ڈاکٹرعلامہ طاہر القادری کی لانگ مارچ اور حقائق
سویڈن کی ڈائری
ڈاکٹر عارف کسانہ
حصہ اول
علامہ طاہر القادری کا لانگ مارچ سویڈن میں پاکستانیوں کا اہم موضوع ہے۔پاکستانیوںمیںآجکل اہم موضوع گفتگو ہے۔پاکستانیوں کی کوئی بھی محفل ہو ہر جگہ یہی تذکرہ ہے۔کوئی مجوذہ لانگ مارچ کے حق میںدلائل دے رہا ہوتا ہے تو کوئی اس کے مضمرات سے آ گاہ کر رہا ہوتا ہے۔اب تک تو ایک دو دنوں میں صورتحال واضع ہو جائے گی کہ مارچ ہوتا ہے کہ نہیں۔کیا حکومت آخری لمحات میں ایسے اقدامات اٹھاتی ہے جس کی وجہ سے علامہ صاحب مارچ موخر کر دیتے ہیں۔بصورت دیگر اگر واقعی مارچ سامنے آتا ہے تو اس کے کیا نتائج سامنے آتے ہیں۔اس ساری بحث سے قطع نظر محب وطن قوم کی اکثریت اس سارے نظام سے متنفر ہو چکی ہے ۔اور وہ سٹیٹس کو ختم ہوتے دیکھنا چاہتے ہیں۔ Status que – must go کا نعرہ لگانے والے پیپلز پارٹی کے سابق وزیر اور سیکرٹری جنرل ڈاکٹر غلام حسین سے ایک دہائی قبل جب اسٹاک ہوم میں ملاقات ہوئی تھی تو انہوں نے فرمایا تھا کہ طاہر القادری ممکن ہے کہ پاکستان کے مستقبل میں پاکستان کے حالات بدلنے میں اہم کردار ادا کرے۔لاہور کے تیس ستمبر کے جلسے کے بعد کالم نویس اور تجزیہ نگار اس کھوج میں ہیں کہ وہ کس کے اشارے پر یہ سب کچھ کر رہے ہیں۔جہاں تک ڈاکٹر طاہر القادری کا تعلق ہے تو ان کے دل و دماغ میں پاکستان میں انقلاب بپا کرنے اور پھر عالم اسلام کا عظیم رہنماء بننے کی خواہش ان کی جوانی کے دور سے تھی۔ جب انہوں نے جھنگ محاذ حریت قائم کیا اور پھر لاہور آ کر کاروان اسلام بنا جو بعد ازاں ادارہ منہاج القرآن اور پھر موچی دروازہ لاہور میں 25 مئی کو عوام تحریک کی صورت میں سامنے آیا۔پاکستان کی صحافت اور سیاست میں بد گمانی اور غلو کی گہری چھاپ ہے۔ اندھی عقیدت اور تعصب جیسے رویے عام ہیں۔غلو اور عقیدت میں سیاسی اور مذہبی رہنمائوں کے پیرو کار اندھی عقیدت میں آنکھیں بند کر کے اپنے قائدین کی ہر غلط بات کی تائید کرتے چلے جاتے ہیں ۔اور نعوذباللہ انہیں پیغمبر تک کا درجہ عقیدت کے اعتبار سے دے دیتے ہیں۔دوسری جانب تعصب یا بد گمانی میں مخالف جماعت کی اچھی بات کو بھی تسلیم نہیں کیا جاتا۔اور مخالفت برائے مخالفت کا وطیرہ اپنا لیا جاتا ہے۔ڈاکٹر طاہر القادری کی سوچ اور طریقہ کار سے اختلاف ممکن ہے۔ان کے ماضی کے کئی بیانات میں تضادات ہو سکتے ہیں۔انہیں ذاتی شہرت کا شوق ہو سکتا ہے لیکن وہ جو کہہ رہے ہیں وہ کچلی ہوئی محب وطن دل کی آواز ہے۔بنیادی ضروریات کو ترسے ہوئے عوام کو امید کی کرن نظر آ رہی ہے۔عوام موجودہ نظام سے سخت بہزار ہیں جس میں اقرباء پر وری ،لاقانونیت ،قومی خزانے کی لوٹ سیل اور آئین کا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔جمہوریت کا درس دینے والی دونوں جماعتیں یہ تو بتائیں کہ کیا خود ان کی جماعتوں میں جمہوریت ہے؟ان کے جماعتی انتخاب کب ہوئے تھے ؟ کیا یہ جمہوریت ہے کہ بیوی کے بعد خاوند بیٹا اور بہن جماعت پر قابض ہو؟کیا یہ جمہوریت ہے کہ بھائی کے بعد بھائی بیٹی داماد اور بھتییجا جماعت کا کرتا دھرتا ہو۔پھر یہ بتائیں کہ پانچ سالوں میں بلدیاتی انتخابات کیوں نہیں کرائے گئے حالانکہ عوام کی بنیادی ضروریات حکومتیں پوری کرتی ہیں۔جب تک انتخابی نظام نہیں بدلے گا دولت اور اختیار کے بل بوتے پر یہی لوگ آتے رہیں گے اور عوام کی دولت کو ذاتی تشہیر کے لیے کبھی سنگ بنیاد اور کبھی افتتاح کے نام پر اور اشتہاری مہم پر خرچ کرتے رہیں گے۔دلوں کے بھید تو خدائے علیم و بصیر ہی جانتا ہے مگر جب ڈاکٹر طاہر القادری نے قرآن پرحلف لے کر اپنی سچائی بیان کی ہے تو ایک مسلمان کے لیے ماننا ہی بہتر ہے اور اگر یہ حلف جھوٹ پر مبنی ہے تو پھر خدا کی پکڑبہت سخت ہے وہ اپنی کتاب کی توہین کا بدلہ خود لے گا۔مگر کیا پاکستان کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کی قیادت یہ حلف دے سکتی ہے کہ انہوں نے آج تک جمہوریت کے خلاف سازش نہیں کی حکومت اور معاملات کے لیے مقتدر حلقوں اور بیرونی عناصر سے مدد نہیں لی۔کیا قومی دولت اور اختیارات کا ناجائز استعمال نہیں کیا۔اور کیا کبھی جھوٹ نہیں بولا۔اگر وہ یہ سب نہیں کہہ سکتے تو اسکا صاف مطلب ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری کی باتوں میں وزن ہیں۔ کیا آئین کی بالا دستی کا مطالبہ جرم ہے؟اگر پاکستان کی حکمران جماعتیں واقعی مخلص ہیں اور وہ آئین کی بالا دستی چاہتی ہیںتو فوری طور پر الیکشن کمشن کو مکمل با اختیار بنا کر اور آئین کی باسٹھ اور تریسٹھ کی شرائط پر عمل کرنے کااعلان کر کے لانگ مارچ کو روکا جا سکتا ہے۔اور پھر عوام بھی مارچ میں شرکت نہیں کریں گے۔اب وقت آگیا ہے کہ عدل اور انصاف کا نظام نافذ ہو گا۔
Its v informative n positve honest article .log wana Get rid of warasti nazam n injustice, Dr. Tahir Qadri wana change The system, n everyone wan it , so gv The chance to bring change.
yes its correct I agree with u.
Fatima