موسمی تبدیلی اور ہماری بد عہدی

Moves on: nor all thy Piety nor Wit

Shall lure it back to cancel half a Line,
Nor all thy Tears wash out a Word of it.”
لیکن اب جو کچھ لکھا جا رہا ہے، وہ آنسوؤں سے نہیں دھل سکتا۔ یہ سطریں ہمارے کرتوتوں کا نتیجہ ہیں، جو فطرت نے ہمارے لیے لکھ دی ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات روز بروز واضح ہوتے جا رہے ہیں، اور ان کو مٹانا ہمارے اختیار میں نہیں رہا۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے ہم جتنا نظرانداز کریں گے، اتنا ہی زیادہ نقصان اٹھائیں گے۔ اگر ہم نے اب بھی سنجیدگی سے اقدامات نہ کیے، تو آنے والی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔
ہم نے قدرت کے ساتھ جو بدعہدی کی ہے، وہ موسمیاتی تبدیلی کی صورت میں ہمیں قدم قدم پر سزا دے رہی ہے۔ غیر متوقع موسم، شدید گرمی کی لہریں، خشک سالی، اور بے وقت کی بارشیں — یہ سب اسی بدعہدی کے نتائج ہیں۔ یہ محض اتفاقات نہیں، بلکہ ہماری صدیوں کی غفلت اور ہوس کا حاصل ہیں۔ اگر ہم نے اب بھی نہ سنا، تو نہ نسلیں معاف کریں گی، نہ زمین۔
اسلام نے فطرت کے ساتھ ہمدردی اور اس کی حفاظت پر بہت زور دیا ہے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
“اور زمین میں فساد نہ پھیلاؤ، جب کہ اس کی اصلاح ہو چکی ہے۔” (سورۃ الاعراف: 56)
یہ آیت واضح طور پر زمین میں فساد پھیلانے سے منع کرتی ہے، جس میں ماحول کو آلودہ کرنا اور اس کے توازن کو بگاڑنا بھی شامل ہے۔ اسی طرح، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے درختوں کو کاٹنے اور فصلوں کو اجاڑنے سے سختی سے منع فرمایا ہے، حتیٰ کہ حالت جنگ میں بھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“اگر قیامت قائم ہو جائے اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں کھجور کا پودا ہو، تو اگر وہ اسے بو سکتا ہو، تو ضرور بوئے۔” (مسند احمد)
یہ حدیث شجر کاری کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے، اور یہ بتاتی ہے کہ ماحولیات کی حفاظت کتنی بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ:
“جو مسلمان کوئی درخت لگاتا ہے یا کوئی فصل بوتا ہے اور اس میں سے پرندہ، انسان یا کوئی جانور کھاتا ہے، تو وہ اس کے لیے صدقہ ہو جاتا ہے۔” (صحیح بخاری)
یہ احادیث ہمیں نہ صرف درخت لگانے کی ترغیب دیتی ہیں بلکہ یہ بھی بتاتی ہیں کہ فطرت کی حفاظت نیکی کا کام ہے اور اللہ کے ہاں اس کا اجر ہے۔ اسلام کا بنیادی فلسفہ یہ ہے کہ انسان اللہ کا خلیفہ ہے اور اس پر زمین اور اس کے وسائل کی حفاظت کی ذمہ داری ہے۔ یہ ذمہ داری محض زبانی جمع خرچ نہیں بلکہ عملی اقدامات کا تقاضا کرتی ہے۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم نے اسلامی تعلیمات کے اس اہم پہلو کو نظرانداز کر دیا۔ ہم نے صرف عبادات پر زور دیا اور اپنے ارد گرد کے ماحول اور فطرت کے حقوق کو بھلا دیا۔
