(شیخ خالد زاہد)
حقیقت لکھنے سے پہلے لفظ کہانی لکھا تھا مگر دماغ میں شور کرتے خون نے تکازہ کیا کہ لفظ حقیقت لکھوں کیونکہ بات اب کہانیوں سے نکل کر حقیقت میں سامنے آچکی ہے۔پچھلے ادوار میں ترقی تعلیم اور تہذیب کے امتزاج سے حاصل کرنے کی تربیت دی جاتی تھی اوران دو نوں نے مل کر قوموں کو دنیا میں اہمیت و فوقیت دلوائی۔ تعلیم ایک ایسا ہتھیا ر ہے جس کی بدولت معاشرہ خود بخود بہتری کی جانب گامزن ہوجاتا ہے ۔ تعلیم میں لوگوں کا شعور پوشیدہ ہے اور شعور اچھے برے کی تمیز کرنا سکھاتا ہے۔اگر ترقی بغیر تعلیم کے ہوگی تو پھر وہ ترقی ہمارے پڑوسی ملک بھارت کی ہوگی کہ جہاں بھوک سے بلکتے اور مرتے لوگوں کا کوئی حساب نہیں ہے مگر یہ ملک کا جز نا ہوں تو پھر ترقی تنزلی کی جانب ہوتی ہے ۔ دنیا کہ جن ملکوں نے ترقی کی ہے اور جو کر رہے ہیں ان ممالک نے تعلیم کو سب سے زیادہ اہمیت دی ۔پھر کچھ یوں ہوا کہ تعلیم اور تہذیب جدا جدا ہوگئے اور تعلیم کی ترقی جاری ہے مگر تہذیب جیسے آخری سانسیں لے رہی ہے۔صرف تعلیم کی ترقی نے انسان کو جدید سے جدید ہتھیاروں کی دوڑشروع کروا دی اور آج دنیا کا ہر ملک اس دوڑ میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی انتھک تگ و دو میں مصروف ہے، یہ وہ ہتھیار ہیں جن سے صرف انسانوں کا ہی نہیں بلکہ انسانیت کا قتلِ عام ہو رہا ہے۔ معاشرتی نظام تباہ ہوتے جا رہے ہیں انسان انسا ن سے خوفزدہ ہے۔اس خوف نے ایک دوسرے کا دشمن بنادیا ہے ۔
اس ساری مدبھیڑ میں سب سے زیادہ پسنے والے مسلمان ہیں بوسینیا سے شروع کریں ، کشمیر اور فلسطین میں ہونے والی غاصبوں کی بربریت نے ایک تاریخ رقم کر دی ہے ۔ جس پر دنیا میں امن قائم کروانے والے ٹھیکے دار آج تک دھیان دینے سے قاصر رہے ہیں۔ دنیا ترقی کرتی جا رہی ہے ایک سے بڑھ ایک سہولیات کی ایجاد ہوئے جا رہی ہے مگر فلسطین کا بچہ بچہ آج بھی اپنی آزادی کیلئے اپنے عزم کی جنگ پتھروں سے ہی لڑرہے ہیں اور شہادت کے مرتبے پر فائز ہوئے جا رہے ہیں۔ کشمیر میں ہونے والے مظالم کی ایک طویل ترین ظلم و بربریت کے اندھیرے میں گھرے ہوئے ہیں اور شہادتوں کی داستانیں رقم کرتے جا رہے ہیں ۔کشمیر میں بھارت نے ریاستی دہشت گردی کی اعلی ترین مثال قائم کر رکھی ہے ۔ بھارتی قانون نافذ کرنے والے ادارے باقاعدہ سرکاری وردیوں میں ملبوس یہ خون کی ہولی کھیل رہے ہیں۔
بھارت کی سرکاری درندگی اب اسکے شہریوں میں بھی سرائیت کرتی جا رہی ہے جسکا منہ بولتا ثبوت سماجی میڈیا پر موجود انگنت ایسی وڈیوز ہیں جن میں درندہ صفت بھارتی ہندو مسلمانوں کو بیہیمانہ تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے دیکھائے گئے ہیں، یہ تشدد ڈنڈوں ، لوہے کی راڈوں اور تیز دھار آلات سے کیا جارہا ہے۔ گزشتہ کئی دنوں سے سماجی میڈیا پر بھارتی ہندؤں کی درندگی کی نئی نئی وڈیوز دیکھنے میں آرہی ہیں اس تشدد اور سفاکی کی حد یہ ہے کہ مرجانے کے باوجود ان لاشوں کی بے حرمتی بھی کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے ۔کچھ ایسی وڈیوز بھی ہیں جن میں گائے کی وجہ سے لوگوں کو بری طرح تشدد کا نشانہ بنایا گیا ، ہر ویڈیو میں اپنے نہتے مسلمان بھائیوں پر ان بزدل ہندؤں کا بہیمانہ تشدد دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے اورروتا ہی چلا جاتا ہے۔ یہ بھارتی ہندو درندگی اور سفاکی کی ایسی مثالیں قائم کررہے ہیں کہ سینے میں سخت سے سخت دل رکھنے والا بھی دیکھے تو دہل جائے۔ معلوم نہیںیہ سلسلہ کب سے چل رہا ہوگا مگر اب سماجی میڈیا نے ان کی مکروہ حرکات اورعزائم دنیا میں عام کرنا شروع کردئیے ہیں۔تازہ ترین وڈیو جسکی خبر پاکستان کے تقریباً ہر اخبار نے شائع کی، اس وڈیو میں بھی کچھ مختلف نہیں تھا سوائے اسکے کہ نوید پٹھان نامی فرد بھارت کا سپوت ایک نامی گرامی تن ساز تھا اور بھارت کا نام اپنی تن سازی سے روشن کیا تھا۔ کس بے دردی سے اس لحیم شحیم انسان کو کاٹ کر رکھ دیا گیا۔
ایک بار پھر بھارت کی انتہا پسند ی کھل کر دنیا کے سامنے آگئی مگر دنیا نے اس سے پہلے کچھ کیا ہے جو اب کرے گی۔ ایک طرف تو تعلیم ایسا شعور اجاگر کرتی ہے کہ ایک دوسرے کے مذہب کا احترام آجاتاہے ایک دوسرے کی تہذیب کی پاسداری کی جاتی ہے یوں سمجھ لیجئے تعلیم انسان کے دل اور دماغ کی نا صرف گرہیں کھولتی ہے بلکہ انہیں روشن بھی کردیتی ہے اور روشنی کی بدولت انسان دوسرے انسان کے احساسات اور جذبات کی قدر کرتا ہے ۔ بھارت اور ہندو بھارتیوں نے انسانیت کی تذلیل کی ساری حدیں پار کر لی ہیں۔ مجھے یہ لکھتے ہوئے خوف آرہا ہے کہ اگر بھارت کی گلی کوچوں میں ایسے واقعات ہونا شروع ہوگئے تو کیا ہوگا کیا بھارت میں دی جانے والی تعلیم بھارت کو تنزلی کی جانب لے جانے کی دی جارہی ہے۔ اپنے آپ کو لبرل کہنے والا ملک ایسی انتہاپسندی کا کوئی جواب دیگا ، جی نہیں وہ جواب اس صورت میں دیگا جب اس سے کوئی پوچھے گا۔ انسانیت کے خدمت گزار لوگوں کا رویہ دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ جیسے بھارتی روپے پیسے پر پلتے ہیں ۔
سوائے چین کے آج تک کسی ملک نے اتنی کھل کر پاکستان کی حمایت میں آواز نہیں اٹھائی یہاں تک کے کسی مسلم ملک نے بھی۔ سب یہی کہتے سنائی دیتے ہیں کہ کشمیر پر سے بھارتی تسلط ختم ہونا چاہئے یعنی ایک سرکاری اعلامیہ۔ دنیا کہ مہذب ممالک اس ساری صورتحال پر آخر کیوں خاموش بیٹھے ہیں آخر کب تک اس بے حسی کا مظاہرہ کرتے رہینگے۔ ہمیں یہ بھی سوچنا پڑے گا کہ یہ خود کش حملے کہیں اس بے حسی کا نتیجہ تو نہیں ہیں۔ دنیا کے منصفوں بھارتی دہشت گردی اب کہانیوں سے نکل کر چلتی پھرتی ڈراؤنی حقیقت بن چکی ہے۔
—