پارلیمانی تقریروں کا شاعری سے رشتہ

سہیل انجم
 
اردو زبان کے بارے میں بہت کچھ کہا اور لکھا جاتا ہے۔ ہندوستان میں اس کو درپیش مسائل پر بھی اکثر و بیشتر گفتگو، تبادلہ خیال اور پروگرام ہوتے رہتے ہیں۔ حکومت سے مطالبہ بھی کیا جاتا ہے کہ وہ اردو اور اردو والوں کے مسائل حل کرے۔ اس سلسلے میں مختلف ریاستوں میں اردو اکادمیاں قائم ہیں۔ اس کے علاوہ مرکزی سطح پر قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان بھی کام کر رہی ہے۔ اردو کے بارے میں کوئی گفتگو ہو اور اس میں سیاستداں بھی شریک ہوں تو وہ اردو کی شیرینی اور چاشنی کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیتے ہیں۔ لیکن اگر اردو کو اس کا جائز حق دینے کی بات آئے تو خاموش ہو جاتے ہیں۔ لیکن ان تمام باتوں سے قطع نظر اردو زبان کے شیدائیوں کا ایک ایسا طبقہ ہمیشہ موجود رہا ہے جو اردو رسم الخط سے واقف نہیں لیکن اردو کو پسند کرتا ہے اور اردو اشعار کا دیوانہ ہے۔ اور سیاست دانوں کا تو بہت بڑا طبقہ اپنی تقریروں میں اشعار کا استعمال کرتا ہے۔
پارلیمنٹ میں ہونے والی تقریروں میں بھی اکثر و بیشتر اشعار کا استعمال ہوتا ہے، خاص طور پر حریفوں کو زیر کرنے کے لیے۔ عام بجٹ ہو یا ریل بجٹ یا کوئی اور گرما گرم بحث اس میں تو اشعار کا استعمال کیا جانا ضروری ہے۔ اب یہی دیکھیے کہ ارون جیٹلی جیسے خشک آدمی نے بھی جب اپنا تازہ ترین عام بجٹ پیش کرنے کے لیے تقریر کا آغاز کرنا چاہا تو شعر ہی کے دامن میں پناہ لینی پڑی۔ انھوں نے اس شعر سے اپنی تقریر شروع کی:
کشتی چلانے والوں نے جب ہار کے دی پتوار ہمیں، لہر لہر طوفان ملے اور موج موج منجدھار ہمیں
پھر بھی دکھایا ہے ہم نے اور پھر بھی دکھا دیں گے یہ ہم، ان حالات میں بھی آتا ہے دریا کرنا پار ہمیں
اخباروں نے اس شعر کا حوالہ دے کر خبر بھی بنائی۔ این ڈی ٹی وی کے رویش کمار نے جب پرائم ٹائم پروگرام میں بجٹ پر بحث کا آغاز کیا تو انھوں نے ساحر لدھیانوی کا ایک شعر پڑھا۔ بہر حال ارون جیٹلی کے اس شعر کو پڑھنے کے بعد ہمیں بہت سے وزرا اور ممبران پارلیمنٹ کے ذریعے پیش کیے گئے اشعار یاد آگئے۔ پھر ہمیں تجسس ہوا کہ اس بارے میں اور بھی معلوم کیا جانا چاہیے کہ کس کس نے اپنی تقریر کے دوران اشعار سے لطف پیدا کیا۔ اس سلسلے میں قارئین کی تفریح طبع کے لیے کچھ مثالیں پیش ہیں۔ 1991-92میں وزیر مالیات کی حیثیت سے جب ڈاکٹر من موہن سنگھ نے عام بجٹ پیش کیا تو انھوں نے اقبال کا یہ شعر پڑھا:
یونان و مصر و روما سب مٹ گئے جہاں سے، باقی مگر ہے اب تک نام و نشاں ہمارا
یہ بات بتا دیں کے من موہن سنگھ غالب اور اقبال کی شاعری کے شیدائی ہیں۔ جب 2013 میں ایک پروگرام کے دوران میڈیا والوں نے ان سے پوچھا کہ آپ کی حکومت کو ۹ سال ہو گئے آپ کیا محسوس کرتے ہیں تو انھوں نے پھر اقبال کا شعر پڑھا:
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں، ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
لیکن جب ان کے حریفوں نے ان پر مسائل پر نہ بولنے اور خاموش رہنے کا الزام لگایا اور ایک محفل میں میڈیا کو اس سلسلے میں سوال کرنے کا موقع مل گیا تو انھوں نے ایسا برجستہ شعر پڑھا کہ مخالفین بھی ڈھیر ہو گئے۔ انھوں نے کہا:
ہزاروں جوابوں سے اچھی ہے میری خامشی، نہ جانے کتنے سوالوں کی آبرو رکھ لی
2013 میں صدر کے خطبہ پر شکریہ کی تحریک کے دوران وزیر اعظم من موہن سنگھ نے اپوزیشن کے الزامات کے جواب میں غالب کا شعر پڑھا کہ:
ہم کو ان سے وفا کی ہے امید، جو نہیں جانتے وفا کیا ہے
اس پر ایوان میں موجود لوگوں نے خوب لطف لیا۔ بی جے پی میں سشما سوراج ایسی لیڈر ہیں جن کو اچھے اشعار یاد ہیں۔ جب من موہن سنگھ بیٹھ گئے تو سشما کھڑی ہوئیں اور انھوں نے شگفتہ انداز میں کہا کہ وزیر اعظم نے شعر سے ہمارے اوپر حملہ کیا ہے۔ ہم بھی اس کا جواب دینا جانتے ہیں، ہم شعر ادھار نہیں رکھتے۔ اور ہم ایک نہیں دو شعر پڑھیں گے:
