پاک ٹی ہاؤس اور ہیر رانجھا

انتخاب انورپاشا

منصور حسین

پاک ٹی ہاؤس لاہور میں مال روڈ پر واقع ہے جو کہ نیلا گنبد کے قریب اور انار کلی بازار کے باہری حصے کی جانب واقع ہے۔پاک ٹی ہاؤس کے سامنے کی جانب پنجاب یونیورسٹی ہے ، دائیں جانب کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج ہے اور بائیں جانب اے جی آفس کی جانب جانے والی سڑک نظر آتی ہے اور اگر ہم عقب کی جانب دیکھیں تو وائی ایم سی کی پرانی بلڈنگ نظر آئے گی۔ کہا یہ جاتا ہے کہ 1940 میں ایک سکھ بوٹا سنگھ نے ‘‘انڈیا ٹی ہاؤس’’ کے نام سے یہ چائے خانہ شروع کیا تھا۔۔۔ تقریباً چار سال اس چائے خانے کو چلانے کے باوجود بھی بوٹا سنگھ کی اس چائے خانے سے آمدن نہ ہونے کے برابر تھی جس سے بوٹا سنگھ کا دل اس چائے خانے سے اچاٹ ہو گیا اور وہ اس کو بیچنے کے بارے میں سوچنے لگا۔اس زمانے میں بوٹا سنگھ کے چائے خانے میں دو سکھ بھائی جو گورنمنٹ کالج کے سٹوڈنٹ تھے اپنے دوستوں کے ہمراہ اکثر چائے پینے آتے تھے۔ 1940ء میں یہ دونوں بھائی گورنمنٹ کالج سے گریجوایشن کر چکے تھے اور کسی کاروبا ر کے متعلق سوچ رہے تھے کہ ایک روز اس چائے خانہ پر بیٹھے، اس کے مالک بوٹا سنگھ سے بات چل نکلی اور بوٹا سنگھ نے یہ چائے خانہ ان کو بیچ دیا۔ لاہور کے مشہور چائے خانوں میں سب سے مشہور چائے خانہ پاک ٹی ہاؤس تھا جو ایک ادبی، تہذیبی اور ثقافتی علامت تھا۔ پاک ٹی ہاؤس شاعروں، ادیبوںاور نقادوں کا مستقل گڑھ تھا جو ثقافتی، ادبی محافل کا انعقاد کیا کرتے تھے۔اس زمانے میں پاک ٹی ہاؤس میں بیٹھنے والے ادیبوں اور شاعروں میں سے سوائے چند ایک کے باقی کسی کا بھی کوئی مستقل ذریعہ معاش نہیں تھا کسی ادبی پرچے میں کوئی غزل، نظم یا کوئی افسانہ لکھ دیا تو پندرہ بیس روپے مل جاتے تھے لیکن کبھی کسی کے لب پر تنگی معاش کا شکوہ نہیں تھا اگر شکوہ کرتے تھے تو محبوب کی بے وفائی کا۔۔۔۔۔۔ وہ بھی اپنی شاعری میں۔۔۔ سعادت حسن منٹو، اے حمید، فیض احمد فیض، ابن انشاء، احمد فراز، منیر نیازی، میرا جی، کرشن چندر، کمال رضوی، ناصر کاظمی، پروفیسر سید سجاد رضوی، استاد امانت علی خان، ڈاکٹر محمد باقر، انتظار حسین، اشفاق احمد، قیوم نظر، شہرت بخاری، انجم رومانی، امجد الطاف امجد، احمد مشتاق، مبارک احمد، انورجلال، عباس احمد عباسی، ہیرو حبیب، سلو، شجاع، ڈاکٹر ضیاء ، ڈاکٹر عبادت بریلوی، سید وقار عظیم وغیرہ پاک ٹی ہاؤس کی جان تھے۔ ساحر لدھیانوی بھارت جا چکے تھے اور وہاں فلمی گیت لکھ کر اپنا نام کما رہے تھے۔۔ اس وقت کے شاعر اور ادیب اپنے اپنے تخلیقی کاموں میں مگن تھے ادب اپنے عروج پہ تھا اس زمانے کی لکھی ہوئی غزلیں، نظمیں، افسانے اور مضامین آج کے اردو ادب کا قیمتی سرمایہ ہیں اس زمانے کی بوئی ہوئی ذرخیز فصل کو ہم آج کاٹ رہے ہیں۔ عرصہ دراز تک اہل قلم کو اپنی آغوش میں پناہ دینے کے بعد 2000ء میں جب ٹی ہاؤس کے مالک نے اسے بند کرنے کا اعلان کیا تو ادبی حلقوں میں تشویس کی لہر دوڑ گئی اور اہل قلم نے باقاعدہ اس فیصلے کی مزاحمت کرنے کا اعلان کر دیا۔دراصل ٹی ہاؤس کے مالک نے یہ بیان دیا تھا کہ ’’میرا ٹی ہاؤس سے گزارہ نہیں ہوتا میں کوئی دوسرا کاروبار کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ادبی تنظیموں نے مشترکہ بیان دیا کہ ٹی ہاؤس کو ٹائروں کی دکان بننے کی بجائے ادیبوں کی بیٹھک کے طور پر جاری رکھا جائے کیونکہ اس چائے خانے میں کرشن چندر سے لیکر سعادت حسن منٹو تک ادبی محفلیں جماتے رہے ہیں۔ ادیبوں اور شاعروں نے اس چائے خانے کی بندش کے خلاف مظاہرہ کیا اور یہ کیس عدالت میں بھی گیا اور بعض عالمی نشریاتی اداروں نے بھی احتجاج کیا آخر کار 31 دسمبر 2000ء کو یہ دوبارہ کھل گیا اور اہل قلم یہاں دوبارہ بیٹھنے لگے لیکن 6 سال کے بعد 2006ء میں یہ دوبارہ بند ہو گیا اس بار ادیبوں اور شاعروں کی طرف سے کوئی خاص احتجاج دیکھنے میں نہیں آیا۔میاں نواز شریف نے بالآخر 23 مارچ 2012 کو پاک ٹی ہاؤس میں چائے پی کر اور اس کا افتتاح کر کے ادیبوں اور شاعروں کے لیے اس کے دروازے ایک بار پھر کھول دئیے۔آجکل پاک ٹی ہاؤس میں ادبا اور شعرا تو خال خال ہی نظر آتے ہیں البتہ دوپہر گیارہ بجے سے شام پانچ بجے تک لیلی مجنوں ، شیریں فرہاد ، سسی پنوں اور ہیر رانجھا اپنی اپنی سرگوشیوں میں مشغول رہتے ہی

پاک ٹی ہاؤس اور ہیر رانجھا“ ایک تبصرہ

  1. Bht khubsurat tehreer hai aik tareekhi jaga ke baare mein, kuch maah qabal lahore gaya tha to mein ne visit kya tha PAK TEA HOUSE ka aur bht dil khush hua

اپنا تبصرہ لکھیں