لگ بھگ سترہ سال پہلے کی بات ہے۔
ہمارے گاؤں کے قریب ایک تالاب نما گڑھا تھا، جہاں بارش کا پانی جمع ہو جاتا اور گاؤں کے بچے اکثر وہاں نہایا کرتے تھے۔
ایک دن میں اور میرا دوست زبیر، بکریاں لے کر اُسی تالاب کے قریب پہنچے۔ پانی میں پہلے ہی چند لڑکے نہا رہے تھے۔ ہم نے بھی بکریاں چھوڑیں اور مزے سے پانی میں کود گئے۔
ہم سب کھیل کود میں مگن تھے، ہمیں خیال ہی نہ رہا کہ بکریاں قریبی کھیت میں گھس گئی ہیں۔ وہ کھیت ایک سخت مزاج اور غصیلے آدمی کا تھا۔
کچھ دیر بعد وہ شخص ایک سوٹی لیے ہوئے آیا، اور آتے ہی تند لہجے میں پوچھنے لگا:
“یہ بکریاں کس کی ہیں؟”
میں نے اور زبیر نے گھبرا کر کہا، “ہماری ہیں۔”
اس نے فوراً ہمیں پانی سے باہر آنے کا حکم دیا۔
جیسے ہی ہم باہر آئے، اُس نے ہماری کلائیاں اپنے ایک ہاتھ سے مضبوطی سے پکڑ لیں۔
پہلے اُس نے زبیر کی کمر پر دو تین زوردار سوٹیاں برسائیں۔ زبیر درد سے چیخ اُٹھا، روتا ہوا اپنی جان بچا کر بھاگ گیا۔
اب اُس کی نظریں مجھ پر جم گئیں۔ میں دل ہی دل میں خوف سے کانپ رہا تھا۔
اچانک اُس نے پوچھا،
“کس کا بیٹا ہے تُو؟”
میں نے ڈرتے ہوئے جواب دیا،
“ماسٹر اصغر کا بیٹا ہوں۔”
یہ سنتے ہی اُس کے تیور بدل گئے۔ اُس نے فوراً میری کلائی چھوڑ دی اور نرمی سے بولا،
“بیٹا! بکریوں کا دھیان رکھا کرو، دیکھو، فصل خراب کرتی ہیں۔”
اب سوچنے والی بات یہ ہے کہ اُس نے زبیر کو تو بے دردی سے پیٹا، مگر مجھے ہاتھ تک نہیں لگایا… کیوں؟
دراصل زبیر کا ایک کمزور گھرانے سے تعلق تھا اور یہ بات اسے بہت اچھے سے پتا تھی۔
جب کہ میرا خاندان گاؤں میں جھگڑالو اور اثر و رسوخ والا سمجھا جاتا تھا۔
اُسے جب میرے باپ کا نام پتا چلا، تو وہ فوراً ڈر گیا کہ اگر مجھے مارا تو بات بڑھ جائے گی، فساد کھڑا ہو جائے گا۔
اس واقعے کا مقصد یہ بتانا ہے:
ہمارے معاشرے میں انصاف کے دو ترازو ہیں…
ایک کمزور کے لیے اور ایک طاقتور کے لیے۔
کمزور کو اذیت دینے اور تکلیف پہنچانے سے کوئی نہیں ہچکچاتا لیکن طاقتور لوگوں کے سامنے قانون بھی بھیگی بلی بن جاتا ہے۔
یہی ہماری سب سے بڑی بدقسمتی ہے۔

Recent Comments