تحریک انصاف کی کامیابی۔۔۔۔۔
کالم نگار شاہد جمیل
گیارہ مئی دو ہزار تیرہ کے الیکشن میں ہر پارٹی کی توقعات بہت ذیادہ تھیں۔لیکن ان میں پاکستان کی تحریک انصاف پارٹی کی توقعات بہت ہی ذیادہ تھیں۔خود پی ٹی آئی کے چیئر پرسن عمران خان نے ہر میدان،ہر پروگرام میں الیکشن سوئپ کرنے کا دعویٰ کیا۔آخر اس قدر حیران کن اعتماد کی وجہ کیا تھی؟؟سترہ سال پہلے ا س پارٹی نے جنم لیا جس کو عمران خان جیسا نڈر اور بہادر قائد ملا۔وہ خود ایک سپورٹس مین تھا جس نے سپورٹس مین ہوتے ہوئے پاکستان کو کرکٹ کا بے تاج بادشاہ بنا دیا۔اس کے ساتھ ساتھ اس نے پاکستان جیسے غریب ملک کو کینسر جیسے موذی مرض کے سدّ باب کے لیے ایک ا یسا رفاعی سینٹر بنا ڈالاجس کی نظیر نہیں ملتی۔وہ شخص جس کی سیاست میں کوئی پہچان نہیں تھی جس کا کوئی سیاسی پس منظر نہیں تھا،اور نہ ہی وہ کسی امیر باپ کا بیٹا تھا۔ اس کے باوجود اس کی پارٹی دو ہزار تیرہ کے الیکشن میں ملک گیر پارٹی بن کر نمودار ہوئی۔اور اس نے 76,0000 ووٹ حاصل کر کے پاکستان کی دوسری بڑی پارٹی ہونے کا ثبوت دیا۔یہ دوڑ اس شخص کی تھی جس کی ابتداء میں ہر شخص نے مخالفت کی۔جس نے نوجوانوں کو نئی سوچ اور امنگ بخشی۔سیاست میں نیا رنگ اور کلچر متعارف کرایا۔جس کو نہ صرف سراہا گیا بلکہ دوسری پارٹیوں نے اس کی سوچ اور منشور کی نقل اور تقلید شروع کر دی۔جس کا نون لیگ والے کھلم کھلا ثبوت فراہم کر چکے ہیں۔پی ٹی آئی تمام تر دعووں کے باوجود اکثریت حاصل نہ کر سکی۔حالانکہ انکا ووٹ بینک بہت ذیادہ تھا۔مثال کے طور پر حامد خان کو لاہور میں ا 80,000 سے ذیادہ ووٹ ملے۔یہ اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ عمران خان کا ووٹ بینک بہت مضبوط تھا۔پہلی بار کیپیٹل میں حکومت سازی کا مینڈیٹ ملا۔یہ انقلاب نہیں تو اور کیا ہے؟امید تھی کہ لاہور میں کافی سیٹیں ملیں گی لیکن خواب ادھورے رہ گئے۔پی ٹی آئی کو ایک اور پی ایم ایل کو بارہ سیٹیں ملیں۔اگر ووٹ کا حساب لگایاجائے تو بارہ لاکھ پی ایم ایل این کو ملے اور تقریباً سات لاکھ پی ٹی آئی کو ملے۔اور سیٹوں میں بہت ذیادہ فرق ہے۔لیکن اس کے باوجود وہ انقلاب جس کا نعرہ عمران خان نے لگایا وہ کامیاب رہا۔پاکستان کے ہر دوسرے گھر میں انقلاب کی پذیرائی کی گئی۔پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار یہ ثابت ہوا کہ ہر گھر میں مختلف پارٹیوں کے ووٹ موجود تھے۔جو روائیتی سیاست تھی اس کا رجحان کم رہا۔سب سے ذیادہ نوجوان ،ایم این اے اور ایم پی اے تحریک انصاف نے ہی متعارف کروائے۔اور یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے کبھی سیاست میں قدم نہیں رکھا۔یہ تھی وہ تبدیلی جس کا آغاز عمران خان نے کیا۔نوجوانوں کو گھروں سے نکالا انہیں سیاسی شعور دیا۔یہ تھی وہ تبدیلی جس کا آغاز عمران خان نے کیا۔اس کے نتیجے میں چ76000 ووٹ پی ٹی آئی کو ملے۔اس طرح یہ ملک کی دوسری بڑی پارٹی بن گئی جس میں میڈیا کے کردار کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔اصل تبدیلی تیس اکتوبر کے جلسے سے شروع ہوئی۔جس کے فوراً بعد دوسری سیاسی پارٹیوں کے حلقوں کے لوگوں نے ہاتھ پائوں مارنے شروع کر دیے۔انہیں تب سے ہی خطرے کی بو آنا شروع ہو گئی تھی۔جہاں سرکاری مشین استعمال کی گئی جس کو استاد بھرتی کروایا تھا۔آج وہ ہیڈ ماسٹر بن گیا تھااس طرح ہر محکمہ کے وفاداروں نے اپنا پنا حصہ اس میںڈالا۔اور اپنے محسنوں کو فراموش نہیں کیا۔آجکل پی ٹی آئی کے دھرنے جاری ہیں۔ڈیفنس میں ان لوگوں نے دھرنے دیے جن کو کسی چیز کی ضرورت نہیں وہ خود اپنی مرضی سے باہر آئے۔کراچی میں دھرنے کے بعد ڈاکٹر عارف علوی کامیاب امید وار بنے۔کئی علاقوںمیں دوبارہ گنتی سے پی ٹی آئی کے امید وار کامیاب ہوئے۔میں اس شعر پر یہ کالم ختم کرتا ہوں کہ بے خودی بے سبب تو نہیں غالبکچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے
Wah Janab, Bohat Khoob Likha 🙂
Hosla afzai ka shukriya
Editor