کیا ہونے جارہاہے۔۔

farhan minhaj 1....
فرحان منہاج
            پاکستانی سیاست میں اس وقت ایک بھونچال سی کفیت ہے۔ ہر طرف اندازے لگائے جارہے ہیں۔ ن لیگ کی مرکزی قیادت اس وقت شدید دباؤ میں ہے۔ پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم کے بعد ن لیگ اب خبروں میں ہے۔ ن لیگ کی قیادت کو بین الاقوامی میڈیا میں بھی شدید تنقید کا سامنا ہے۔ پانامہ لیکس کے انکشافات نے جہاں عالمی سیاست میں نقب لگائی وہاں ہی پاکستانی سیاست میں ایک طوفان کھڑا کردیا ہے۔ اپوزیشن جماعتیں ابھی تک بیانات او ر پریس بریفنگ تک ہی محدود ہیں مگر اتنے عمل پر حکومتی ردعمل غیر متوقع اور غیر ضروری اور آبیل مجھے مار کی مثال کی مانند ہے۔
پانامہ لیکس کے انکشافات کیاہیں؟اور پانامہ لیکس اور وکی لیکس میں فرق کیا ہے؟ وکی لیکس کا اثر پاکستانی سیاست میں نہ ہونے کے برابر تھا جبکہ پانامہ پر اتنا بھونچال اور نوازشریف کی اتنی بھوکلاہٹ پانامہ کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے۔ وکی لیکس میں سفارتی سطح پر خفیہ معلومات جو سفارت خانے اپنے ممالک کو دوسرے ممالک کی بھیجتے تھے ان کو منظر عام پر لایا گیا تھا۔ ا ن میں بہت سی باتیں عوام کے لیے غیر متوقع تھیں مگر عوام کے ہاضمے میں ہضم ہوجانے والی تھیں۔ پانامہ لیکس می آف شور کمپنیوں مطلب ایسی کمپنیاں جس پر ٹیکس ادا نہیں کیا جاتا جس میں آمدنی کے زرائع کا نہیں بتایا جاتااور اس کمپنی کی ہر معلومات خفیہ ہوتی ہے اس میں کالا دھن استعمال کیا جاتا ہے اور یہ کمپنی ان ممالک میں کھولی جاتی ہیں جہاں راز داری کے قوانین انتہائی سخت ہوتے ہیں اور یہ ممالک آپ سے آمدنی کے زرائع نہیں پوچھتے، ایسی کمپنیوں کے متعلق معلومات افشاں کی گئیں اور ان کے مالکان کے نام دنیا بھر سے  بتائے گئے۔ جس میں پاکستان کے وزیر اعظم میاں محمد نوازشریف کے خاندان یعنی بیٹوں سمیت 200سے زائد افراد کے نام بھی آئے ہیں۔ ان کے نام آتے ہی دنیا میں کالادھن سفید کرنے والے جیسے ہی بے نقاب ہوئے دنیا میں ایک ہنگامہ سا بپاہوگیا اور یکے بعد دیگرے کئی ممالک کے سربراہ اور وزیر مستعفی ہوگئے۔اس طوفان کی زد سے پاکستان بھی محفوظ نہیں رہا اور ایک سیاسی میدان لگ گیا جس میں اپوزیشن بھرپور کھیل رہی ہے اور نواز شریف بھی میدان میں تمام تر سرکاری قوت استعمال کر کے اپنا بچاؤ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
پانامہ لیکس کے حوالے نوازشریف خاندان پہلے ہی سے آگاہ تھا اس سلسلے میں اس کے شایع ہونے سے پہلے اس کی پلاننگ بھی کی جارہی تھی۔ کیونکہ پانامہ لیکس نے  ان  تمام معلومات  کو  پبلک کرنے سے پہلے جن جن کے نام ان میں تھے ان کو اطلاع کردی تھی اور ان کی رائے بھی طلب کی تھی۔ حسین نواز کا اس سلسلے میں ایک معروف چینل پر ایک معروف صحافی سے انٹرویو کروایا گیا جس میں حسین نواز نے الحمد اللہ الحمد اللہ کہہ کر آف شور کمپنی کی ملکیت کو مانا۔ اس انٹرویو پر کسی بھی جانب سے کوئی خاص رد عمل نہیں آیا۔ صرف ایک بات ہی سامنے آئے کہ مریم نواز کئی مرتبہ کہہ چکی ہے کہ وہ کوئی کاروبار یا کمپنی کی مالک نہیں بلکہ اس کے بھائی نے اس کے نام سے ایک کمپنی کی ملکیت کا ذکر کیا ہے۔ حسین نواز نے اس انٹرویو میں بڑی خوبصورتی کے ساتھ آ ف شور کمپنی کے بارے میں تاثر بنانے کی کوشش کی کہ یہ اس لیے بنائی جاتیں ہیں تاکہ ٹیکس سے بچا جاسکے او ر کچھ نہیں۔ اسی اثناء میں شریف خاندان یہ بھی جانتا تھا کہ اس پانامہ لیکس کے حوالے سے جو سب سے خطرناک احتجاج ثابت ہوسکتا ہے وہ دھرنا ہوسکتا ہے۔ اسی لیے ممتاز قادری کی پھانسی کے بعد کی صورتحال کو سیڑھی بنا کر چند لوگوں سے دھرنا اور توڑ پھوڑ کروائی گئی جس سے دھرنے کے اھتجاج پر پابندی اور عوامی نفرت پیدا کرنا مقصود تھا۔