قرآن پاک میں کئی جگہوں پر زمین، آسمان، پہاڑوں، دریاؤں اور جنگلات کا ذکر ہے، جو اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔ ان نشانیوں کی قدر کرنا اور ان کی حفاظت کرنا ہم پر واجب ہے۔ جنگ کے دوران فصلوں کو اجاڑنے اور درختوں کو کاٹنے سے ممانعت کا حکم اس بات کی دلیل ہے کہ اسلام جنگ جیسے مشکل حالات میں بھی ماحولیات کی حفاظت کو مقدم رکھتا ہے۔ اگر جنگ کی حالت میں بھی فطرت کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں، تو پرامن حالات میں درختوں کا بے دریغ کٹاؤ، جنگلات کی تباہی، اور زمین کی آلودگی کیسے جائز ہو سکتی ہے؟
حل سادہ ہے، مگر اس کے لیے اخلاص اور ارادہ درکار ہے:
ہمیں درختوں سے صلح کرنی ہے، زیادہ سے زیادہ درخت لگانے ہیں اور موجودہ درختوں کی حفاظت کرنی ہے۔ اس ضمن میں، بلین ٹری سونامی جیسے بڑے پیمانے کے منصوبے، جو سابق وزیراعظم عمران خان کی حکومت نے شروع کیے اور جنہیں عالمی سطح پر سراہا گیا، انتہائی اہم ہیں۔ یہ ایک ایسا پروگرام تھا جس نے پاکستان میں جنگلات کی بحالی اور ماحولیاتی تحفظ کے لیے ایک مثال قائم کی۔ کسی بھی حکومت کی طرف سے شروع کیا گیا کوئی بھی اچھا کام، خاص طور پر جب وہ ماحول جیسے اہم شعبے سے متعلق ہو، اسے سراہا جانا چاہیے اور جاری رہنا چاہیے۔
ہمیں پانی کے ساتھ دوستی کرنی ہے، پانی کو ضائع کرنے کے بجائے اس کا صحیح استعمال کرنا ہے اور اس کی قدر کرنی ہے۔ ہمیں ہوا کو زہر سے پاک کرنا ہے، فیکٹریوں کے دھویں کو کنٹرول کرنا ہے اور پبلک ٹرانسپورٹ کا استعمال کرنا ہے۔ ہمیں زمین کو مٹی بننے دینا ہے، پلاسٹک اور دیگر آلودگیوں سے اسے پاک کرنا ہے تاکہ یہ دوبارہ زرخیز ہو سکے۔ اور سب سے بڑھ کر اپنے بچوں کو ماحولیاتی شعور دینا ہے۔ انہیں بتانا ہے کہ یہ زمین اور اس کی تمام نعمتیں اللہ کی امانت ہیں اور ان کی حفاظت ہمارا دینی اور اخلاقی فریضہ ہے۔ یہ اب فیشن نہیں، عقلمندی ہے۔ اور شاید بقا کی آخری امید بھی۔
یہ صرف حکومتوں یا بڑی تنظیموں کی ذمہ داری نہیں، بلکہ ہم میں سے ہر فرد کی ذاتی ذمہ داری ہے۔ ہمیں اپنے گھروں سے آغاز کرنا ہو گا۔ پانی اور بجلی کا احتیاط سے استعمال کرنا ہو گا، کوڑا کرکٹ کو صحیح طریقے سے ٹھکانے لگانا ہو گا، اور ہر ممکن حد تک پودے لگانے ہوں گے۔ ایک درخت لگانا محض ایک پودا لگانا نہیں، بلکہ ایک امید بونا ہے، ایک مستقبل تعمیر کرنا ہے۔
ربیعہ جیسے سوال صرف ایک فرد کا درد نہیں، یہ پوری نسل کا سوال ہے۔ اگر ہم نے اسے سنا، سمجھا، اور جواب دیا — تو شاید ابھی کچھ وقت باقی ہے۔ ورنہ وہ دن دور نہیں، جب بادلوں کا شور، بارش کی تیزیاں اور اندھیاؤں کا شور ماضی کی “یادیں” نہ ہوں بلکہ مستقل “شکایتیں” بن جائیں۔ اس وقت پچھتاوے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہو گا۔
بس دعا یہی ہے کہ:
یہ زمیں پھر سے مہربان ہو جائے،
یہ ہوائیں کچھ نرم گمان ہو جائیں،
اور ہم… انسان ہو جائیں۔
اور یہ “انسان” ہونے کا مطلب ہے کہ ہم اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں، فطرت کے ساتھ ہم آہنگی سے جئیں، اور اللہ کے دیے گئے وسائل کی حفاظت کریں۔ ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ ہماری بقا فطرت کے ساتھ جڑی ہوئی ہے، اور اگر ہم فطرت کو تباہ کریں گے تو خود بھی تباہ ہو جائیں گے۔ آئیے، ہم سب مل کر اس بگاڑ کو درست کرنے کی کوشش کریں اور ایک بہتر، سرسبز، اور خوشحال مستقبل کی بنیاد رکھیں۔

اپنا تبصرہ لکھیں