6ستمبر یوم دفاع

6 sepetember

6  ۔۔۔ تاریخ کے اوراق سے مِٹ نہیں سکتا
ہفتہ 6 ستمبر زندہ قومیں تاریخ کے اوراق پر ایسے انمٹ نقوش چھوڑ جاتی ہیں کہ لوگ ان پر چل کر اپنی منزلیں با آسانی بناسکتے ہیں اور ماضی کی روشنی میں حال کی راہوں کو متعین کرتے ہیں۔وطن عزیز پاکستان زبان، نسل اور علاقے کی بجائے محض اخوت اسلامی اور بھائی چارے کی بنیاد پر قائم ہوا ۔تحریک پاکستان میں ان لوگوں کا نمایاں کردار رہاہے کہ جنہیں اس شجرِسایہ دار کے سائے سے بھی محروم رکھا گیا۔

6ستمبر پاکستان کی تاریخ کا سنہرا دن مسلمانوں کے باہم اتحاد اور یگانگت کا عملی مظہر ہے جس نے پاکستان کا سر فخر سے بلند کر دیا اور جذبہ ایمانی کے ذریعے بھارت کے شب خون کا منہ توڑ جواب دیا ۔ یوم دفاع تجدید کا دن ہے اور تقاضا کرتا ہے کہ مسلمان نفرتوں، عداوتوں کی خلیج کو پاٹ کر اپنی گم کردہ راہ کو پا لیں اور متحد ہو کر بیرونی طاقتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یہ باور کرادیں کہ ابھی ایمان کی حرارت دِلوں میں زندہ ہے۔

6 ستمبر وہ دن ہے کی جب جرات و بہادری کی وہ تاریخ رقم ہوئی جو رہتی دنیا تک درخشاں رہے گی۔اس دن کو ہم یوم دفاع کے طور پر مناتے ہیں۔ اس دن بھارت نے پاکستان پر حملہ کردیا مگر پاک فوج اور ہمارے لوگوں نے دشمن کو ایسا دندان شکن جواب دیا جسکی مثال پوری دنیا میں نہیں ملتی۔قدرت کا ایک اصول ہے کہ ہر تاریکی کا انجام اجالا ہے بلکہ ہر رات کی تاریکی صبح کے اجالے کا شدت سے انتظار کرتی ہے، چنانچہ رات جس قدر تاریک اور طویل ہوتی ہے اس کی صبح اسی قدر اجلی اور رنگین ہوتی ہے ۔غرضیکہ سیاہی کا وجود ہی سفیدی کی اہمیت اور پہچان بنتا ہے اور ہر تعمیر، تخریب کی کوکھ سے جنم لیتی ہے اورہر تخریب کا انجام تعمیر ہوتا ہے اسی طرح فطرت ہزاروں ستاروں کا خون کرتی ہے تب سحر پیدا ہوتی ہے۔قوم کے یہ نوجوان وہی ستارے ہیں کہ جنکا خون کر کے اجلی، سفید اور روشن سحر پیدا ہوئی ہے۔قوموں کے عروج و زوال کی داستانیں انہی نوجوانوں کے کردار کی مرہون منت ہیں۔

بھارتی افواج نے سترہ دن میں تیرہ حملے کئے لیکن وہ لاہور کے اندر داخل نہ ہو سکی ۔اس وقت بھی امریکہ نے اپنی سابقہ روایات کو برقرار رکھتے ہوئے ہماری افواج کی امداد بند کر دی اور بھارت کا ساتھ دیا۔یہی وہ نوجوان ہیں جنکی سخت کوشی اور عرق ریزی نے صحراوں میں پھول کھلائے۔آسمانوں کو اپنی منزل بنانے والوں ان نوجوانوں کے عزم و حوصلے اور بلند عزائم کے سامنے آسمانوں کی بلندیوں پر جمنے والی ستاروں کی محفل بھی ہیج ہوتی ہے۔ سلام ہے ان ماوں کو جنہوں نے چٹان جیسے حوصلے کے حامل نوجوانوں کو جنم دیا۔مگر افسوس ہم نے اپنے ماضی سے سبق حاصل نہ کیا اور آج بھی ہمارے حکمران امریکہ کی جھولی میں بیٹھنے کے مشتاق ہیں اور ہمیں اس بری طرح ایک دوسرے سے علیحدہ کرنے کی منظم کوشش کی جا رہی ہے کہ ہم دشمن کی اس چال کو سمجھ کر بھی انجان بنے بیٹھے ہیں۔

پینسٹھ (65ء)کے بعد ہماری قوم زلزلے پر اکٹھی ہوئی پھر ہم لوگ سیلاب پر اکٹھے ہوئے لیکن ہمارے حکمرانوں نے باہمی سیا ست سے ہمیں ایک دوسرے کے ایسا بیگانہ کر دیا ہے کہ اب اگر کوئی سڑک پر حادثہ پیش آتا ہے تو ہم لوگ کھڑے خاموش تماشائی بنے ہوتے ہیں اور کوئی عملی قدم نہیں اٹھاتے۔آج ہمارا ملک گوں نہ گوں مسائل میں گھرا ہوا ہے۔

آج معاشرہ دوحصوں میں بری طرح توڑ دیا گیا ہے ایک طرف شاہراؤں پر چمکتی دمکتی گاڑیاں ہیں اور دوسری طرف غریب روٹی کے ایک ٹکرے کے لئے سسک سسک کر مر رہے ہیں۔ انسانیت کا معیار صرف دولت اور مادیت پرستی ہے۔حتی کہ زمانے کے معاشرتی اور اخلاقی اقدار میں تبدیلی آچکی ہے۔یوں لگتا ہے یہ دور صرف سر مایہ داری کادور ہے، یہاں پرجس انسان کے پاس جتنی زیادہ دولت ہو گی اسی قدر اسے معاشرے میں قابل احترام سمجھا جاتا ہے گویا کہ شرفِ انسانی کی کوئی قدروقیمت ہی نہ ہو۔ اور یہ سب اس نئے زمانے کی دین ہے جس نے ہماری اخلاقی اور سماجی قدریں پامال کر دی ہیں ۔

انسان کے اندر سے انسانیت کا جوہر ختم ہوجاتا ہے۔ دنیا کی ہوس اور لالچ نے لوگوں کے اندر انسانیت کے چھپے ہوئے عنصر کو ختم کردیا ہے اس قدر نفسا نفسی کا عالم ہے کہ لوگوں کے اس ہجوم میں انسان تلاش کرنا مشکل ہوگیاہے۔ درحقیقت آجکل زمیں پر جنگ کا بازار گرم ہے اور انسانی لہو پانی سے بھی زیادہ سستا ہو کر رہ گیا ہے یوں لگتا ہے کہ انسان کل بھی جنگلوں کا مکین تھا اور آج بھی اسکا مسکن جنگل ہی ہیں آج انسان کے طاہر و باطن میں تضاد ہے اور یہ تضاد انسانیت کو موت کی جانب دھکیل رہا ہے۔

غلطی کچھ ہماری بھی ہے ہم نے ہر بات کو حکومت پر بھی ڈالا ہوا ہے اور اپنی آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔اگر ہم خود قطرہ قطرہ کر کے اس ملک کہ سنوارنے میں اور اس وطن عزیز کے موجودہ حالات کو ٹھیک کرنے میں اپنا اپنا کردار ادا کریں تو وہ دن دور نہیں کے اس ملک کا شمار بھی ترقی یافتہ ممالک میں ہو سکتا ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں