متنازعہ شہریت ترمیمی قانون اور قومی شہری رجسٹر کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے

خالد فتح
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آجC.A A.اورN.R.C.کے تعلق سےنہ صرف پورا ملک شعلوں کی زد میں ہے بلکہ انصاف اور امن پسند ممالک سے اس قانون کے خلاف آوازیں اٹھ رہی ہیں ۔طلبہ اور نوجوانوں کے ساتھ ساتھ بھارت کے نامور مورخ اور امن و انصاف کی شیدائی سرکردہ شخصیات مذہبی تفریق کے بغیر اس کالے قانون کے خلاف میدان عمل میں اتر آئے ہیں۔ ان حالات میں اپوزیشن اور عوام کی مخالفت کو کبھی خاطر میں نہ لانے والی موجودہ مرکزی سرکار اپنی پگڑی بچانے کے لیے فکر مند نظر آرہی ہے۔یہ پینترے بدل بدل کر اپنے حلق میں پھنسی C.A.A.اورN.R.C.کی ہڈی سے چھٹکارا یا ناجائز فائدہ اٹھانے کے لیے کوشاں ہے اور ہمیشہ کی طرح جھوٹے خواب و پر فریب قومیت(راشٹرواد) کا جھوٹا چولہ پہن کر زہر کو دوا بتا کر فروخت کرنے کی ناکام کوشش کر رہی ہے۔ عوام کو بانٹنے اور متنازعہ قانون کے حق میں ریلیاں نکال کر اپنے مقصد میں ناکامی کی شکل میں وزیر اعظم اور وزیر داخلہ تک اپنے عہدوں کا پاس و لحاظ بھول کر الگ بیانات دے رہے ہیں اور گمراہی پھیلا رہے ہیں ۔عوام سے مشاورتی ڈیسک بنا کر تو کبھی door to doorپہنچ کر 3،کروڑ افراد کو اس قانون حق میں ہموار کرنے کی بات کی جا رہی ہے۔(سوشل میڈیا کے مطابق بعض جگہ یہ پروپیگنڈا شروع ہوچکا ہے۔)
ایسی صورت میں ہمارے اور ہر امن پسند محب وطن کے دل میں چند سوالات اور نکات کا اٹھنا لازمی ہے۔ چند کا ذکر ہم حکومت اور اس قانون کے حق میں آنے والے کارندوں سے کرنے کے لیے یہاں کر رہے ہیں ۔
1۔کیا یہ قانون بیرونی طاقتوں نے حکومت وقت کو مجبور کر کے بنوایا ہے؟
2۔اپنے کسی خفیہ منصوبے اور ایجنڈے کو نافذ کرنے کے بدلے حکومت نے کوئی سودے بازی تو نہیں کی ہے۔
3۔یہ اب ایک عام سوال بن گیا ہیکہ کیایہ قانون ملک کی گرتی ہوئی اقتصادی حالت، بے روزگاری اور حکومت کے ملکی مفاد میں ہر سطح پر ناکامی کی پردہ داری تو نہیں ہے؟
ایسے اور کئی بے شمار سوالات ہیں جو اس سیاہ قانون کے بین الاقوامی بنیادوں پر درپیش اثرات اور درج ذیل عوامل کے سبب فوری طور پر جواب طلب ہیں ۔
1.یہ قانون بین الاقوامی سطح پر آن تمام اقوام کو خود ان کے موجودہ ملک میں غیر محفوظ بناتا ہے جن کو بھارت میں شہریت کی سہولت فراہم کی جا رہی ہے۔
2۔پوری دنیا کو یہ جواز فراہم کرتا ہیکہ وہ انھیں اپنے اپنے دیش سےنکال باہر کردے۔
3۔بھارت کے دشمن ممالک کو دراندازی کے مواقع فراہم کرتا ہے۔
4۔دنیا کے کسی اور ملک میں ان اقوام کی شہریت کے حصول کو مشکل بناتا ہے۔
5۔یہ قانون پوری دنیا کے ممالک کو عموما اورپاکستان، بنگلہ دیش و افغانستان کو خصوصا اکساتااور یہ جواز فراہم کرتا ہیکہ وہ انھیں اپنے ملک کی شہریت سے محروم کردے ۔
لہذا اس قانون کے حامیوں( مجبوری میں )اور مخالفین کو اس نقطہ نظر سے سوچ کر آنے والے افراد اور حالات کا مقابلہ کرنا چاہئے ۔
اور حومت کو بھی چاہیے کہ اس تناظر میں اپنی پالیسیوں کو واضح کرے۔اور اگر عجلت یا دباو میں کوئی غلطی ہوگئی ہے تو اسے انا کا مسئلہ نہ بناتے ہوئے جمہوریت واپسی کر لے ۔اسی میں ملک و قوم کی بھلائی ہے ۔ورنہ جو قدم اپنی غلطی پر پیچھے نہیں ہٹتے تاریخ گواہ ہے ان کا انجام بھیانک ہوتا ہے۔
ہندوستانی عوام جہاں آگے بڑھانا جانتے ہیں وہیں غلطیوں پر ایک آنچ پیچھے نہ ہٹنے والوں کو پیچھے دھکیل کر گرانا بھی جانتے ہیں ۔اسی کا نام جمہوریت ہے۔”عوام کی حکومت عوام کے لیئے اور عوام کے ذریعے ”
خالد فتح محمد

اپنا تبصرہ لکھیں