جیسے ہی پانا مہ لیکس کے حوالے سے خبریں عالمی میڈیا کا حصہ بنیں پاکستانی میڈیا بھی اس کے اثر سے نہیں بچ سکا اور ایک طوفان سے برپا ہوگیا۔ عمران خان کی پریس کانفرنس اور اپوزیشن کے شدید احتجاج کو دیکھ کر نواز شریف صاحب نے پہلا خطاب کیا اور  سپریم کورٹ کے ریٹائیر جج کی سربراہی میں ایک کمیشن بنانے کا اعلان کردیا۔ اور اس کمیشن میں صرف پانامہ کے حوالے سے انکوائری کی جائے گا کا اعلان تھا۔ اس اعلان کے بعد ن لیگی حلقوں نے یہ کہنا شروع کردیاکہ نواز شریف نے اپنے آپ کو اور خاندان کو احتساب کے لیے پیش کردیا۔ مگر اس اعلان کو اپوزیشن نے مسترد کردیا اور چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں کمیشن کا مطالبہ کردیا۔ نواز شریف پہلے خطاب کے بعد لند ن بظاہر علاج کے غرض سے چلے گئے۔ اسی دوران آرمی چیف نے احتساب کا نعرہ لگایا اور اپنے ادارے میں احتساب کا آغاز کردیا جس نے نواز شریف کو مزید ذہنی کرب میں مبتلا کردیا۔ ادھر طاہرالقادری نے نواز شریف کی لندن یاترا کو پانامہ لیکس کے حوالے سے جوابات کی تیاری اور لائحے عمل مرتب کرنے کا دورہ قرار دے دیا۔ اور ایسا ہی ہوا نواز شریف نے واپس آتے ہی عوامی جلسو ں اور 1956کے ایکٹ کے تحت کمیشن بنانے کا اعلان کیا اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو خط لکھ کر 1947سے سب کے احتساب کا اعلان کر دیا اور ایک میڈیا ہاؤس میں پانامہ لیکس کی وضاحت اور معافی کی جھوٹی خبر شایع کروا کراس پریشر سے نکلنے کی کوشش کی جو کہ بری طرح ناکام ہوگئی  کیونکہ اپوزیشن نے اس کمیشن کے ٹی او آر اور 1956ایکٹ کے تحت قیا م کو یکسر مسترد کردیا۔اور دوسری طرف پانامہ کے حوالے وضاحتی خبر کی بھی تردید آگئی۔
ان حالات میں نوازشریف کاحکومت کرنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا ہے۔ اپوزیشن ابھی مکمل طور پر باہر نہیں آئی۔ نوازشریف اپنے بیٹو ں سے لاتعلق نہیں رہ سکتے اور آف شورکمپنی کو جائز بھی نہیں کہہ سکتے۔ نواز شریف کی کوشش ہے کہ کسی طرح اپوزیشن کسی ایسے کمیشن پر راضی ہوجائے جس پر اس کا پورا اثر ہو اور اس کمیشن کا حال وہ ماڈل ٹاؤن کمیشن جیسا کر سکے۔اوردوسری طرف اپوزیشن میں عمران خان دھاندلی کمیشن کے تجربے کو مدنظر رکھتے ہوئے کسی لولے لنگڑے کمیشن پر راضی ہونے کو تیار نہیں۔پی پی ڈاکٹر عاصم کی رہائی کی ضمانت پر کھیل رہی ہے ڈاکٹر عاصم کو جتنا ریلیف ملے گا اتنا پی پی نوازشریف کو دے گی۔ طاہرالقادری ماڈل ٹاؤن کا کیس لے کر میدان میں اتنا چاہتے ہیں اور پانامہ میں پھنے شریف خاندان پر ماڈل ٹاؤن کیس کی ضرب لگانا چاہتے ہیں۔ اور دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی پر ہے۔ اگر کمیشن پر اتفاق نہ ہوا عمران اور طاہر القادری لاہور اور پنڈی کی سڑکوں پر ہوئے تو قوم قومی حکومت کی طرف جاسکتی ہے۔ اور اگر نواز شریف اپنی قربانی دے کر موجودہ نظام کو بچاتے ہیں تو قوم نوازشریف کی سیاست کا اختتام دیکھے گی اور اگر نوازشریف بچ گئے تو عمران خان کو اگلے الیکشن میں ناکام اور الیکشن سیاست اور اس نظام کے تہس نہس کرنے کے لیے میدان میں دیکھے گی۔
اپنا تبصرہ لکھیں