کیا واقعی ایک بکری یا بکرے کی پورے کنبہ کی جانب سے قربانی دی جاسکتی ہے؟

new

قربانی سنت موکدہ ہے جو صاحب نصاب کو ادا کرنا ہوتی ہے۔الحمد للہ مسلمان غریب ہو یا امیر اسکے دل میں عید پر قربانی کا جذبہ موجزن ہوتا ہے لیکن فی زمانہ جانور مہنگے ہونے کی وجہ سے وہ قربانی کا جانور خریدنے یا کسی قربانی میں حصہ ڈالنے سے محروم رہتا ہے اور اسکا زیر کفالت سارا کنبہ اس درد کو محسوس کرتا ہے۔اگر اسلام کی رو سے دیکھا جائے تو مسلمانوں نے قربانی کا مسئلہ خود اپنے لئے پیچیدہ بنا لیا ہے۔ قربانی کے احکامات کے حوالے سے بعض فقہ سے یہ بات ثابت شدہ ہے کہ اگر گھر کا سربراہ جس کے گھر میں ایک ہی چولہا جلتا ہو اور باقی لوگوں کا وہ کفیل ہوتو اسکی جانب سے کی جانےو الی قربانی کے ثواب میں سارا کنبہ شامل ہوتا ہے ۔اس کے لئے ہر فرد کے لئے الگ الگ قربانی کرنا لازم نہیں،وسائل ہوں اور صاحب نصاب ہوتو الگ بات ہے۔ ہمارے ہاں ہوتا یہ ہے کہ جانوروں کے مہنگا ہونے کی وجہ سے لوگ یوں کرتے ہیں کہ اس سال اگر والد کی جانب سے قربانی دی جارہی ہے تواگلے سال ماں کی جانب سے اور اس سے اگلے سال بیٹے بیویوں کی جانب سے۔۔اسلام اس خانگی اور سماجی مسائل کی بنا پر قربانی ادا کرنے کا حکم نہیں دیتا نہ جبر کرتا ہے۔فقہ مالکی کے مطابق ایک بکرا یا بکری گھر کے تمام افراد کی طرف سے کافی ہے۔یہ معلوم ہونا چاہئے کہ ایک بکرے کی قربانی میں گھر کا سرپرست یعنی باپ کے ساتھ، اس کی بیوی اور بچے سب شامل ہوسکتے ہیں۔ یہ عمل رسول اللہﷺ، صحابہ کرامؓ اور تابعین وتبع تابعینؓ سے ثابت شدہ ہے۔اس پر سالہا سال تک عمل ہوتا رہا ہے لیکن بعد ازاں تمدن تبدیل ہونے سے مسلمانوں نے قربانی کے لئے اپنے اپنے جانور مخصوص کرلئے اور تصور قائم کرلیاکہ یہ قربانی صرف اسکی جانب سے ہی ہوسکتی اور باقی کنبہ اس کا حقدار نہیں۔
اس ضمن میں علماءمجتہدین کا کہنا ہے کہ ایک گھرانہ اس کو کہتے ہیں جس میں تین شرائط پائی جاتی ہوں (۱)قربانی کرنے والا شخص انکے خرچہ کا ذمہ دار ہو (۲) وہ تمام افراد اسکے رشتہ دار بھی ہوں (۳) قربانی کرنے والا شخص انکے ساتھ رہائش پذیر ہو۔ فقہ مالکی کے فقہا کا بھی یہیموقف ہے اور کچھ اختلاف سے شافعی فقہاءکابھی۔ البتہ قربانی کی حیثیت سے ایک بکرے میں کسی بھی قسم کے متعدد افراد کی شرکت ناجائز ہے، جیسا کہ بیل یا اونٹ میں سات افراد شریک ہوتے ہیں۔یہ ساتوں اپنے اپنے کنبے کی جانب سے قربانی دے سکتے ہیں۔ احادیث کی رو سے ایک بکرے کی قربانی میں حصول ثواب کے لیے بیشمار لوگوں کو شریک کیا جاسکتا ہے۔ یہ عمل فقہ حنفیہ کے مطابق بھی جائز اور عین سنتِ رسول ﷺہے۔
