حضرت ابراہیم علیہ السلام کا تعارف:
-
نام: ابراہیم
-
لقب: خلیل اللہ (اللہ کا دوست)
-
نسب: آپ کا تعلق حضرت نوح علیہ السلام کی نسل سے تھا۔
-
پیدائش: عراق کے شہر بابل یا کوفہ کے قریب ایک مقام پر ہوئی (اختلاف ہے)
-
والد کا نام: آزر (قرآن کے مطابق) – وہ بت پرست اور بت تراش تھا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قوم:
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قوم مشرک تھی، جو مختلف بتوں کی پوجا کرتی تھی۔ ان کے معبود لکڑی، پتھر یا دیگر مواد سے بنائے گئے بت تھے۔
قوم کے لوگ ان بتوں کو نفع و نقصان کا مالک سمجھتے تھے، ان کے سامنے جھکتے، قربانیاں دیتے اور ان سے دعائیں مانگتے۔
آپ کے والد آزر خود بھی بت بناتا تھا اور انھیں فروخت کرتا تھا۔ وہ اپنے بیٹے کو بھی اسی راہ پر لانا چاہتا تھا، مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام بچپن سے ہی عقل و شعور والے، اللہ کی طرف متوجہ انسان تھے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعوت:
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم کو اللہ کی وحدانیت کی دعوت دی۔ آپ نے فرمایا:
“میں ان کو کیوں پوجوں جو نہ فائدہ دے سکتے ہیں اور نہ نقصان؟ صرف ایک اللہ ہی عبادت کے لائق ہے۔”
آپ نے بتوں کی پوجا کی مخالفت کی اور دلیل و حکمت سے قوم کو سمجھایا۔ آپ نے رات کے وقت چاند، سورج، ستاروں کی طرف اشارہ کر کے سمجھایا کہ یہ سب مخلوق ہیں، خود فنا ہو جاتے ہیں، تو معبود کیسے ہو سکتے ہیں؟
بتوں کو توڑنے کا واقعہ:
جب قوم نے آپ کی بات نہ مانی تو ایک موقع پر، جب سب لوگ ایک میلے پر باہر گئے ہوئے تھے، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے موقع کا فائدہ اٹھا کر تمام بتوں کو توڑ دیا، صرف سب سے بڑے بت کو چھوڑ دیا اور اس کے کندھے پر کلہاڑا رکھ دیا۔
جب لوگ واپس آئے تو حیران رہ گئے۔ پوچھا: یہ کس نے کیا؟
کچھ لوگوں نے کہا: “ہم نے ایک نوجوان سنا تھا، ابراہیم نام کا، وہ ان بتوں کا ذکر کرتا تھا۔”
حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بلایا گیا۔ آپ نے فرمایا:
“اس بڑے بت سے پوچھ لو، اگر یہ بول سکتا ہے۔”
یہ سن کر قوم شرمندہ ہوئی کیونکہ وہ جانتے تھے کہ بت بول نہیں سکتے، مگر ضد اور کفر کی وجہ سے حق قبول نہ کیا۔
آگ میں ڈالنے کا فیصلہ:
قوم کے سرداروں اور بادشاہ (نمرود) نے فیصلہ کیا کہ ابراہیم علیہ السلام کو عبرت کا نشان بنایا جائے تاکہ کوئی دوبارہ ان کے معبودوں کی بے عزتی نہ کرے۔
انہوں نے بڑی بھڑکتی ہوئی آگ جلائی۔ کئی دن تک لکڑیاں جمع کی گئیں۔ آگ اتنی شدید تھی کہ اس کے قریب جانا بھی ممکن نہ تھا، اس لیے منجنیق (ایک قسم کی غلیل) سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں پھینکا گیا۔
اللہ تعالیٰ کا معجزہ:
جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالا گیا تو اللہ تعالیٰ نے آگ کو حکم دیا:
“یَا نَارُ كُونِي بَرْدًا وَسَلَامًا عَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ”
“اے آگ! ابراہیم پر ٹھنڈی اور سلامتی والی ہو جا۔” (سورۃ الانبیاء: 69)
یہ اللہ کا معجزہ تھا کہ آگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے گلزار بن گئی۔ نہ آپ کو کوئی نقصان ہوا، نہ کپڑے جلے۔
نتیجہ:
قوم حیران رہ گئی۔ بہت سے لوگوں کے دلوں میں توحید کی روشنی آئی، مگر اکثریت نے انکار کیا۔ بعد میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے وہاں سے ہجرت کی۔
اہم پیغام:
-
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی ہمیں توحید، صبر، حق پر ڈٹنے، اور اللہ پر کامل ایمان کی تعلیم دیتی ہے۔
-
باطل کے مقابلے میں تنہا کھڑے ہونے کا حوصلہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے سیکھنا چاہیے۔
-
اللہ اپنے بندوں کی حفاظت خود کرتا ہے، جیسا کہ آگ کو سلامتی میں بدل دیا۔

Recent Comments