کچھ تو مجبوریاں رہی ہوں گی، یوں کوئی بیوفا نہیں ہوتا
انھوں نے اس کا مطلب بھی سمجھایا کہ بقول ان کے آپ کی پالیسیاں عوام کے مفاد میں نہیں ہیں اس لیے ہم نے آپ سے بیوفائی کی ہے۔ انھوں نے یہ مصرعے بھی پڑھے:
تمھیں وفا یاد نہیں ہمیں جفا یاد نہیں، زندگی اور موت کے دو ہی تو ترانے ہیں، اک تمھیں یاد نہیں اک ہمیں یاد نہیں
اسی طرح 2008 میں کانگریس پر الزام تھا کہ اس نے ایوان میں اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے لیے ممبران پارلیمنٹ کو خریدا ہے۔ اس پر پارلیمنٹ میں بحث ہو رہی تھی۔ پھر مقابلہ من موہن سنگھ اور سشما سوراج کے درمیان ہوا۔ سشما نے اپنی تقریر میں من موہن سنگھ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:
تو ادھر ادھر کی نہ بات کر یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا، مجھے رہزنوں سے غرض نہیں تری رہبری کا سوال ہے
جب وہ بیٹھ گئیں تو من موہن سنگھ کھڑے ہوئے اور انھوں نے کہا کہ وہ سشما جی کی طرح اچھے مقرر تو نہیں ہیں لیکن وہ بھی ایک شعر سے جواب دینا چاہتے ہیں۔ اس پر بہت زور سے آواز آئی ارشاد! اور یہ آواز اپوزیشن کی طرف سے آئی تھی۔ من موہن سنگھ نے اقبال کا شعر پڑھا:
مانا کہ تری دید کے قابل نہیں ہوں میں، تو میرا شوق دیکھ مرا انتظار دیکھ
سشما جی کو مخاطب کرکے پڑھے گئے اس شعر پر ایوان نے بھرپور انداز میں لطف لیا خود سشما نے بھی لیا۔من موہن سنگھ نے فروری2011 میں صدر کے خطبہ پر ہونے والی بحث میں بھی شعر پڑھا تھا اور وہ شعر تھا:
یہ جبر بھی دیکھا ہے تاریخ کی نظروں نے، لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی۔ 
دوسرے وزرا بھی اشعار سے محفل کو گرمانے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ فروری2011 میں ریل بجٹ پیش کرتے ہوئے ممتا بنرجی نے لتا منگیشکر کے گائے ہوئے اس نغمے کے اشعار پڑھے کہ اے میرے وطن کے لوگو ذراآنکھ میں بھر لو پانی۔ مارچ ۱۱۰۲ میں ایف ڈی آئی پر ہونے والی بحث کے دوران نشی کانت دوبے نے غالب کا یہ شعر پڑھا:
بس کہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا، آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
اسی ماہ ایک بحث کے دوران شفیق الرحمن برق نے بھی تقریر کی حالانکہ وہ بحث میں بہت کم حصہ لیتے تھے۔ انھوں نے مخالفین کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا:
جب پڑا وقت تو گلشن کو لہو ہم نے دیا، اب بہار آئی تو کہتے ہیں ترا کام نہیں
یشونت سنہا این ڈی اے حکومت میں وزیر مالیات رہے ہیں۔ حالانکہ ان کا بھی شعر و شاعری سے کوئی رشتہ نہیں ہے وہ تو ایک بیوروکریٹ رہے ہیں لیکن انھوں نے بھی بجٹ تقریر کے دوران شعر سے لطف پیدا کرنے کی کوشش کی۔ انھوں نے اپنی تقریر کے دوران کہا:
تقاضہ ہے وقت کا کہ طوفاں سے کھیلو، کہاں تک چلو گے کنارے کنارے
2014 میں کانگریس لیڈر ملک ارجن کھڑگے کو ریلوے بجٹ پیش کرنا تھا۔ بھلا وہ کیسے بغیر شعر کے اپنی تقریر مکمل کرتے۔ لہٰذا انھوں نے غالب کا شعر پڑھا:
صادق ہوں اپنے قول میں غالب خدا گواہ، کہتا ہوں سچ کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے
انھوں نے یہ عوامی شعر بھی پڑھا:
کبھی چلمن سے وہ جھانکیں کبھی چلمن سے ہم جھانکیں، لگا دو آگ چلمن میں نہ وہ جھانکیں نہ ہم جھانکیں۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے پچھلے دنوں پارلیمنٹ میں بحث کے دوران راہل گاندھی کی تقریر کے جواب میں جو تقریر کی اس میں انھوں نے ندا فاضلی کا یہ شعر پڑھا:
یہاں کسی کو کوئی راستہ نہیں دیتا، مجھے گرا کے اگر تم سنبھل سکو تو چلو
8 مارچ کو یوم خواتین کے موقع پر پارلیمنٹ میں خاتون ممبران کو بولنے کا موقع ملا تو اس میں بھی کئی ممبران نے شعر پڑھے۔ ایک خاتون ممبر کے یہ اشعار اچھے لگے:
دن کی روشنی خواب بنانے میں گزر گئی، رات کی نیند بچوں کو سلانے میں گزر گئی، جس گھر میں مرے نام کی تختی بھی نہیں ہے، ساری عمر اس گھر کو سجانے میں گزر گئی۔
اپنا تبصرہ لکھیں