کر اسے مرض میں مبتلا کرنا چاہتا ہے۔ چنانچہ ڈاکٹر کی چیرپھاڑ ایک فن ہے، ایک آرٹ ہے، ایک ہنر ہے جس میں معنی ہیں، افادیت ہے اور ایک درجے کا حسن ہے۔ اس کے برعکس رہزن کا چاقو ایک اندھی قوت ہے۔ اس کے استعمال میں نہ کوئی ہنر ہے، نہ مفہوم ہے، نہ کوئی حسن ہے۔ایک زمانہ تھا کہ ہماری صحافت صرف صحافت تھی، اور صحافیوں اور اخبارات کے قارئین کو زرد صحافت کے معنی بھی معلوم نہ تھے۔ بعض لوگ اس زمانے کو شخصی صحافت کا زمانہ کہتے ہیں۔ لیکن یہ ایک غلط خیال ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا محمد علی جوہر، مولانا حسرت موہانی اور سید ابوالاعلی مودودی کی صحافت شخصی صحافت نہیں تھی۔ یہ اجتماعی صحافت تھی۔ اس دور کے صحافی اپنے معاشرے سے اس طرح منسلک تھے کہ مولانا محمد علی جوہر معاشرے کا اجمال تھے اور معاشرہ گویا مولانا محمد علی جوہر کی تفصیل تھا۔ شخصی صحافت تو ہمارے زمانے میں پیدا ہوئی ہے۔ یہ صحافت حسین ہارون، میر شکیل الرحمن اور مجید نظامی کی صحافت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زرد صحافت ہمارے زمانے ہی میں نمودار ہوئی ہے۔ابتدا میں زرد صحافت کا مفہوم شام کے اخبارات تھا۔ شام کے اخبارات کی مشکل یہ تھی کہ وہ خود کو صبح کے اخبارات سے کسی طرح ممتاز کریں؟ اس کی واحد صورت انہیں یہ نظر آئی کہ خبروں اور ان کی پیشکش کو سنسنی خیز بنادیا جائے۔ اس کا طریقہ یہ نکالا گیا کہ جو خبر صبح کے اخبار میں ایک کالم یا دو کالم میں شائع ہوئی اسے شام کے اخبارات نے شہہ سرخی بنادیا۔ ایک کالم کے لائق تصویر کو انہوں نے چار اور چھ کالموں تک پھیلا دیا۔ شام کے اخبارات میں مقابلہ شروع ہوا تو شام کے بعض اخبارات نے فحاشی اور عریانی کے ذریعے انفرادیت تخلیق کرنے کی کوشش شروع کردی، یہاں تک کہ 1990 کی دہائی میں بات بلیک میلنگ تک جاپہنچی۔ تاہم زرد صحافت صحافت کے مضافات میں پڑی ہوئی ایک شے تھی۔ لیکن جنرل پرویزمشرف کے زمانے میں ہونے والے ٹیلی دھماکے نے زرد صحافت کو صحافت کے مرکزی دھارے میں شامل کردیا ہے۔اس کی ایک صورت ٹیلی وژن چینلز کی نام نہاد بریکنگ نیوز ہے۔ اصول ہے کہ چیونٹی کو چپل اور ہاتھی کو گرز سے مارا جاتا ہے۔ لیکن ہمارے ٹیلی وژن چینل چیونٹی کو بھی گرز سے مار رہے ہیں۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ وہ چیونٹی کو مارنے کے لیے ابلاغی ٹینک استعمال کرتے نظر آتے ہیں۔ ایک ایسی خبر جو صبح کے اخبار کے ایک کالم میں ڈیڑھ انچ سے زیادہ جگہ نہ گھیرتی، ہمارے ٹیلی وژن چینلز پر بریکنگ نیوز بن جاتی ہے اور پانچ سے پندرہ منٹ تک نشر ہوتی رہتی ہے۔ ایسی سنسنی خیزی، ایسا خبری مبالغہ زرد صحافت کے علم بردار اخبارات میں بھی دیکھنے میں نہیں آیا۔ اس کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ معاشرے کی منفیت کی رائی پہاڑ جتنی نظر آرہی ہے۔ اس صورت حال کا ایک اثر یہ ہے کہ سنسنی خیزی لوگوں کا ذوق بنتی جارہی ہے اور بڑی اور چھوٹی خبر کے اخلاقی اور نفسیاتی اثر کا فرق مٹتا جارہا ہے۔ سنسنی خیزی کے بارے میں یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ اس سے اعصاب شکنی کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے، اور اگر یہ اعصاب شکنی ٹیلی وژن جیسے ذریعے کے حوالے سے ہو تو اس کے نقصان کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ٹاک شو کہنے کو محض ایک پروگرام ہے، مگر ٹیلی وژن کی اسکرین پر ٹاک شو معاشرے کی کلیت کی علامت بن جاتا ہے اور معاشرے کے لیے ہم آہنگی ناگزیر ہے۔ لیکن ہمارے ٹیلی وژن چینلز نے ٹاک شو کو مرغوں کی لڑائی بنادیا ہے۔ مرغوں کی اس لڑائی میں طاقت فیصلہ کن عامل ہوتی ہے، اور ان شوز میں طاقت کی علامت چیخ کر بولنا اور الزام لگانے کی استعداد کا مظاہرہ کرنا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ اکثر ٹاک شوز کے اختتام پر کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے کی صورت حال پیدا ہوجاتی ہے۔انٹرویو صحافت کی ایک اہم صنف ہے اور ایک اچھا انٹرویو اعلی معیار کے مضمون سے زیادہ اہم ہوتا ہے۔ اس لیے کہ انٹرویو میں جو برجستگی اور تنوع ہوتا ہے، اکثر مضامین میں وہ برجستگی اور تنوع ناپید ہوتا ہے۔ انٹرویو کے چار بنیادی مقاصد ہوتے ہیں: معاشرے کی کسی اہم شخصیت کے ساتھ ایسے مکالمے کی راہ ہموار کرنا جو مختلف مسائل کے سلسلے میں لوگوں کے علم اور فہم میں اضافے کا باعث ہو۔ اہم معاملات پر معاشرے کے ممتاز افراد کا موقف معلوم کرنا تاکہ معلوم ہوسکے کہ فکری اعتبار سے معاشرے کی سمتِ سفر کیا ہے؟ انٹرویو کا ایک مقصد ان سوالات کو سامنے لانا ہے جو عام لوگ اہم شخصیات سے پوچھنا چاہتے ہیں مگر پوچھ نہیں سکتے۔ انٹرویو کا ایک مقصد ممتاز شخصیت کے مختلف رنگوں کو سامنے لانا اور اسے ان امور پر گفتگو کے لیے مائل کرنا ہے جن پر کسی وجہ سے وہ گفتگو نہ کرنا چاہتی ہو۔ لیکن ہمارے بعض ٹیلی وژن اینکرز یا انٹرویو کرنے والے انٹرویو کرتے ہوئے کبھی ٹیلی وژن کے کیمرے کو مشین گن بنادیتے ہیں اور کبھی توہین گن۔ جب کوئی انٹرویو نگار ایسا کرتا ہے تو وہ ایک ایسے تضاد کا مظاہرہ کرتا ہے جس کا اکثر لوگوں کو شعور نہیں۔ انٹرویو اہم، ممتاز اور غیر معمولی لوگوں سے کیا جاتا ہے، لیکن جب انٹرویو کرنے والا اس کی توہین کرتا ہے تو انٹرویو دینے والا غیر اہم، عام اور معمولی بن جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر انٹرویو دینے والا اتنا ہی معمولی ہے کہ اس کی توہین اور تضحیک کی جائے تو پھر آپ نے اسے انٹرویو کے لیے بلایا ہی کیوں ہے؟ بعض انٹرویو کرنے والے سوال تو ٹھیک کرتے ہیں مگر توہین اور تضحیک ان کے لہجے میں در آتی ہے، نتیجہ یہ کہ انٹرویو پاکستانی پولیس کی تفتیش اور اسٹوڈیو تھانے کے عقوبت خانے میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ اس صورتِ حال کی ایک وجہ یہ ہے کہ ٹیلی وژن کے بہت سے انٹرویو کرنے والوں پر ٹیلی وژن کی طاقت کا نشہ سوار ہوتا ہے۔ اس صورتِ حال کی دوسری وجہ انٹرویو کرنے والوں کا جہل ہے۔ انہیں معلوم ہی نہیں کہ کسی شخصیت کو ناراض کیے بغیر اس سے مطلوبہ گفتگو کیسے کرائی جاتی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ انٹرویو کرنے والے کو پتا نہیں چل پاتا کہ کب انٹرویو دینے والے نے اس کے لیے اپنی شخصیت کا دروازہ بند کرلیا ہے۔ چنانچہ کئی انٹرویو نگاروں کو انٹرویو کے نام پر خود کلامی میں مصروف دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ منظرنامہ انٹرویو کرنے والوں کی ناکامی ہوتا ہے، مگر ہم نے بعض انٹرویو نگاروں کو اپنی ناکامی پر خوش ہوتے دیکھا ہے۔