یوم آزادی اور پاکستانی سیاست

رومانہ فاروق۔
romanafarooq@hotmail.com
دنیا کا ہر ملک جس نے غلامی کی طوق سے نجات پائی ہر سال اپنی آزادی کا جشن مناتا ہے۔ ہم بھی بحیثیت ایک آزاد قوم ہر سال14اگست کو اپنا یوم آزادی مناتے ہیں۔ہر طرف ملی نغموں کی گونج، جابجا لہراتے سبز ہلالی پرچم،رنگ برنگے قمقومے ، سجاوٹ، پٹاخے، ون ویلنگ اور ترقی و تحفظ کے عہدوپیماں آزادی کے جذبے کو بام عروج پر رکھتا ہے۔ایسا سب کچھ کرتے 70 سال کا طویل عرصہ بیت گیا۔لیکن کھبی بھی ہم نے یہ نہیں سوچاکہ کیایہ حقیقت میں قاہد کا پاکستان ہے۔
حقیقت تلخ مگر صد فی صد سچ ہے۔ کہ عوام اور حکمران دونوں ہی قاہد کا پاکستان بنانے میں ناکام رہے ۔
حکمرانوں نے تو جو کیا سو کیا۔۔۔۔۔مگر بحیثیت قوم ہم نے اپنی ذمہ داریوں کو کتنا نبھایا؟؟؟؟؟؟
یہ پاکستان کی بدنصیبی رہی کہ ابتدا سے آج تک ملکی اقتدار کے ایوانوں اور سیاست پر ایسے لوگوں کا قبضہ ہے جو اقتدار ومفادات اور سرمایہ ودولت کی جنگ میں مبتلا ہیں۔جنہوں نے کھبی بھی پاکستان پر آئے کسی مشکل وقت کا سامنا ڈٹ کر اور دیدہ دلیری سے نہیں کیا بلکہ اپنے چہروں کو چھپایاہے۔ملکی وقومی ذمہ داریوں کو پس پشت ڈال کر ذاتیات کو ترجیح دیتے رہے۔اپنی حکمرانیت و سیاست کو بیرونی طاقتوں کی تسکین ، مخالفین پر الزام تراشی اور عوام کے احساسات وجذبات سے کھیلنے تک محدود رکھا۔آمریت اور جہموریت کا سبق تو یاد رہا مگر پاکستان کے عزت و وقار اور اسلام کو بھولتے رہے۔اسلیے کہ یہ انسانیت کی معراج کو نہیں سمجھتے ، امانت میں ان کا کوئی کردار نہیں،دیانت میں کوئی درجہ نہیں،اخلاص میں کوئی مقام نہیں اور وفاداری میں کو ئی سطح نہیں ہے۔اسی لیے تو آج ہمارے ایوانوں میں محب وطن کم کم نظر آتے ہیں
جب کہ بحیثیت قوم ہماری ذمہ داری تھی کہ ان سرمایہ داروں ،وڈیروں اور جاگیرداروں کے مکروہ چہروں سے نقاب نوچ کر پھیکنتے مگر ہم نے تو جان بوجھ کر ان کی رہنمائی کی۔انہیں اپنے اوپر مسلط کیا اور یہ ہمیں دیوار سے لگاتے رہے۔ہم نے ایک دفعہ بھی تو سنبھلنے کی کو شش نہیں کی۔ بلکہ ان کے رنگ میں رنگتے رہے۔اسی لیے تو آج۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انسانیت، مذہب، اخلاص واخلاق ،تہذیب ، عزت نفس ووقار اور عدل وانصاف سے دوری نے ہماری رگوں میں بہتے سرخ خون کی گرمی اور جوش کو ٹھنڈا اور سفید کر دیا ہے۔جبھی تو عذاب الہی پر بھی توبہ و
ا ستغفار نہیں کرتے۔نفسا نفسی،بد نظمی، انتشار،لوٹ کھسوٹ اور قدم قدم پر قانون شکنی ہمارا روزمرہ کا معمول بن چکا ہے۔ جہان روزانہ خون کی ہولی کھیلی جاتی ہو۔غریبی ومفلسی والدین کو اولاد کا گلا گھوٹنے پر مجبور کرتی ہو۔ لڑکی کی پیدائش جرم ہو۔مذہب کو دہشت گردی کا نام دیا جاتا ہو۔زن،زمین اور زرانسان سے جانور بناتی ہوں۔بھتہ خوری عام ہو۔رشوت کا بول بالا ہو۔زندگی بے قدروقیمت اور موت لاکھوں کی ہو۔جائز وناجائز ہر بات کو منوانے کے لیے سڑکوں پر آنا،انسانی جانوں اور ملکی املاک کو نقصان پہچانا ضروری سمجھا جاتا ہو۔بے راہ روی عام ہو۔مغربی تہذیب پھل پھول رہی ہو۔ اساتذہ ( روحانی والدین) اپنی تدریسی ذمہ داریوں سے غافل ہوں اور طلبا اساتذہ کے ادب واحترام سے نا آشنا ہو۔ڈاکڑ آسائشوں کے حصول کے لیے انسانیت سے بے پروا ہ ہو جائیں۔والدین کے پاس اولاد کی تربیت کے لیے وقت نہ ہو۔اور اولاد والدین کو بوجھ سمجھتی ہو۔
یقیناًایسے پاکستان کو ہم قاہد کا پاکستان تونہیں کہ سکتے لیکن اتنا تو ضرور کر سکتے ہیں۔کہ مزیدوقت گنوائے تبدیلی کے لیے پر عزم ہوجائیں۔با عزت اور باشعور قوموں کی طرح زندہ رہنے کا سبق سیکھیں۔وطن کی عزت و وقار کو مقدم جانیں۔اور اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہوں۔تو آج بھی شایدہماری تقدیر بدلنے میں دیر نہ لگے۔ اور ہم حقیقت میں اسے قاہد کا پاکستان بنا سکیں۔

اپنا تبصرہ لکھیں