افتخار انجینئر افتخار چودھری
یادیں اور ملاقاتیں میں ایک بار پھر جناب ضیاء شاہد نے اس بھولی بھالی قوم کو بتانے کی کوشش کی ہے کہ ان کے اصل دوست اور دشمن کون ہیں۔آج براہمداغ بگتی کے شرمودات پر مبنی ان کے سلسلہ وار کالم نے آنکھیں کھول کے رکھ دیں۔لگتا ہے وہ بلوچستان کے مامے بننے کی خواہش میں کچھ زیادہ ہی آگے نکل چکے ہیں۔ان کے چار انٹرویو بتا رہے ہیں کہ را کی گود میں بیٹھ کر اس طوطے نے جو سبق سیکھا ہے اس کو دہرایا گیا ہے۔جناب ضیاء شاہد اس ملک و قوم کا اثاثہ ہیں اسلام پاکستان اور دو قومی نظرئے کی مشعل جناب مجید نظامی کے بعد ان کے ہاتھ ہے۔مجھ پر کمال مہربانی کی اور ایک عشرہ پہلے ولی خان جواب دیں نامی کتاب مجھے دی جس سے مجھے پتہ چلا کہ پختونستان کا خواب دیکھنے والے ولی خانئے کس طرح پاکستان کی گود میں بیٹھ کر اس کی داڑھی نوچ رہے ہیں۔جب وہ فلمی اداکاراؤں کی زندگی پر اپنے قیمتی قلم کو استعمال کر رہے تھے تو میری دلی خواہش تھی کہ وہ اس کام کو چھوڑ کر پاکستان کی نسل کو اس کے دوستوں اور دشمنوں سے آگاہ کریں اللہ کا کرم ہوا وہ پلٹے اور اس ادا سے پلٹے کہ وہ قارئین کو ان آستین کے سانپوں تک لے گئے۔ٹھکانوں تک پہنچ جائیں تو سرکوبی آسان عمل ہے۔جناب چیف کیا خوب لکھا ہے اللہم زد فزد۔
میں نے دوسرے کالم کا انتحاب کیا ہے وہ اسرار ایوب صاحب کا ہے قوس و قزح کے نام سے لکھتے ہیں جس میں انہوں نے عمران خان کی تحریک احتساب کے بارے میں لکھا ہے تاریخ کی کتابوں سے جناب حسین شہید سہروردی کی تاریخی ہڑتال جو حصول پاکستان کے لئے کی گئی تھی اس کے حوالے سے انہوں نے تحریک انصاف کی جد وجہد کو پرکھا ہے قائد اعظم کے DIRECT ACTION DAYکا کیا خوب حوالہ دیا ہے جس میں ۱۶ اگست ۱۹۴۶ کا ان کا بیان لکھا قائد نے کہا تھا کہ میں نے ہر دروازہ کھٹکھٹایا مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا اب میں اپنی قوم کے ہر فرد کے دروازے پر آیا ہوں۔کیا بات ہے اسرار ایوب کی جس نے یہ خوبصورت بات یاد کرائی۔قائد کی اس کال پر پوری قوم باہر نکلی خاص طور پر بنگال میں تو لوگوں نے انگریز سرکار کو ایک بڑی قربانی دے کر ہلا کے رکھ دیا۔ سوچا جائے تو قائد اعظم کو جو حالات ملے ایسے ہی آج کل عمران خو پیش آ رہے ہیں عدالتیں الیکشن کمیشن اسمبلیاں ایف آئی اے سب در بند ایک دروازہ سڑک کا ہی ہے۔میں حیران ہوں کہ لوگ کہتے ہیں عمران اکیلا ہے اسرار ایوب نے بھی تو لکھ دیا ہے کہ جن لوگوں نے اس ملک کا مال کھایا ہے چاہے تھوڑا یا زیادہ وہ عمران کا ساتھ کیوں دیں گے۔ویسے بھی عمران خان کی تحریک اور ان کے مشن کو اس وقت بہت بڑا جھٹکا لگتا ہے جب کرپشن کے خلاف لطیف کھوسہ راجہ پرویز اشرف یوسف رضا گیلانی اس کے قافلے میں شامل ہوں۔
اسرار ایوب کشمیر ایکسپرٹ ہیں انہوں نے اپنے کالم کے آخر میں جب لکھا کہ پانامہ لیکس پر مٹی ڈالانا اپنے آپ پر مٹی ڈالنے کے مترادف ہو گا۔سچ پوچھئے دل کی اور پتے کی بات کی۔ایک اور کالم میں شاکر شجاع آبادی کے بارے میں برادرطاہر خان نے بحث و نظر کے عنوان سے لکھا اور کیا خوب لکھا اس مین ضیاء شاہد کی عظمت کردار کی روداد تھی۔شاکر شجاع آبادی محروم اور پسے ہوئے طبقے کی آواز ہے۔سچ پوچھیں ہم شخصیات کو چھوٹا کر دیتے ہیں لوگوں نے گوئٹے کو عالمی شاعر بنا دیا ہم اپنے شاعروں ادیبوں کو ڈبوں میں بند کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔کیا شااکر نے استحصالی طبقے کو نہیں للکارا۔ضروری نہیں سرائیکی وسیب ہی اس کا موضو تھا اس بیماراور مفلوج شاعر نے دنیا بھر کے محروموں کو دلاسہ دیا وہ اس کی آواز بنے۔میں خود شاکر شجاع آبادی کا بڑا معترف ہوں اسے سرائیکی بیلٹ سے دنیا کے مظلوموں کی آواز بننا چاہئے کالم میں وہاں کے رپورٹر سے مخاصمت کا اظہار ضیاء شاہد صاحب کی مدحت کر کے کیا گیا ایسے مسئلے قومی اخبارات میں نہیں مل بیٹھ کر حل کئے جاتے ہیں۔میجر جنرل جاوید کا کالم پاک ہند لڑائی کے تناظر میں ہے جس میں انہوں نے اپنی ماہرانہ رائے دی ہے۔صدائے حرف میں احسن ضیاء کا کالم پڑھنے لائق ہے انہوں نے امریکہ اسرائیل اور بھارت کے چہرے سے نقاب اتارا ہے خاص طور پر انہوں نے امریکہ کی پاکستان دوستی پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ویسے تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن دل کی بات بھی کر دی کہ یاد رکھیں جب مشکل وقت آئے گا اس وقت چین بھی آپ کے ساتھ کھڑا نہیں ہوگا۔امریکہ تو اصلی دانت دکھائے گا ہی۔روداد خیال کے صفدر علی خان نے بھارت کی چانکیائی سیاست کا ذکر ایک خوبصورت انداز میں کیا ہے انہوں نے پاکستان کی سفارتی محاذ پر سست روی کی شکائت بھی کی۔سچی بات تو یہ ہے سرتاج عزیز اور فاطمی صاحب عمر کے جس حصے میں ہیں اس میں حاجات ضروریہ کے لئے سو بار سوچ کے نکلا جاتا ہے کہاں برق رفتار سفارت کاری۔میاں صاحب نے وزارت خارجہ کو کیوں ہاتھ میں رکھا اب سمجھ آئی ہے۔آج کے اخبارات کے کالموں پر تبصرہ کیا تبصرے کی ضرورت ہے۔