بکری کی قربانی میں ایک سے زائد شریک ہو سکتے ہیں یا ایک سے زیادہ کی طرف سے بکری کی قربانی دی جا سکتی ہے یا نہیں؟ اس مسئلہ میں حنفیہ اور محدثین کا اختلاف ہے۔ حنفیہ کے نزدیک بکری صرف ایک ہی شخص کی طرف سے قربانی کی جا سکتی ہے جس کے لئے حضرت عائشہؓ کی حدیث بہترین دلیل ہو سکتی ہے۔” نبی اکرمﷺ ایک بکری کی تمام گھر والوں کی طرف سے قربانی کرتے“
جبکہ ایک دوسری حدیث کے مطابق آپﷺ دو مینڈھے لیتے ، پہلے پر آپ ﷺ نے کہا یہ محمد ﷺ اور آلِ محمد ﷺ کی طرف سے ہے۔ دوسرے پر کہا کہ یہ ہر اس شخص کی طرف سے ہے جو مجھ پر ایمان لایا اور میری تصدیق کی میری امت سے“
مسند امام احمدؒ میں ایک روایت ہے کہ ایک صحابیؓ نے کہا ” ہم سات آدمیوں کی ایک پارٹی تھی۔ ہمیں رسول اللہﷺ نے حکم دیا کہ ہم سب ایک ایک درہم ملا کر ایک بکری خرید لیں۔ چنانچہ اس طرح ہم نے سات درہم جمع کر کے ایک بکری خرید لی۔ پھر آپﷺ کے فرمانے کے مطابق ایک شخص نے ایک پاو¿ں اور دوسرے شخص نے دوسرا پاو¿ں، ایک نے ایک ہاتھ اور دوسرے نے دوسرا ہاتھ، ایک نے ایک سینگ دوسرے نے دوسرا سینگ بکری کا پکڑ لیا اور ساتویں نے ذبح کیا اور ہم سب نے تکبیر پڑھی“ گویا اس حدیث کی رو سے اہل خانہ پیسے ڈال کر قربانی کا اجنور خرید سکتے ہیں۔
حافظ ابن قیمؒ نے بھی مذکورہ بالاحدیث کا ذکر کیاہے بلکہ حافظ ابن قیم ؒ نے آخر میں اس حدیث کا ذکر فرمایا اور لکھا ”اس جماعت کو آپﷺ نے ایک گھر والوں کی طرح سمجھ کر فتویٰ دیا کہ ایک بکری ان سب کی طرف سے قربانی ہو سکتی ہے کیونکہ وہ سب رفیق اور ایک ساتھ رہنے والے ہیں“
ترمذی شریف میں حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی حدیث سے یہ مسئلہ کھل کر سامنے آجاتا ہے ۔ جب آپؓ سے پوچھا گیا”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں عید قربان پر قربانیاں کیسے ہوتی تھیں؟ تو انہوں نے کہا: ایک آدمی اپنی طرف سے اور اپنے تمام گھر والوں کی طرف سے ایک بکری کی قربانی کرتا تھا، وہ خود بھی اس میں سے کھاتے اور دوسروں کو بھی کھلاتے، حتٰی کہ لوگ اس عمل پر فخر کرنے لگے اور معاملہ یہاں تک پہنچ گیا جو آپ کو نظر آرہا ہے“
اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک بکری یا بکرے یا دنبہ کی پورے کنبہ کی جانب سے قربانی پر مختلف فقہ میں اختلاف پا یا جاتا ہے لہذا علمائے کرام اور مفتیان کو اس معاملہ کی شرعی حیثیت پر مکالمہ و اجتہاد لازماً کرنا چاہئے تاکہ مسلمان سماجی مسائل اور غلط روایات کی بنا پر اپنے شعائر سے دور نہ ہوتے جائیں۔

اپنا تبصرہ لکھیں